جب ساتھ رہنا ہے تو کیوں ناں محبت سے رہا جائے؟


دو گاؤں ساتھ ساتھ واقع تھے، جن کے درمیان سے سڑک نکلی، اس سے ایک چوک معرض وجود میں آ گیا۔ دونوں گاؤں کے لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ چوک ان کی ملکیت ہے؛ بات دعوی سے شروع ہوئی، تلخ کلامی تک جا پہنچی۔ تلخ کلامی سے گھونسوں لاتوں تک پہنچتے دیر نہیں لگتی۔ یوں دلوں میں رنجشیں پیدا ہوگئیں۔ ان رنجشوں نے موقع پاکر ایک طرف کے آدمیوں سے دوسری طرف کا آدمی قتل کروادیا۔ اس کے بدلے کے لیے دوسری طرف کے آدمی پہلی طرف کا آدمی ہلاک کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بدلہ در بدلے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

حد یہ ہے کہ اس سلسلےنے ٌ72 لوگوں کی جان لے لی۔ علاقے کی حالت یہ ہو گئی کہ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی کثرت ہوئی۔ زمین سے اگنے والی فصل پیٹ کی آگ بجھانے کی بجائے بندوقوں کی نال کا دوزخ بھرنے لگی۔ بیٹیوں کے سروں کے بال گھر بیٹھے سفید ہونے لگے۔ بڑی تعداد میں جوان جیلوں میں تھے؛ پڑھنے لکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ بدلے کی آگ پر نئی نسل پکتی تھی۔ رات کو گھروں سے نکلنا تو دور کی بات ہے، دن چڑھے نکلنا دشوار تھا۔ تھانہ کچہری، اس گاؤں کے بچوں کے رزق کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی چاٹ رہے تھے۔ دو نسلیں اس رنجش کی نذر ہو گئیں تو ایک سید کو اس علاقے پر رحم آیا۔ وہ اسی منحوس چوراہے میں کھڑا ہو گیا۔ اور کہا مجھے قتل کردو، یا دونوں گروہ میرے پاس آؤ اور بات کرتے ہیں۔ بات کرنا آ جائے تو تنازِع ختم ہو جاتے ہیں۔ یہی کام عقل مند جنگ سے پہلے اور شعور سے عاری جنگ کے بعد کرتے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں، کہ دونوں گاؤں کے باشندے اس درویش کے سامنے بیٹھ گئے اور اس نے دونوں کو باری باری سننا شروع کیا؛ کہیں پر روکتا اور کبھی مزید باتیں پوچھتا۔ قصہ مختصر؛ اس نے دونوں گاؤں والوں کی یوں صلح کرائی کہ ہر گاؤں والا یہ سمجھتا ہے، انھوں نے وہی فیصلہ کیا جو ہم چاہتے تھے۔ حیرت کی بات ہے جھگڑے کو ختم کرنے کے طریق ہائے کار پر ایک ورک شاپ تھی۔ اقوام متحدہ کے ایک ٹرینر ٹریننگ دے رہے تھے، انھوں نے تنازِع کو حل کرنے کے مختلف طریقے بتائے اور پھر کہنے لگے، سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ تنازِع کے تمام فریق یہ سمجھنے لگیں کہ اس فیصلے میں ان کی جیت ہوئی ہے، تو یہ تنازِع کے حل کا سب سے بہترین طریقہ ہو گا۔ جانے کہاں سے اس درویش نے یہ طریقہ سیکھا تھا، جو نسلوں کی دشمنی کو ختم کرگیا۔

