راؤ انوار کا درد سر۔ حل کیسے نکالیں؟


لگتا ہے راؤ انوار کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ پورے ملک کے سکیورٹی ادارے اس کے پیچھے ہیں۔
عدالت بھی حکم پر حکم لگا رہی ہے، لیکن لگتا ہے سکیورٹی اداروں کی ’کارروائیاں‘ تیل لینے گئی ہیں۔
’ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ پر گرفت؟ عقل کے ناخن لو صاحب!‘

وہ جو جعلی مقابلوں کا ماہر ہو، وہ کسی کے ہتھے کیسے چڑھے گا؟ وہ جو خود دوسروں کوسکھاتا ہوگا، ان سے کام نکلوا کر کھڈے لائن لگاتا ہوگا، اس کے کارندوں سے یا اس کے جونئیر سے اس کو پکڑنے کی توقع کرنا بے کار ہے۔

مظلوم کو قتل کرنے پر جس کا دل نہ ڈولا ہو، جس کے ہاتھ نہ کانپتے ہوں، اس شکاری کو پنچھی بنا کر قید کرنے والوں پر حیرت ہے، اور جواسے ترنوالہ سمجھ کرسیاست چمکانے کا سوچ رہے ہیں، ان کی سوجھ بوجھ کو داد دینا تو بنتی ہے۔ !

راؤ جس کا مہرہ تھا، ظاہر سی بات ہے اسی کی پناہ میں ہوگا، اور اپنی چالیں چل رہا ہوگا۔ یقینا وہ اپنے مالک کے سارے بھید بھی جانتا ہوگا، کہ وہ اسے کہاں بچاسکتا ہے! کہاں پھنساسکتا ہے! کہاں اس کے پَر جلیں گے۔ اسے کہاں سے آگے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں، اور کسی کا توڑ بننے سے پہلے یقینا کہیں نہ کہیں اس نے نیا جوڑ تو بنا ہی لیا ہوگا؛ اس لیے آؤٹ آف باکس سوچیں۔

متاثرہ و مظلوم سامنے آنے، مقدموں کی تعداد بڑھانے، الیکڑانک اور سوشل میڈیا پر پیغام دینے، خط لکھنے اور یقین کرلینے سے وہ ہاتھ نہیں آنے والا۔ وہ سب کی پہنچ سے دور ہے۔ راؤ انوار ہے یا چھلاوا؟

نقیب قتل کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے لیے اداروں کو مزید پندرہ دن کا وقت مل گیا ہے۔ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے راؤ انوار کی طرف سے ملنے والے خط کے بعد اسے عبوری ضمانت دیتے ہوئے جمعہ 16 فروری کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
لیکن طویل انتظار پر بھی وہ نہ آئے نہ انھیں آنا تھا۔

تو نہ آیا تو راؤ، پولیس آئے گی۔
تیرے در پہ، سب چلے آئیں گے

البتہ سوال یہ اٹھا کہ آیا خط راؤ انوار ہی نے لکھا تھا یا معززعدلیہ کو گم راہ کرنے یا وقت حاصل کرنے کے لیے چال چلی گئی تھی؟ سپریم کورٹ نے ماورائے عدالت قتل کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران حفاظتی ضمانت کے باوجود پیش نہ ہونے پر راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ ان کے تمام اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا۔ حساس اداروں کو ہدایت کی کہ گرفتاری میں سہولت فراہم کریں اور عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔ عدالت نے چاروں صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت کی کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے گواہوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ سماعت کے موقع پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سمیت سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راؤ انوار جہاں بھی ہوگا اسے ڈھونڈ نکالیں گے، پہلی ترجیح اس کی حاضری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیس کے دیگر ملزمان کا کیا ہوا۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 21 میں سے 9 کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ تو پچاس فی صد کارکردگی بھی نہیں، پنجاب پولیس نے میرے حکم پر 36 گھنٹوں میں زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی کوششوں کے باوجود رزلٹ نہیں آرہے، میں آج بہت پرامید تھا کہ کوئی نہ کوئی ڈیولپ منٹ ہوگی۔ عدالت نے سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کردی۔

13 جنوری کو مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود سمیت 3 افراد کو ہلاک کردیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے کر آئی جی سندھ سے 7 روز میں رپورٹ طلب کی تھی، راؤ انوار کو ان کے عہدے سے فارغ کرکے ان کانام ای سی ایل میں شامل کیا جاچکا ہے۔

لیکن راؤ انوار کے لیے یہ سب نیا نہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے انتہائی متنازع کردارسابق ایس ایس پی راؤ انوار پہلی بار کسی انکوائری کا سامنا نہیں کررہے۔ 35 سالہ کیریئر میں انھیں ہر انکوائری سے کلین چٹ ہی ملی ہے۔

اب یہ ان کی قسمت ہے یا تعلقات جو ان پر آنچ آنے نہیں دیتے، یہ حقیقت کبھی کھل کر سامنے نہیں آسکی۔ راؤ انوار 1980ء کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے میں تعینات رہے۔ 1992ء میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ تو راؤ انوار ایکس پاکستان لیو پر چلے گئے اور یہ عرصہ انھوں نے دبئی میں گزارا۔

2008ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا، گزشتہ دس برس میں وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہے ہیں۔ راؤ انوار نے 2016ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد مقابلے کرچکے ہیں اگر انھیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے۔

سندھ ہائی کورٹ اورمحکمہ پولیس میں راؤ انوار کے خلاف لوگوں کو ہراساں کرکے اراضی پر قبضے کرنے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں؛ عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے کئی بار وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں، اس صورت احوال میں وہ عدالت میں پیش ہوکر یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ لیکن اس بار وہ زرا الگ چال چل رہے ہیں، شاید یہ جل کی وہ مچھلی ہیں جو کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے سوراخ والے جال سے بچ نکلتی ہے، اور دیکھنے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

راؤ انوار کا کیرئیر اختتام کے قریب ہے، رِٹائرمنٹ میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، مگر حالیہ مقابلے پر سوالات اُٹھنے کے بعد لگتا ہے کہ راؤ انوار صاحب بہت بری طرح پھنس چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مقتدر شخصیات سے خصوصی قربت کے دعویدار راؤ انوار، کیا اِس بار بھی بحال ہوتے ہیں یا اِس مرتبہ عوامی ردِعمل، اِس باب کوہمیشہ کے لیے بند کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے!

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza