اعلیٰ عدالتوں میں ارکان پارلیمان کو چور، ڈاکو اور مافیا کہا جاتا ہے: شاہد خاقان عباسی


شاہد خاقان عباسی

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ارکان پارلیمان کو ’چور، ڈاکو اور مافیا‘ جیسے القابات سے نوازنے کے معاملے کو پارلیمان میں زیر بحث لانے کا کہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اس معاملے کو پارٹی الحاق سے بالاتر ہو کر دیکھنا ہو گا۔

پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’آج اعلیٰ عدالتوں میں ارکان پارلیمان کو چور، ڈاکو اور مافیا کہا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں گے تو ملک ترقی کرے گا۔

مزید پڑھیے

’فوج اور سویلین ادارے راؤ انوار کی گرفتاری میں مدد کریں‘

نواز شریف اور مریم کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی درخواست

فوج مخالف بیان دینے کے عوض سینیٹ کے ٹکٹ کی پیش کش

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگ پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان ملک میں قانون سازی کرتی ہے اور کیا اس پارلیمینٹ کو قانون سازی کے لیے کسی سے پیشگی اجازت لینا ہوگی؟

اُنھوں نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر قانون سازی کی تو خلاف آئین قرار دیا جائے گا، ’کیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق نہیں ہے‘۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ یہ ایسے معاملے ہیں جن پر سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

احسن اقبال

اُن کا کہنا تھا کہ اعلیٰ افسران اور بیوروکریٹس کو عدالتوں میں بلا کر بےعزت کیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’فیصلے کرنے اور قانون سازی میں کچھ غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن غلطیوں کی نشاندہی کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے‘۔

ان کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں حالت یہ ہے کہ ہر ادارہ دوسرے ادارے پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کس طرح اس کی خامیوں کو اجاگر کیا جاسکے۔

اُنھوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ تمام ادارے اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کسی بھی بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو وہ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرلیتا ہے، جس کو ختم کروانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جاتی ہے لیکن اس میں کامیابی نہیں ملتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں ہر ادارہ دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت میں زیادہ دلچپسی رکھتا ہے، اتنی شاید وہ اپنے ادارے میں خامیوں کو ٹھیک کرنے میں نہیں رکھتا۔

خورشید شاہ

اُنھوں نے کہا کہ اس ملک میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جسے مقدس گائے قرار دیا جائے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس پارلیمینٹ کی توقیر میں کمی لانے کے سب سے بڑے ذمہ دار سیاست دان ہیں۔

اُنھوں نے پاناما لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حزب مخالف کی جماعتوں نے اس معاملے کو پارلیمینٹ میں ہی حل کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن حکومت نے اس تجویز پر غور نہیں کیا اور وہ عدالتوں میں چلے گئے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت کسی شخصیت کی بجائے ملکی مفاد میں قانون سازی کرے گی تو حزب مخالف کی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں گی۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے گارڈ فادر اور سیسیلین مافیا جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔

دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے عدلیہ مخالف تقاریر کرنے سے توہین عدالت سے متعلق درخواستوں کی سماعت 20 فروری کو ہوگی۔

جسٹس عامر فاروق ان درخواستوں کی ابتدائی سماعت کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp