چالیس برس قبل بوئی فصل کاٹ رہے ہیں


جرمنی کے دارالحکومت میونخ میں سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ایک تلخ حقیقت کا اعتراف کیا ہے، جس کا اعتراف ہمارے سویلین حکمران تو گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں، مگر فوجی حکمران اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ موجود آرمی چیف نے ماضی کے فوجی سربراہوں اور حکمرانوں سے دو قدم آگے بڑھ کر تسلیم کیا کہ ”ہم چالیس سال قبل بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں‘‘۔ آرمی چیف نے یہ اعتراف کرتے ہوئے امریکا کو یاد دلایا ہے کہ یہ طالبان آپ نے پیدا کیے تاکہ سویت یونین کو افغانستان سے نکالا جائے، امریکا کی سرپرستی میں پاکستان نے سویت یونین کو تو افغانستان سے نکال باہر کیا مگر امریکا اپنے تربیت یافتہ طالبان کو ویسے کا ویسا ہی چھوڑگیا اور پاکستان کو بھی مسلح اور تربیت یافتہ طالبان کے رحم و کرم پر رہنے دیا، جس سے دہشت گردی نے جنم لیا۔

دہشت گردی کی جنگ میں کہنے کو تو بہت سے ممالک شریک ہیں لیکن دہشت گردی سے لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی قوم کا ہوا ہے۔ بقول آرمی چیف اب تک دہشت گردوں سے لڑائی میں پاکستان کو 250 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جب کہ ہزاروں سول اور فوجی جوانوں کے لاشے بھی اٹھائے ہیں۔ بیرونی دنیا نے ہمارے نقصانات کی تلافی کے لیے آٹے میں نمک کے برابر مدد کی ہے۔

دنیا کی واحد سپر طاقت کو رتی بھر حیا نہیں آتی کہ وہ کس منہ سے پاکستان سے’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتی ہے۔ کسی قسم کا مطالبہ کرنے سے قبل اسے اپنے گربیان میں منہ ڈال کر جھانکنا چاہیے۔ اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے۔ ہم اپنی لڑائی تو لڑ نہیں رہے امریکا کی مسلط کردہ جنگ ہمارے پلے پڑگئی ہے۔ دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ عالمی مسئلہ ہے۔ اس جنگ میں اگر کامیابی چاہیے تو پھر عالمی برادری کو آگے بڑھنا ہوگا اور اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔

اس حوالے تعصب کی عینک اتارنا ہوگی۔ افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو روکنے کے لیے افغانستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے؛ امریکا سمیت عالمی برادری کو اس پر دباؤ بڑھانا ہوگا۔ اس حوالے سے بھارت کو بھی نکیل ڈالنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنا ہوگا۔ ورنہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے میں مشکلات حائل ہوتی رہیں گی۔ آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ نے درست فورم پر صحیح موقف اپنایا ہے اور دنیا کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی ہیں۔ تن تنہا پاکستان دہشت گردی کی جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے بیان کردہ حقائق کو عالمی برادری تسلیم کرے؛ جب پاکستان کے آرمی چیف کہہ رہے ہیں کہ ’’وہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ القاعدہ، جماعت الا احرار اور طالبان کو شکست دیدی گئی ہے اور اس وقت پاکستان میں کوئی دہشت گرد کیمپ موجود نہیں، تو عالمی برادری کی جانب سے پاکستان پر بھروسا نہ کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔ پاکستان کے سپاہ سالار عالمی برادری کے علم میں یہ بات بھی لائے کہ افغانستان سے پاکستان کی حدود میں حملے ہورہے ہیں، جب کہ وہاں امریکا کی قیادت میں عالمی فوجی اتحاد موجود ہے؛ اس لیے امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان بارڈر پر موثر اقدامات کرے اور وہاں سے ہونے والے حملوں کو روکے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، کیوں کہ اب پاکستان اس بوجھ کو اٹھانے کی حیثیت میں نہیں۔ پاکستان اس وقت تیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔

پاکستان اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے ادا کررہا ہے اور سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کی غرض سے پاکستان نے افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بارڈر پہ 175 کلومیٹر تک کام تقریبا تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ پاکستان کی جانب سے دنیا کو امن کا گہوارا بنانے کے لیے پرخلوص کوششوں کو شکوک کی نظر سے دیکھنا، بعض ممالک کو زیب نہیں دیتا۔ ڈومور، ڈومور کہنے کی گردان اب بند ہونا چاہیے اور عالمی برادری کو اپنے فرائض کی ادائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).