سوات میں آرمی چیک پوسٹوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے


سوات میں طالبانائزیشن کے بعد سکیورٹی فورسز کی طرف سے اہل سوات کے ساتھ مختلف طریقوں سے ہتک آمیز رویہ تو ایک معمول بن گیا ہے لیکن سواتی طالبان کے خاتمہ کے دعوے کے بعد سکیورٹی چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ جو ناروا اور انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے، اس نے سوات ہی نہیں پورے ملاکنڈ ڈویژن میں ایک شدید عوامی ردِعمل کو جنم دیا ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں سوات میں مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے کیا گیا۔ سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ خوازہ خیلہ کے مقام پر ہوا جہاں چیک پوسٹ پر ایک بیمار بچہ بروقت ہسپتال نہ پہنچانے کی وجہ سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ دوسرا مظاہرہ مینگورہ شہر کے نشاط چوک میں ہوا۔ احتجاج کرنے والے شہریوں نے پر امن انداز میں حکومت اور سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا کہ سوات بھر میں چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ ہتک آمیز سلوک بند کردیا جائے، سوات میں اگر امن قائم ہوچکا ہے تو چیک پوسٹوں کی موجودگی کی کیا ضرورت ہے؟ مظاہرین نے سرچ آپریشنوں میں چادر اور چاردیوار کا تقدس پامال کرنے، ٹارگٹ کلنگ، لوگوں کو غائب کرنے اور سوات میں ماورائے عدالت قتل کیے جانے کے عمل کے خلاف بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اس طرح کے غیر قانونی اور غیر انسانی طرزِعمل کا خاتمہ کیا جائے۔ مظاہرین نے سوات میں معمول کی زندگی بحال کرنے اور علاقے میں پائیدار امن کے قیام جیسے جائز مطالبات بھی کیے۔ تمام مظاہرے نہایت پرامن انداز میں ہوئے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سوشل میڈیا کے علاوہ مین سٹریم میڈیا میں اس کی کوئی رپورٹنگ نہیں کی گئی اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مبینہ طور پر سوات میں قائم آئی ایس پی آر کے دفتر سے صحافیوں کو سختی سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ ان مظاہروں کو کسی بھی قسم کے میڈیا میں رپورٹ نہیں کیا جائے۔ سوات پریس کلب کو جو سرکلر جاری کیا گیا، وہ کچھ اس قسم کا تھا۔

’’غیر ملکی عناصر کے زیر اہتمام نشاط چوک (مینگورہ) اور خوازہ خیلہ کے مقامات پر ریاستی اداروں کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے دھرنا دیا گیا جس میں سوات کی سکیورٹی کو ختم کرنے اور انتہاپسند دہشت گرد افراد کی رہائی (کرکے دہشت گردی کی راہ ہموار کرنے) کا مطالبہ کیا گیا۔ سوات کے غیور عوام نے دھرنے کو بری طرح سے ناکام بنا دیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ سوات کے شہری سوات کے امن و امان پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ لہٰذا اس شرپسند دھرنے کی کسی بھی طرح کی میڈیا کوریج (خواہ وہ سوشل میڈیا ہو، الیکٹرنک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا) سے اجتناب کیا جائے۔‘‘

یہ احتجاجی مظاہرے دراصل سوات کی سول سوسائٹی کی طرف سے منعقد کیے گیے تھے۔ ان میں کسی قسم کی بدنظمی یا توڑ پھوڑ نہیں کی گئی تھی۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر جائز مطالبات پر مبنی نعرے درج تھے۔ مظاہرین کے تمام مطالبات پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق تھے۔ آئین پاکستان کے تحت تمام شہریوں کو بلا امتیاز آزادانہ آمد و رفت کا حق حاصل ہے۔ ان میں رکاوٹ ڈالنا یا معمول کی شہری زندگی کو معطل کرنا خلافِ قانون ہے۔ نیز کسی بھی شہری کے گھر کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنا جرم ہے۔ لیکن سوات میں یہ سب کچھ مسلسل ہو رہا ہے۔ سکیورٹی اداروں کے اہل کار عوام کے لیے روز نت نئی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر بزرگوں اور خواتین تک کو ہتک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چیک پوسٹوں پر مختلف بہانوں سے نوجوانوں کو سر عام مرغا بنایا جاتا ہے۔ بزرگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ عام لوگوں کو اس انداز میں تلاشی سے گزارا جاتا ہے جس سے ان کی عزت نفس کو دانستہ طور پر مجروح کرنا مقصود ہوتا ہے۔ معلوم نہیں سکیورٹی ادارے کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے سوات کو فتح کرلیا ہے اور اب سوات کے لوگ ان کے غلام یا مفتوح بن چکے ہیں۔