ایک مدت تک جھنگ میں مذہبی فسادات عروج پر رہے۔ ایک گروہ دوسرے کو مذہب کی وجہ سے نشانہ بنا رہا تھا، تو دوسرا پہلے کو نشانہ بناتا تھا۔ اس کا خمیازہ جھنگ کے تمام اہل مسالک نے بھگتا ہے۔ جس زمانے میں فیصل آباد لائل پور تھا اور ایک چھوٹا سا شہر ہوا کرتا؛ اس وقت جھنگ ایک بڑا شہر تھا۔ یقین نہ آئے تو تاریخ کو دیکھ لیں، جھنگ کے کچھ علاقے کو الگ کر کے لائل پور کا نیا ضلع بنایا گیا تھا۔ آج فیصل آباد کہا ں ہے؟ اور جھنگ کہاں ہے؟ منافرت نے اہل جھنگ کی معیشت کو تباہ کردیا؛ ان کی دو نسلیں تعلیم سے دور رہ گئیں اور یہ ترقی کی دوڑ میں اتنا پیچھے ہے کہ آج کراچی سے لے کر اسلام آباد تک مزدور طبقے کی بڑی تعداد اس خطے کی باسیوں سے ہے۔ کوئی فرقہ بھی جیت نہیں سکا مگر جھنگ کے لوگ ہار گئے، جو اپنے پیٹ کی خاطر در بدر ہیں۔ کاش جھنگ کے لوگوں کو کوئی درویش مل جاتا جو ان کے درمیان کھڑے ہو کر کہتا رک جاؤ اور پھر بٹھا کر سب کو جتوا دیتا۔

آپ کراچی کو دیکھ لیں روشنیوں کا شہر تھا، مالی وسائل کا شہر تھا، فیکٹریوں اور کارخانوں کا شہر تھا۔ جس کے بارے میں ساٹھ کی دہائی میں مغربی سفارت کار کہتے تھے، جس رفتار سے یہ شہر ترقی کررہا ہے، لگ یہ رہا ہے کہ اسی کی دہائی میں یہ ترقی میں لندن اور نیویارک کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ مگر پھر لسانیت اور بعد میں فرقہ واریت کی آگ ایسی لگی کہ وہ شہر جو پورے پاکستان کے بے روزگار لوگوں کو روزگار دینے کے لیے مشہور تھا، جہاں ہر علاقے کے لوگ بے خطر رہتے تھے، وہ مذہب، علاقہ، زبان اور نسل کی بنیاد پر تقسیم ہونا شروع ہو گیا۔ اس تقسیم نے کراچی کو تباہ کردیا۔ اس کے مقابل لاہور، تمام تر اہمیت کے باوجود کراچی سے بہت پیچھے تھا، مگر امن سکون کی وجہ سے یہ آگے بڑھنے لگا اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ کراچی کے باسی اسی طرح لاہور دیکھنے آتے ہیں، جیسے اہل لاہور، کراچی دیکھنے جاتے تھے۔

جب یہ طے ہے کہ ہم ایک گاؤں، شہر، صوبے یا ملک میں پیدا ہوگئے ہیں، جہاں ہم سے مختلف رائے رکھنے والے انساں موجود ہیں، ہم سے مختلف زبانیں بولنےو الے موجود ہیں اور ہم سے مختلف رنگ والے لوگ موجود ہیں۔ اب ہمارے پاس محدود چناو ہیں، یا تو سب کو ختم کردیں اور صرف ہم جیسے رہیں، مگر یہ ممکن نہیں۔ یا ہم سب کو چھوڑ کر ایسی جگہ چلے جائیں جہاں صرف ہم ہوں، یا ہم جیسے ہوں؛ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم پاکستانیوں کی اتنی بڑی آبادی کو کون قبول کرے گا؟ ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے کہ ہم سب مل کر رہیں۔

یہ طے ہوگیا کہ ہم سب نے مل کر رہنا ہے، تو پھر کیوں ناں امن سے رہیں؟ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں! ایک دوسرے کے مددگار بن رہیں کر رہیں! یاد رکھیں جنگل کے جانوروں نے بھی رہنے کے اصول طے کرلیے ہیں، اس وجہ سے جنگل میں زندگی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سارے شیر مل کر سب ہرن ماردیتے، مگر ایسا نہیں ہوتا؛ وہ اتنا شکار کرتے ہیں جتنی ان کی بھوک ہوتی ہے۔ کاش ہم عمارتوں اور سروں کے جنگ میں رہنے والے لوگ بھی کچھ اصول طے کرلیں، اپنی بھوک کے لیے اپنے ہم جنس کو مت ماریں۔ جب اکٹھے رہنا ہی ہے، تو کیوں ناں امن سے رہ کر زندگی کا مزا لیا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).