چیک پوسٹیں ختم نہ کریں، زیادہ کر دیں


سوات کے لوگ چیک پوسٹوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو چکے ہیں۔ عام سے احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی کی دفعات کاٹ کر صوبائی حکومت نے آگ پر پیٹرول ڈال دیا ہے۔ یہ احتجاج مٹہ چوک خوازہ خیلہ میں کیا گیا تھا۔ احتجاج کا بنیادی مقصد چیک آرمی پوسٹوں پر ہونے والی تلاشی اور توہین آمیز رویہ تھا۔ احتجاج شروع ہوا تو لوگ بڑی تعداد میں باہر نکل آئے۔ سب ہی ان چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں۔ جو ہوتا ہے وہ روز بھگتتے ہیں۔

چیک پوسٹوں پر لوگوں کو زدوکوب کرنے کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔ یہاں چیکنگ کے باعث رش بھی ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے لیے رش سے گزرنا چیک پوسٹ پر تلاشی دینا ایک تکلیف دہ امر ہے۔شانگلہ الپوری کی ایک رہائشی بیمار بچی کو ڈاکٹر نے پشاور ریفر کیا تھا۔ چیک پوسٹ پر رش اور تلاشی کے عمل سے گزرنے کے دوران ہی اس کی وفات ہو گئی۔ اس کی شنوائی کہیں بھی نہیں ہوئی۔ نہ اس پر کوئی زیادہ آواز اٹھائی جا سکی۔

سوشل میڈیا پر مختصر سا شور اٹھ کر جلدی تھم گیا۔ یہ شور کسی تحریک میں نہ ڈھل سکا ۔تحریک نہیں بنی۔ قصور میں زینب کا واقعہ ہوا۔ تحریک اٹھی اس کا ملزم عمران گرفتار ہوا اور عدالتی عمل سے گزار کر اسے سزا بھی سنائی جا چکی۔  شانگلہ الپوری کی اس  معصوم بچی کی وفات کا واقعہ تب ہوا جب نقیب محسود کے لیے دھرنے پر میڈیا کی توجہ مبذول تھی۔ اس دھرنے کی کامیابی سے حوصلہ پا کر ہی سوات میں احتجاج شروع ہوا۔

اس احتجاج میں شامل لوگوں پر دہشت گردی کی دفعات میں مقدمہ درج کر کے صوبائی حکومت نے غلطی کی۔ یہ غلطی اس لیے بھی ہے کہ نقیب محسود والے دھرنے کے بعد آرمی چیف نے کئی جائز مطالبات پر توجہ کی اور معاملے کو حل کرنے کے اقدامات کیے۔ سوات چیک پوسٹیں بہت ضروری تھیں جب قائم کی گئیں۔ تب ملک میں دہشت گردی کی لہر تھی۔ اب یہ لہر تھم چکی ہے تو لوگوں کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔

ضرب غضب اور دیگر آپریشنوں کے باعث ملک پہلے سے بہت پرامن ہوگیا ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے یہ آئی ایس پی آر کہہ رہی ہے۔ تو ان چیک پوسٹوں کی اب اگر ضرورت ہے بھی تو پہلے کی طرح لوگوں کے ساتھ سختی کی تک نہیں بنتی۔ لڑائیوں کے بعد فوج واپس اپنے بیرکوں میں چلی ہی جاتی ہے۔ 1947، 1965، 1971 اور 1999 میں ہونے والی لڑائیوں کے بعد فوج بیرکوں میں واپس ہوگئی تھی اور پھر یہ کون سی اتنی بڑی لڑائی ہے جس کے بعد فوج واپس بیرکوں میں نہیں جاتی بلکہ مزید ان میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور روز نئے چیک پوسٹ قائم کر دئیے جاتے ہیں۔