سول سوسائٹی کے جن لوگوں نے ان مظاہروں کو منعقد کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، ان میں چھ افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گیے ہیں۔ یہ مقدمات بھی مبینہ طور پرسوات میں مقیم سکیورٹی فورسز کی ایماء پر بنا دئیے گئے ہیں۔ سوات میں جب سے فوجی آپریشنوں کا آغاز کیا گیا ہے، اس وقت سے لے کر اب تک سوات کے لوگ سکیورٹی اہل کاروں کے مظالم کے شکار چلے آ رہے ہیں لیکن اس دوران جس کسی نے بھی انفرادی طور پر ان مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے، اسے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو پکڑ کر غائب کرالیا گیا ہے، اس لیے سوات کے لوگ خوف اور ڈر کی وجہ سے خاموش تھے۔ لیکن جب ان مظالم میں کمی نہیں آئی تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سوات کے لوگوں نے پہلی دفعہ احتجاجی مظاہرہ کیا لیکن متعلقہ سکیورٹی حکام نے عوامی جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ’’غیر ملکی عناصر کے مذموم مقاصد‘‘ کی تکمیل قرار دیا اور مظاہرین کو ڈرانے کے لیے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔

اس وقت وطن عزیز میں اگرچہ ایک جمہوری حکومت کام کر رہی ہے لیکن سوات میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہاں مارشل لاء نافذ ہو اور عوام کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہوں۔ پرامن احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے، کسی بھی شہری کو اظہار رائے کی آزادی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ صحافیوں کو ڈرا دھمکاکر انھیں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے روکنا آئین و قانون کے خلاف ہے۔ احتجاج میں شرکت سوات کے پرامن شہریوں نے کی تھی، اس کا انعقاد بھی سول سوسائٹی کے سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں نے کیا تھا۔ ان میں کوئی ’’غیرملکی عناصر‘‘ موجود نہیں تھے۔ سوات کے لوگوں پر ناروا پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور جب ان پابندیوں اور زیادتیوں کے خلاف عوام احتجاج کے لیے نکل آتے ہیں تو انھیں شرپسند ’’غیرملکی عناصر‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے سرکلر جاری کرنے والے معلوم نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں۔ اس طرح کے مضحکہ خیز ہتھکنڈوں کے ذریعے حقائق کو میڈیا سے زیادہ دیر تک نہیں چھپایا جاسکتا۔ سوات کے لوگ بے شعور نہیں ہیں، وہ سب کچھ جان چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کونسا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔

سوات کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے منتخب عوامی نمائندے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان میں اتنی جرأت نہیں کہ اسمبلیوں کے فلور پر ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرکے حق نمائندگی ادا کریں۔ شاید وہ بھی سوات میں مقیم طاقت ور سکیورٹی اداروں سے ڈرے سہمے نظر آتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے جو لوگ اہل سوات کو ’’ظالم طالبان‘‘ سے نجات دلانے آئے تھے، اب لوگ ان سے ہی ڈرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں خود کو غیرمحفوظ تصور کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عام لوگ ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ انھیں احترام کی نظروں سے دیکھتے اور ان کے شکرگزار رہتے لیکن افسوس ان کا طرزِ عمل دیکھ کر لوگ ان سے نالاں ہیں۔ اگر پاکستان میں قانون اور آئین کی کوئی معمولی سی حرمت بھی موجود ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان سوات کو بھی پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں اور آئینِ پاکستان کے تحت اہل سوات کو بھی کسی قسم کے شہری حقوق حاصل ہیں تو انھیں اِک نظر سوات پر بھی ڈالنا چاہئے۔ سوات کے لوگوں نے پہلے بھی مختلف فورمز پہ یہ مطالبہ کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو سوات میں رونما ہونے والی بد امنی کے پورے واقعے کی تحقیق کرے کہ سوات میں طالبان کیسے وجود میں لائے گئے اور انھیں مالی اور عسکری وسائل کس نے دئیے۔ مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کی موجودگی کے باوجود وہ سوات کے طول و عرض پر کیسے قابض ہوتے گئے۔ نیز سوات میں محض شک کی بناء پر بہت سے لوگوں کو ماورائے عدالت کیوں مارا گیا۔ بہت سے سواتیوں کو کسی ثبوت کے بغیر کیوں غائب کرایا گیا اور آپریشن کے دوران توپ سے فائر کیے جانے والے بہت سے گولے عام شہریوں کے گھروں میں کیوں گرتے رہے جس کی وجہ سے بہت سے بچے، خواتین اور گھر کے دیگر افراد جاں بحق ہوئے۔ ان تمام معاملات کی تحقیقی ہونی چاہئے اور ذمہ داروں کو قانون کی آہنی گرفت میں لانا چاہئے۔

