عاصمہ جہانگیر کے روایت شکن جنازے میں میری شرکت


انسانی حقوق کی سر گرم کارکن، معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی نمازِ جنازہ 13 فروری کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ مولانا ابواعلیٰ مودودی کے فرزند سید حیدر فاروق مودودی نے پڑھا ئی جس میں سیاسی و سماجی شحضیات، وکلاء صحافیوں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔

جنازہ میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جن سے ان لوگوں کی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ بے پناہ محبت اور عقیدت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ صرف وہ لوگ نہیں جن سے عاصمہ جہانگیر کا خون کا رشتہ ہے بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ان کا روح کا، سانجھ کا اور جدوجہد کا رشتہ ہے۔ وہاں اوکاڑہ کا کِسان بھی افسردہ تھا اورشیخوپورہ کا بھٹہ مزدور بھی، وہاں باریش ِبزرگ بھی رنجیدہ تھے اور جواں سال لوگ بھی، وہاں مرد بھی رو رہے تھے اور عورتیں اور خواجہ سرا بھی۔ جو بات ان سب کے لئے سانجھی تھی وہ عاصمہ جہانگیر کے جسمانی طور پر جدا ہونے کا دکھ، ان کے چلے جانے کا غم تھا۔ عاصمہ جہانگیر کے جانے کا غم سب کا اپنا غم تھا۔ جب ایک شحض دوسرے سے گلے مِل کر دکھ کا اظہار کرتا تو یہ پتہ نہ چلتا کہ وہ اس کو تسلی دے رہا ہے یا اس سے تسلی لے رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو پرسا دے بھی رہا تھا اور پرسہ لے بھی رہا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ہر کوئی اپنے رشتے اور اپنی اپنائیت کا اظہار کررہاتھا۔ ان کا جانا سب کا سانجھا غم ہے تو ان کی جدوجہد کی میراث بھی سب کی سانجھی ہے۔ کوئی امیر ہے یا غریب، پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ، وکیل ہے یاصحافی، سماجی کارکن ہے یا سیاسی سب اس دکھ اور اس میراث میں مساوی نظر آئے۔

عاصمہ جہانگیر کی آخری رسومات میں ہزاروں خواتین شریک تھیں۔ خواتین کی یہ شرکت بہت بھرپور اور بامعنی تھی۔ کچھ خواتین میت کو ایمبولنس سے ڈرائنگ روم تک لائیں کچھ خواتین نے میت اپنے بازووں پر اٹھا کر چارپائی پر رکھی۔ جسد خاکی کو جس کمرے میں رکھا گیا وہا ں خواتین اور مرد بے روک ٹوک ایک سلیقے اور قرینے سے آتے اور مرحومہ کا آخری دیدار کر کے باہر تشریف لے جاتے میت جب ایمبولینس میں گھر سے قذافی اسٹیڈیم لائی جارہی تھی تو خواتین پیدل ہمراہ تھیں۔

نمازِجنازہ کے لئے صف بندی کا وقت آیا تو ایک مردانہ آواز آئی کہ خواتین اور مرد علیحدہ علیحدہ صفیں بنایئں۔ دونوں اکٹھے جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔ خواتین کے حقوق کی ایک کارکن نے کہا یہ کہاں لکھا ہے؟ تو اسی مردانہ آواز نے کہا کہ اس طرح وہ جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔ ایک دوسری کارکن خاتون نے بڑے پراعتماد لہجے میں کہا کہ فاروق حیدر مودودی ایسا نہیں کریں گے۔ اسی وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آواز بلند ہوئی اور جو مرد و خواتین جہاں کھڑے تھے وہیں مودّب ہوگے۔ صفیں خود بخود سیدھی ہو گیں۔ نمازِ جنازہ ادا ہونے کے بعد خواتین محاذِ عمل میں شامل عاصمہ جہانگیر کی ساتھی عورتوں نے ان کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے نعرے لگائے وہ میت کو ایمبولینس تک لے جانے میں ساتھ تھیں۔ جہاں سے میت کو آخری آرامگاہ لے جانے کے لئے سب روانہ ہوئے۔

عورتوں کی اتنی بڑی تعدادمیں جنازے میں شرکت، مردوزن کی ایک جگہ پر صف بندی اور عاصمہ جہانگیر کے جسدِ خاکی کو خواتین کے حقوق کی کارکن خواتین کا کا ندھا دینا نئی روایتیں ہیں۔ جو پہلے پاکستان میں کسی خاتون کے جنازے کے لئے نہیں ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ عورت اور مرد کی حیثیت، مقام اور حقوق کے بارے میں معاشرے کے تعصبات اور عدم توازن جن کے خلاف عاصمہ جہانگیر نے جیتے جی جدوجہد کی وہ بیداری جنازے میں شریک بیشتر مرد و خواتین کے ذہن اور شعور پر طاری تھی۔ سب کو لگا کہ سوگ اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ احترام کے اس خاص موقع پر کسی قسمِ کی صنفی تفریق یا ریا کاری آڑے نہ آئے۔ لہذا وہ سب کچھ ہوا جِسے عام لفظوں میں فرسودہ روایت سے انحراف کہا جائے گا۔