دہشت گردی کے خاتمے میں پاک آرمی کا کردار ہم فراموش نہیں کر سکتے اگر پاک آرمی نہ ہوتی تو مٹھی بھر دہشت گرد ملک کا حشر نشر کر دیتے۔ اس لڑائی میں کتنے جوان شہید ہوئے؟ کتنے آفیسرز نے ملک پر جان نچھاور کی؟ یہ کوئی کیسے بھول سکتا۔ مگر اب حالات ویسے نہیں ہیں اب چیک پوسٹوں کی ضرورت نہیں رہی۔ جب ضرورت پڑے گی انہی جوانوں کو سر انکھوں پر بٹھا دیا جائے گا اگر یہ چیک پوسٹ ختم ہوگئے تو ہمارے فاصلے سمٹ جائیں گے۔ کرک پشاور چار گھنٹے کی بجائے تین گھنٹے تک اجائے گا کیونکہ سوات کی طرح جبوبی اضلاع والے بھی اس ٹینشن کا شکار ہیں وہاں بھی چیک پوسٹوں نے عوام جینا دوبھر کیا ہے۔ تو میں سوچ رہاہوں ایک احتجاج کاحق جنوبی اضلاع والوں کا بھی تو بنتا ہے جن کو بھی روزانہ کی بنیاد پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پر سفر کرنے والے لوگ چیک پوسٹ کے نزدیک ہوتے ہی شناختی کارڈ جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ بہت سو سے تو شناختی کارڈ انہی چیک پوسٹوں پر گم بھی ہوگئے ہیں۔ جنوبی اضلاع سفر کرنے والے لوگ اپنے پیسوں سے بھرے بٹوے بھول سکتے ہیں مگر شناختی کارڈ نہیں۔ ہم خود پشاور جاتے ہوئے پہلے شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں پھر دیگر ضروری سامان کی جانب نظر ہوتی ہے۔ تو کہنے کا مقصد یہی تھا کہ سوات کے لوگ تو میدان میں آگئے جو ہماری خواتین اور بچے پشاور آتے ہوئے زچگی کے باعث ان چیک پوسٹوں پر جان کی بازی ہار رہے ہیں اس پر انہیں بھی تو احتجاج کا حق بنتا ہے۔

وزیرستان سے پشاور آتے ہوئے۔ پاڑہ چنار، ہنگو سے پشاور آتے ہوئے، بنوں، کرک اور کوہاٹ سے پشاور آتے ہوئے کتنی جگہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہوتی ہیں۔ جہاں خواتین کے سامنے بے عزتی مقدر ہوتی ہے۔ زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گستاخی کی صورت میں زبان بندی کی جاتی ہے اور زبان درازی کی دفعہ لگ جاتی ہے۔ واپسی پر کوہاٹ ٹنل کے ساتھ کچی سڑک پر بیمار مریضوں کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ اگر سوات کے پُر آمن احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات درج کئے جاتے ہیں تو اگر جنوبی اضلاع والے بیدار ہوگئے تو کیا ہوگا مگر ٹھہیرئیے مردے کبھی بیدار نہیں ہوتے اور ان اضلاع کے لوگ مردے ہیں اور قبروں میں مدفن ہیں جو بیدار نہیں ہونے والے۔ مگر سوچ پریشان ہے کہ سوات کے لوگوں میں شعور تو آگیا مگر یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ پنجاب اسٹبلیشمنٹ پُختون قوم کو پاکستانی تسلیم ہی نہیں کر رہی حالانکہ پنجاب میں ہونے والے ایک دھرنے میں لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان تک کو ننگی گالیاں دی تھی اور وہاں نئی نئی گالیاں ایجاد کی تھیں جو اب ڈکشنریوں میں بھی شامل ہوگئی ہیں لیکن اُنکے پاس آرمی والے آئے اُنکو دلاسہ دیا اور ساتھ میں کچھ لفافے تقسیم کرکے باعزت طریقے سے گھر بھیج دیا تھا۔ تو سوال یہاں یہ اُٹھتا ہے کہ کیا پُختون پُر آمن احتجاج کا حق بھی نہیں رکھتے، صوبائی حکومت نے انصاف دلانے کی بجائے انصاف مانگنے والوں پر مقدمات درج کروائے۔ یہاں پر آخری در ہائیکورٹ، سپریم کورٹ کا ہی رہتا ہے۔ جہاں سنا ہے کبھی انصاف ملتا تھا اب وہاں بھی بہادر بچے بیٹھ گئے ہیں اور بہادر بچوں کے خطوط پر حکم جاری کئے جاتے ہیں۔ اگر یہاں بھی شنوائی نہیں ہوتی تو پھر گزارش یہی کی جائے گی کہ یا تو خاموش رہا جائے یا پھر مزید چیک پوسٹیں قائم کرکے عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).