سوات کے لوگ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جو لوگ اب بھی سکیورٹی اداروں کے اذیت خانوں میں گل سڑ رہے ہیں، انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اگر وہ کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث پائے جائیں تو انھیں قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے ورنہ انھیں باعزت طور پر بری کیا جائے۔ اہل سوات یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ سکیورٹی اداروں نے کس قانون کے تحت خوازہ خیلہ میں گرلز ایلیمنٹری کالج کو اپنے آفس میں تبدیل کردیا ہے، انھوں نے گلی باغ کے پیتھام (جہاں ہوٹل منیجمنٹ کے کورس کرائے جاتے تھے) کو کس قانون کی آڑ لے کر سب جیل بنا دیا ہے، انھوں نے ضلعی عدالتوں میں واقع سرکٹ ہاؤس (جو شہری آبادی کے عین بیچ میں واقع ہے) اور اس کے قرب میں واقع دیگر عمارتیں کس اصول کے تحت قبضہ کی ہیں؟ ان سے یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ انھوں نے بریکوٹ میں واقع ایلمنٹری کالج برائے بوائز اور کبل گالف کورس پر کیوں قبضہ کرلیا ہے؟ یہ تو ان مطالبات کی ایک چھوٹی سی فہرست ہے جو کالم کی کم دامنی کی وجہ سے یہاں لکھنا ممکن نہیں۔

اگر حکومت اور سکیورٹی اداروں کے دعوؤں کے مطابق سوات میں امن قائم ہوچکا ہے اور پاک فوج اپنا کام بحسن و خوبی کرچکی ہے تو اب انھیں واپس اپنے بیرکوں میں جانا چاہئے لیکن اگر وہ سمجھتی ہے کہ سوات میں ان کی موجودگی اب بھی ضروری ہے تو انھیں غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کرنا چاہئے اور جو چیک پوسٹس وہ پائیدار قیام امن کے لیے ناگزیر سمجھتی ہے، وہاں پہ مقامی پولیس کو تعینات کرنا چاہئے جن کا رویہ عوام کے ساتھ مہذبانہ ہو۔ جہاں تک پر امن مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کرنے کا تعلق ہے تو وہ بے جا ہیں۔ انھیں فی الفور ختم کیا جائیں۔ مقدمات تو در اصل ان پر قائم کیے جانے چاہئیں جنھوں نے سوات کا امن و امان تہہ و بالا کیا، چیک پوسٹوں پر بے گناہ شہریوں کو ہلاک اور بے توقیر کیا، گھروں کی چادر او رچاردیواری کا تقدس پامال کیا، چیک پوسٹوں پر غیر ضروری تلاشیوں کے دوران مریضوں کی ہلاکت کا باعث بنے۔ سکیورٹی ادارے اہل سوات کے لیے قابل احترام ہیں لیکن ان کا نامناسب رویہ اور عوام کے ساتھ ہتک آمیز سلوک عوام میں ان کے لیے نفرت اور بے زاری کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر وہ خود کو ملک اور قوم کا محافظ سمجھتے ہیں، تو انھیں محافظ کا ہی کردار ادا کرنا چاہئے نہ کہ کسی فاتح کا جس نے گویا سوات اور اہل سوات کو فتح کرلیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).