موت دو سیکنڈ پیچھے ہے


موت زندگی سے محض دو سیکنڈ پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔ ہم سب دو سیکنڈ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ موت ہر لحظہ جھپٹتی ہے مگر زندگی دو سیکنڈ آگے سرک جاتی ہے۔ دو سیکنڈ کا یہ فاصلہ ہماری زندگی کا ضامن ہے۔ اگرزندگی کی رفتار میں صرف دو سیکنڈ کا فرق آ جائے۔ زندگی صرف دو سیکنڈ کے لیے رک جائے تو موت جھپٹ پڑتی ہے اور زندگی ہار جاتی ہے۔

زندگی اور موت کی یہ آنکھ مچولی ہماری پہلی سانس سے لے کر آخری ہچکی تک مسلسل جاری رہتی ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس آنکھ مچولی کو دیکھ نہیں پاتے۔ ان کی زندگی میں دو سیکنڈ کا توقف نہیں آتا اور یوں وہ چلتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک سیکنڈ کے وقفے کا تجربہ کرتے ہیں اور موت انہیں چھو کر گزر جاتی ہے۔ آپ لوگ یاد کریں۔ کبھی سڑک پر آپ کے قریب سے کوئی تیز رفتار گاڑی زوں کر کے گزری ہو گی۔ کوئی بھاری پتھر آپ سے چند انچ کے فاصلے پر آکر گرا ہو گا۔ آپ کو کھانا کھاتے یا پانی پیتے اچھو لگا ہوگا اور آپ کا سانس رک گیا ہو گا۔ کوئی اندھا فائر آپ کے کپڑوں کو چھوتا ہوا گزر گیا ہو گا۔ کبھی آپ کو کرنٹ لگا ہو گا۔ کسی لڑائی جھگڑے میں کوئی زوردار مکہ آپ کے دل سے چند انچ دور لگا ہو گا۔ کسی ایکسیڈنٹ میں آپ معجزانہ طور پر بچ گئے ہوں گے۔ یہ وہ واقعات ہیں جن میں زندگی ایک سیکنڈ کے لیے رک کر پھر چل پڑتی ہے۔ مگر یہ ایک سیکنڈ صدیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ ہمیں ہماری اوقات یاد دلا دیتا ہے۔ یہ بتا دیتا ہے کہ صرف ایک سیکنڈ مزید زندگی اور رک جاتی تو ہماری کہانی تمام ہو جاتی۔ کبھی کبھار موت دو سیکنڈز کا فرق ختم کرنے کے لیے تیزی سے جھپٹتی ہے۔ جو لوگ یہ دو سیکنڈ کا فرق برقرار نہیں رکھ پائے وہ آج یہ تحریر پڑھنے کے قابل نہیں ہیں۔ بلکہ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں جو دو سیکنڈ کے فرق سے اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں۔

زندگی اور موت کے انہی دو سیکنڈز کا ایک فاصلہ آج ختم ہوا۔ صبح کے وقت سڑک پر معمول کا ٹریفک تھا۔ ایک موٹر سائیکل سوار کافی تیز رفتاری سے جا رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک یو۔ ٹرن تھا۔ موٹر سائیکل سوار نے جلدی میں اس کو نظر انداز کیا اور انتہائی دائیں جانب رہتے ہوئے یو۔ ٹرن سے گزرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب سے ایک گاڑی والا گاڑی موڑ رہا تھا۔ اس نے موٹر سائیکل کو آندھی اور طوفان کی طرح آتے دیکھا تو بجائے بریک لگا کر انتظار کرنے کے تیزی سے گاڑی گھما کر نکلنے کی کوشش کی۔ صرف دو سیکنڈ کا فرق پڑا اور موٹر سائیکل پوری رفتار میں گاڑی سے جا ٹکرائی۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور موٹر سائیکل سوار گیند کی طرح اچھل کر سر کے بل سڑک پر جا گرا۔ اس کے سر پر ہیلمٹ نہیں تھا چناچہ اس کا سر کسی تربوز کی طرح پھٹ گیا اور بھیجہ باہر آ گیا۔ اس کو شاید دوسرا سانس لینے کی مہلت بھی نہ ملی ہو گی۔ موت نہایت بے رحمی سے اس کی زندگی کے دو سیکنڈ کے فاصلے کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

23 اگست 2015 کو روزنامہ دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں گذشتہ دس سال کے جائزے کی بنیاد پر یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر 15 افراد ٹریفک حادثوں میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر ہم اس اوسط کو 365 سے ضرب دے دیں تو ایک سال میں یہ تعداد پانچ ہزار چار سو پچھتر تک جا پہنچتی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جاری کردہ ٹریفک رپورٹ کے مطابق سال 16۔ 2015 میں پاکستان میں اکانوے ہزار ایکسیڈنٹ ہوئے جن میں تین ہزار پانچ سو اکانوے ایکسیڈنٹ مہلک تھے جبکہ پانچ ہزار پانچ سو نو ایکسیڈنٹ ایسے تھے جو مہلک نہیں تھے۔ ان ایکسیڈنٹ میں کل چار ہزار چار سو اور اڑتالیس لوگ زندگی اور موت کے دو سیکنڈ کےفرق کے ختم ہو جانے کا شکار ہو گئے جبکہ گیارہ ہزار پانچ سو اور چوالیس لوگ وہ تھے جنہوں نے ایک سیکنڈ کا وقفہ دیکھا اور زندگی آگے چل پڑی۔

اعداد کا گورکھ دھندا پیچیدہ ہوتا ہے۔ اگر آپ مزید تفصیل سے اعداد و شمار ملاحظہ کرنا چاہیں تو گوگل پر سرچ کر لیں۔ آپ کے سامنے معلومات آ جائیں گی۔ میں تو صرف یہ التجا کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی ایک بہت حسین مہلت ہے جو انسان کو عطا کی گئی ہے۔ اس میں رنگ ہیں، روشنی ہے۔ امید ہے۔ جستجو ہے اور تسکین ہے۔ اس خوبصورت زندگی میں اپنی رفتار کو موت کی رفتار سے دو سیکنڈ آگے رکھیئے۔ آپ کی ایک چھوٹی سی غلطی آپ کی یا آپ کی وجہ سے کسی اور کی کہانی کو ختم کر سکتی ہے۔ زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔ اور سفر حرکت کا محتاج ہے۔ حرکت رک جائے تو وقت کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ ہمیں وقت کے ان مہلک فاصلوں کو برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں زندہ رہنا ہے اور زندگی کا لطف اٹھانا ہے۔

زندگی حقوق و فرائض کا کھیل ہے۔ یاد رکھیئے کہ جو آپ کا فرض ہے وہ دوسروں کا حق ہے اور یہی حق آپ بھی رکھتے ہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم اپنے فرائض کو پورا نہیں کرتے مگر اپنے حقوق کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ہماری اپنے فرائض سے معمولی سی کوتاہی بھی کسی دوسرے کے حقوق کی تلفی کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک بات ضرور ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دنیا کا نظام کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر چلتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا ہے تو اس سے پہلے ہمیں اپنے فرائض کو پورا کرنا پڑے گا۔ وہ چاہے بنیادی انسانی حقوق ہوں، خواتین کے حقوق ہوں، غریبوں کے حقوق ہوں یا اقلیتوں کے حقوق ہوں۔ اپنے اپنے فرائض سب کو ادا کرنے پڑیں گے اس اس کے بعد ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ زندگی کا بھی ہم پر حق ہے۔ اور وہ حق یہ ہے کہ ہم اس کو خوبصورت اور بہترین طریقے سے بسر کریں۔ جو زندگی کا حق ہے وہی ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم زندگی کو اس کا حق نہیں دیں گے تو پھر موت اپنا حق چھین لے گی۔ زندگی اورموت کے درمیان دو سیکنڈ کا فاصلہ ختم ہو جائے گا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad