پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ: تصادم سے کیا برآمد ہو گا؟


وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا ہے کہ عدلیہ سمیت ملک کے سب اداروں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پارلیمنٹ کی سب پارٹیوں سے اپیل کی کہ عدلیہ جس طرح پارلیمانی امور میں مداخلت کررہی ہے، اس کی روک تھام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اصول کی بات ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک پارٹی سے متعلق نہیں ہے بلکہ سب پارٹیوں کو اس صورت حال پر غور کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ خبروں کے مطابق عدالتوں میں منتخب ارکان کو چور اور لٹیرے کہا جاتا ہے۔ حکومت کے کاموں میں مداخلت کی جاتی ہے۔ اس لئے یہ طے ہونا ضروری ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور اس پر قدغن قبول نہیں کی جاسکتی۔ انہوں واضح کیا کہ امور حکومت میں عدالتوں کی مداخلت کی وجہ سے اصل نقصان ملک اور اس کے لوگوں کا ہوگا۔

قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپ کااجلاس منعقد ہؤا تھا جس کی صدارت وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کی تھی۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ پارٹی عدلیہ کے بارے میں بات کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا فلور استعمال کرے گی۔ اس طرح عدالتوں کو اپنے خلاف کہی جانے والی باتوں پر متعلقہ فرد کے خلاف کوئی اقدام کرنے کا اختیار نہیں رہے گا کیوں کہ پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور انہیں عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں ایک ماہ قید کی ساز دی تھی اور ان کی رکنیت ختم کردی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دو وفاقی وزرا طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا گیا ہے۔ حکمران جماعت نے عدالتوں کی طرف سے اس انتہائی اقدام سے بچنے کے لئے ججوں اور عدالتوں پر تنقید کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پارلیمانی اجلاس میں نواز شریف کی قیادت پر اعادہ کرتے ہوئے ان کی حکمت عملی کو توثیق بھی کی گئی۔ تاہم یہ معاملہ اپنی جگہ تشویش کا باعث ہونا چاہئے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں اعلیٰ عدالتوں کے بارے میں تند و تیز باتیں کی جائیں گی۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران لودھراں میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں اچانک اور غیر متوقع کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف ایک نئی سیاسی قوت محسوس کررہے ہیں۔ کل شیخوپورہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا ان کی پارٹی آئندہ انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیر اعظم اور احتساب عدالتوں میں بدعنوانی کے متعدد مقدمات کا سامنا کرنے والے نواز شریف کی طرف سے اس قسم کا دعویٰ یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل اور قوت کے بارے میں پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہیں۔ گزشتہ جولائی میں نااہلی کے بعد سے ملک میں مسلسل یہ مباحث سننے میں آتے رہے تھے کہ نواز شریف کا سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہے اور انہیں پارٹی کے علاوہ اپنے ہی خاندان میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے اور شہباز شریف بھی متعدد امور پر نواز شریف کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ اس حوالے سے خاص طور سے عدلیہ اور فوج پر نواز شریف کی تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ شہباز شریف اس حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں اور وہ اداروں کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں پینے کے ناقص پانی کے معاملہ میں سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران بھی دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر ایک طرف شہباز شریف نے بڑھ چڑھ کر عدلیہ کی توصیف کی تو دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی یہ کہنا ضروری سمجھا کہ عدلیہ کے بارے میں آ پ کے جو خیالات ہیں ، کاش آپ کی پارٹی بھی اسی رویہ کا مظاہرہ کرتی۔ چیف جسٹس نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ اگر مسلم لیگ (ن) انتخاب جیتی تو شاید شہباز شریف ہی آئیندہ وزیراعظم ہوں گے۔

دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات اور ان کی متصادم حکمت عملی کے انکشافات کے باوجود ابھی تک شریف خاندان میں کوئی واضح جھگڑا دیکھنے میں نہیں آیا۔ بلکہ لودھراں میں حالیہ جسلہ کے دوران نہ صرف نواز شریف اور شہباز شریف اکٹھے شریک ہوئے بلکہ مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کی نااہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں بھی اختلاف سامنے نہیں آسکا۔ یہ اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اور اس کے متعدد ایسے نمائندے جو اپنے بل بوتے پر انتخاب جیتتے ہیں ، ایسی پارٹیوں میں پناہ لینے لگیں گے، جن کے آئندہ کامیاب ہونے کے امکانات ہیں۔ اس کے برعکس نواز شریف کو نااہلی کے باوجود انتخابی قانون میں ترمیم کے ذریعے پارٹی کا پھر سے سربراہ بننے کا موقع دیا گیا اور ان کے پارٹی پر کنٹرول کو فی الوقت کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ اگر انتخابات سے پہلے کرپشن کے الزامات میں نواز شریف کو سزا ہوگئی تو ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ عوامی مقبولیت کے اسی تاثر کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) میں ابھی تک کوئی بڑا بحران دیکھنے میں نہیں آیا کیوں کہ پارٹی ارکان سمجھتے ہیں کہ آئیندہ انتخاب جیتنے کے لئے نواز شریف کی سرپرستی ضروری ہوگی۔

عوامی مقبولیت کے اسی نو دریافت شدہ اعتماد کی وجہ سے اب مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپ نے سپریم کورٹ کے ججوں پر نکتہ چینی کے لئے اسمبلی کے فلور کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اختیارات سے تجاوز کا اشارہ دیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ حکومت کی اتھارٹی اور پارلیمنٹ کے وقار کو بحال کرنے کے لئے اقدام کئے جائیں گے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے اس حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کی ہے لیکن جس طرح انہوں نے سرکاری اہلکاروں کی عدالتوں میں طلبی اور ججوں کی طرف سے سخت تبصروں کا ذکر کیا ہے تو یہ موجودہ صورت حال میں حکمران جماعت کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ براہ راست ٹکر لینے کا اشارہ ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کہ یہ اشارہ سینیٹ الیکشن سے چند روز پہلے دیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم نے خاص طور سے آج اپنی تقریر میں سینیٹ انتخابات کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ وہ پارٹیاں بھی اہنے امید وار نامزد کررہی ہیں جن کی اسمبلیوں میں نمائیندگی نہیں ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پارٹیاں یا آزاد امید وار کس بل بوتے پر انتخاب میں حصہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس سے پہلے گزشتہ ماہ بلوچستان میں اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ کو پارٹی ارکان کی بغاوت کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا اور مسلم لیگ (ق) کے عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا گیا تھا۔ اس تبدیلی کو سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کی کوشش قرار دیا جارہا تھا۔ اب وزیر اعظم کی قیادت میں حکمران جماعت جارحانہ طرز عمل اختیار کرکے سینیٹ کے انتخابات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ کیوں کہ نواز شریف ’ مجھے کیوں نکالا‘ اور ’تحریک عدل‘ کے نعرے لگاتے ہوئے خود کو قصور وار کی بجائے مظلوم ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب حکمران جماعت کو لگتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کو چیلنج کرکے ججوں کے دباؤ سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے ججوں نے حکومتی امور میں غیر معمولی دلچسپی لینے اور سیاسی معاملات میں سخت تبصرے کرنے کا رویہ ترک نہ کیا تو حکمران جماعت کے ساتھ عدلیہ کے تصادم کی صورت حال میں اضافہ ہوگا۔ اس تصادم میں عدالتیں اور پارلیمنٹ کی اکثریت ایک دوسرے کے پر کاٹنے کو کوشش کریں گی۔ مفاد عامہ کے لئے حاصل اختیارات کا ایسا منفی اور غیر معمولی استعمال دونوں اداروں کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali