کیا انتخابات روز بروز دور ہو رہے ہیں؟


ملک میں انتخابات کا ماحول بن رہا ہے۔ لیکن جس جس طرح انتخابات کا ماحول بن رہا ہے، پتہ نہیں کیوں انتخابات اتنے ہی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی مقبولیت میں جس طرح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، انتخابات اتنے ہی دور نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف کے لہجے میں جتنی کرختگی آرہی ہے، انتخابات اتنے ہی دور ہوتے نظر آرہے ہیں۔

عمران خان کی سیاسی حماقتوں میں جس قدر تیزی آرہی ہے انتخابات اتنے ہی دور ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے تو چوہدری شجاعت حسین بھی کہہ رہے ہیں کہ انھیں تو عینک لگا کر بھی انتخابات نظر نہیں آرہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات ہونے کے بعد عام انتخابات کی راہ ہموار تو ہو گئی تھی لیکن پھر روز بروز غیر ہموار ہوتی جا رہی ہے۔ایک ایسی صورتحال بن رہی ہے کہ ممکن نا ممکن اور نا ممکن ممکن بنتا نظر آرہا ہے۔

یہ درست ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کی چھٹی نے ملک میں سینیٹ انتخابات کی راہ ہموار کی۔ متحارب قوتوں کو یہ یقین ہوا کہ ن لیگ کو نظام کے اندر رہ کر بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ ن لیگ کو سینیٹ کی بڑی گیم سے آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔گو اس کام کے لیے دوستوں کو ٓآصف زرداری کو طاقت دینی پڑی۔ انھیں زیرو سے ہیرو بنانے کا گناہ بھی کرنا پڑا۔ بلوچستان کی گیم کا سہرا بے وجہ آصف زرداری کو دینا پڑا۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو جس طرح نوا ز شریف کی نا اہلی ایک بے لذت گناہ ثابت ہو رہی ہے۔ اسی طرح سینیٹ سے ن لیگ کو آؤٹ کرنا بھی ایک بے لذت گناہ ثابت ہو رہا ہے۔

میرے دوستوں کے ستارے ہی گردش میں نظر آرہے ہیں۔ اب جب کہ گیم پھنس گئی ہے۔ نواز شریف روز بروز حملہ کر رہا ہے۔ نواز شریف سچا ہے یا جھوٹا کی بحث ایک طرف لیکن یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ وہ اگلے انتخابات میں گیم جیت جائیں گے۔ لوگ تو دو تہائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ عمران خان نے تیسری شادی کا اعلان کر کے دوستوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ساتھ ساتھ عمران خان نے ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی ہے۔

عمران خان کے بارے میں بھی سیاسی میدان میں یہی بات پوری اترتی نظر آرہی ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے اسے مزید کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔کیا یہ درست نہیں کہ اس موقع پر جب خدا خدا کر کے شادی کی بات دب ہی گئی تھی تو انھوں نے شادی کا اعلان کر کے مردہ گھوڑے میں جان ڈا ل دی ہے۔ عمران خان نے اس موقع پر شادی کا اعلان کر کے ایک غیر سیاسی حرکت کی ہے۔ جس کا بہر حال اس وقت براہ راست فائدہ نواز شریف کو ہی ہو گا۔

ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ آخر اس موقع پر عمران خان کو شادی کیا سوجھی۔ کیوں انتخابات کے موقع پر ہی انھوں نے شادی کا ڈرامہ کیا۔ وہ کیوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی ان غیر سیاسی حرکتوں کا نقصان بھی اسٹبلشمنٹ کو ہی ہو رہا ہے۔ عمران خان کمزور نہیں ہو رہے بلکہ گیم نے ایسا موڑ لیا ہے کہ عمران خان کی کمزوری بھی اسٹبلشمنٹ کی کمزوری بنتی جا رہی ہے۔

عمران خان کی کمزوری بھی دوستوں کی کمزوری بن رہی ہے۔کیونکہ اس کا فائدہ نواز شریف کو اور نقصان اسٹبلشمنٹ کو ہو رہا ہے۔ نواز شریف اسٹبلشمنٹ کو کمزور کرنے کی کوشش کریں تو بات سمجھ میں آتی لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان کیوں سیاسی خود کشی کرنے پر تیار ہو چکے ہیں۔ وہ کیوں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی خود کشی کر رہے ہیں۔

نواز شریف مسلسل قومی اد ا روں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ صرف عدلیہ کو ہی نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں ستر سال سے قائم  نظام کو چیلنج کر رہے ہیں۔ قومی اد اروں کی بنیاد پر چلنے والے اس ملک کی بنیاد کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے نظام حکومت سے اسٹبلشمنٹ کے کردار کو کمزور کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

نواز شریف نے خودہی ایک ماحول بنا دیا ہے کہ اب وہ اور ادارے اکٹھے نہیں چل سکتے۔ انھوں نے چیلنج کر دیا ہے کہ جو مجھے نکال رہے ہیں وہ انھیں نکالنے کے درپے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے مخالفین پر جوابی حملہ کر دیا ہے۔ اور اب تک کی خبروں کے مطابق ان کا جوابی حملہ کامیاب جا رہا ہے۔ خلاف توقع وہ اپنے نقصان کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اب کیا ہو گا؟کیا اس صورتحال میں ملک میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ اس ضمن میں نواز شریف کے حامیوں کا خیال ہے کہ ملک میں کوئی ایڈونچر نہیں ہوسکتا۔ عالمی طاقتوں نے اس وقت پاکستان کو ایسے گھیرا ہوا ہے۔ کیا ایسا ہے کہ نواز شریف کو پاکستان کے دشمنوں کے پاکستان پر حملوں کا فائدہ ہورہا ہے۔وہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کے حملوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ویسے بھی ایسے حالات میں  ملک میں انتخابات بعض قوتوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتے۔ اگر انتخابات ہو گئے تو جو معاملات ستر سال سے قومی اداروں کے ہاتھ میں ہیں وہ ان کے ہاتھ سے چلے جائیں گے۔ میں یہ بحث نہیں کر رہا ہے کہ یہ جمہوریت کے لیے اچھا ہے کہ نہیں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس ملک میں گزشتہ ستر سال سے جو سیاسی کنٹریکٹ چل رہا ہے۔ وہ ختم ہو جائے گا۔اس لیے اب نہیں تو کبھی نہیں کی صورتحال پید ہوگئی ہے۔ شاید اب نواز شرف اور ادارے اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اسی لیے مجھے یہ خدشہ ہے کہ اب انتخاب ممکن نہیں۔

ایک سوال ہے کہ انتخاب کی کوئی راہ ممکن بھی ہے۔ ایک ہی راستہ ہے کہ کوئی نیا این آر او ہو جائے۔ جس کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اب تو نواز شریف کو سزاؤں کا وقت آگیا ہے۔ اور اگر سزائیں ہو گئیں تو لڑائی مزید تیز ہو جائے گی۔ اور اگر نہ ہوئیں تو نواز شریف پھر جیت جائے گا ۔ فریقین شاید ایسے پھنس گئے ہیں کہ اب کسی کے پاس راہ فرار نہیں ہے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).