فیمینزم سے ڈرتے کیوں ہیں؟


مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس لفظ فیمینزم سے کچھ مرد اتنا چڑتے کیوں ہے؟ اور چلیں ان کا چڑنا کسی طرح سمجھ آ بھی جائے لیکن باقی لوگوں کا اس لفظ سے ڈرنا تو بلکل خارج الفہم ہے.

ارے حضرات یہ دنیا آپ کی ہے. پھر یہ تحفظات کیسے ہیں کہ عورتیں باورچی خانے کے لئے بنی ہیں اور باورچی خانہ عورتوں کے لئے؟ کبھی کسی عورت کو کہتے سنا ہے کہ آئے ہائے یہ شیف ذاکر کے ہاتھ میں کفگیر کیوں ہے؟ انھوں نے وہ کام کیوں کر لیا جس کا ٹھیکہ ہمیں بی بی حوا نے جنت سے نکلتے ہوئے راستے میں ہی سونپ دیا تھا؟

اور چلیں یہ بات تو پھر بھی پاکستانی کھیت کی مولی کی تھی. مگر انگلینڈ کے مشہور باورچی گورڈن رامسے کا نام شاید آپ نے سنا ہوگا جو مشہور و معروف سیلیبریٹی شیف ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب المطعم ہیں. آٹھ سے دس ہوٹل ان کے لندن میں موجود ہیں. اس کے علاوہ فرانس سے لے کر ہانگ کانگ اور دبئی سے لے کر اٹلی تک میں ہوٹل ان کی ملکیت ہیں یا ان کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں. یوں کہئیے کہ برسوں سے ایک دنیا کو وہ باورچی گیری سکھا رہے ہیں.

Gordon Ramsay

اور تو اور وہ اپنے رئیلٹی شو، جس کے وہ جج بنتے ہیں میں حصہ لینے والوں کی غلطیوں پر پھبتی کسنے اور چبھتے ہوئے جملے چست کرنے کے لئے مشہور مانے جاتے ہیں.

تو بھائی پہلے اس سے جا کر پوچھیں کہ کس خوشی میں یہ زنانہ کام سر انجام دیتے پھر رہے ہو؟ اوپر سے ٹی وی پر بیٹھ کر سورج کو چراغ دکھا رہے ہو؟ یعنی عورتوں کے بنائے گئے کھانے کو جج کر رہے ہو؟ گورڈن بھیا صرف تمہاری وجہ سے پاکستان کے کتنے ہی مردوں کی ناک کٹ گئی ہے جو اب ادھر ادھر سے سانس لینے کا کام کر رہے ہیں.

اور ان کی سنیں جن کو امریکہ کے بہترین کوکنگ اسکول کی طرف سے بابائے باورچی کا خطاب مل گیا. کچھ برسوں  پہلے ایک خبر آئی کہ؛ ’دی کولنری انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ‘ نے غالبا” 2011 میں پاؤل بوکوس کو بابائے باورچی قرار دیتے ہوئے ’شیف آف دی سینچری‘ یعنی بیسویں صدی کا بہترین باورچی ٹھہرایا صرف اس لئے کہ پچاسی سالہ بوکوس نے اپنے کیریئر میں کھانوں میں جدت پیدا کی.

تو جناب جب یہ صورتحال ہے کہ مرد سب کاموں میں عورتوں کے شانہ بشانہ اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں تو آپ کو کیوں کرکٹ گرائونڈ میں عورتیں نہیں جچتیں؟ کروڑوں عورتوں میں صرف اور صرف وہ پندرہ یا سولہ لڑکیاں یونیفارم میں آپ کو آگ لگا جاتی ہیں؟

یا پھر آپ لوگوں کی سوئی ایسی خواتین پر اٹکی رہتی ہے جو اپنے گھر سے نوکری کرنے کے لئے نکلتی ہیں کہ اپنی گھر گرہستی میں مرد کی معاونت کر سکیں. چاہے وہ بادل نخواستہ اپنی چار دیواری کا سایہ چھوڑ کر نکلے یا اپنا آپ منوانے نکلی ہو. یا معاشرے کا مضبوط سہارا ہی کیوں نہ بن گئی ہو بہر حال کچھ لوگوں کو کھٹکتی ہی رہتی ہے.

لیکن وہ لاکھوں عورتیں جو اپنے گھروں میں بیٹھی گھر کے آدمیوں کا دن ڈھلے انتظار کرتی ہیں کہ دیہاڑی لے کر مرد آئے گا تو چولہا جلے گا اور بچے سڑک کے کنارے سے باسی روٹیاں اٹھا کر کھانے کے بجائے تازہ روٹی سے پیٹ کی آگ اور دل کے زخموں کی دوا کر لیں گے ان کی بات کیوں نہیں کرتے آپ کبھی؟ کیونکہ وہ کبھی سامنے نہیں آتیں؟

شکر کریں وہ سامنے نہیں آتیں..ورنہ ان کی پیٹ کی بھوک آپ کی ہوس زدہ نظروں کو کھا جاتی.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).