صحافی اویس توحید نے عاصمہ جہانگیر کے جنازے کے بارے میں یوں ٹویٹ کیا ’’ خواتین نے اپنی قائد، فرسودہ روایات سے منحرف عاصمہ جہانگیر، کے جنازے میں شرکت کر کے غلط روایت کو توڑا ہے۔ خواتین کی عظمت کو سلام ‘‘۔ عوامی نیشنل پارٹی سے ممبر قومی اسمبلی بشریٰ گو ہر نے لکھا ’’ اگرچہ انھیں خدا خافظ کہنا بہت دشوار تھا، عاصمہ جہانگیر کو ان کے رتبے کے مطابق رخصت کیا گیا۔ ہزاروں مردوزن ان سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے جنازے میں شامل ہوئے۔ یہ عوامی جنازہ تھا۔ وہ ایسا ہی پسند کرتی تھیں‘‘۔ اینکرپرسن عنبر شمسی نے ٹوئیڑ پر لکھا ’’ صنفی برابری کے مظہر آپ کے جنازے میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد اس بات کی امید دلاتی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں صنفی برابری کے علمبردار ابھی باقی ہیں۔ اگر یہ مزاحمت زندہ رہی تو عاصمہ جہانگیر کو بہترین خراج تحسین ہوگا ‘‘۔ انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد نے ٹویٹ کیا ’’ ہم عورتوں نے ان کے جنازے کو کا ندھا دیا۔ ہاں ہم نے فرسودہ روایت کو توڑا۔ عاصمہ کی میراث قائم رہے گی، ایک اور عاصمہ جہانگیر ناممکن ہے اس لئے ہم سب کو اپنی توانائیاں جمع کر کے ان کی جدوجہد کو آگے بڑھا نا ہے ‘‘۔

عاصمہ جہانگیر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ حاضر تھے۔ وہاں مسیحی تھے اور سکھ بھی، وہاں ہندو بھی تھے اورہرفرقے کے مسلمان بھی۔ پنجاب کے علاوہ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونحوا، ہزارہ، گلگت بلستان اور سرائیکی علاقے سے آئے لوگوں نے اپنے اپنے خطے کی نمائندگی کی۔ کئی سیاسی رہنماں نے عاصمہ جہانگیر کی نمازِ جنازہ میں شمولیت کی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے قائِدین اور کارکنان سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)سے بھی اہم سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے جذبات کا اظہار ایک فلیکس میں کیا گیا۔ جس پر درج تھا۔ ’’ پوری دنیا تمھیں سلام کرتی ہے ‘‘۔ ’’ وزیراعلیٰ پنجاب کے سٹریٹیجک ریفارمز یونٹ کی طرف سے انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کو خراجِ تحسین ‘‘ کے بینر عاصمہ جہانگیر کی رہائش گاہ سے لے کر قذافی سٹیڈیم تک لگائے گئے تھے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں، سیاسی و سماجی اداروں اور شحضیات نے پھول پیشکیے۔

11 فروری کو عاصمہ جہانگیر کی اچانک موت کے بعد ہی سوشل میڈیا پر کچھ افراد کی جانب سے جنازے کی رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کرنے کا خیال پیش کیا گیا۔ اس خیال کو وزیر اعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ نے وزیر اعظم پاکستان جناب شاہد خاقاں عباسی کو خط لکھ کر ایک باقاعدہ درخواست کی شکل دے دی۔ بعدازاں چیئرمین سینٹ جناب رضا ربانی نے بھی اس خیال کی تائید کی۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے بھی اس تجویز کی حمایت کی۔ سپریم کورٹ بار کے تین سابق صدور جناب علی احمد کرد، بیرسٹر علی ظفر، اور جناب کامران مرتضےٰ نے بھی اس خیال کی پرزور پذیرائی کی لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کوئی اعلان، نہ اقدام سامنے آیا۔

عام فہم بات ہے کہ جانے والا تو کِسی تعریف و توصیف کا حاجت مند نہیں رہتا۔ اس کے پیچھے ایک وارثت پڑی ہوتی ہے اور اگر یہ وراثت انسانیت کی خدمت، سماجی احساس ذمہ داری اور روتی آنکھوں میں امید کے دیے روشن کرنے کی ہو تو ایسی وراثت میں ملک وملت کے حصہ دار بننے میں کیا امر مانع ہوسکتا ہے؟ ایسی وراثت کو گنوانے میں کیا دانشمندی ہے؟ وفاقی حکومت اگر عاصمہ جہانگیر کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کی تجویز کو مان لیتی تو اس سے ریاست ِ پاکستان کا وقار بلند ہوتا۔ اقوام ِ عالم کو یہ پیغام جاتا کہ حکومت ِ پاکستان انسانی حقوق کا اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا احترام کرتی ہے۔ لہذا وہ تمام تنقید جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں ہوتی ہے اس کے مقابل اپنی ہی شہری کی خدمات کے اعتراف سے ایک روشن مثال قائم کی جاسکتی تھی۔ شاید اس سے انسانی حقوق کی پاما لیوں کا شکار ہونے والے لاکھوں پاکستانیوں کے زخم مندمل ہوتے۔ ریاستی اداروں کے استحکام اور انصاف کے حصول میں معاون بننے والے انسانی حقوق کے محافظین، وکلاء، صحافیوں اور دانشوروں کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ وفاقی حکومت نجانے کن مصلحتوں کا شکار رہی اور اس موقع کو گنوا دیا۔ اس سے عاصمہ جہانگیر کے رتبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔

بعض اوقات کِسی شحض کی خدمات اور جدوجہد کا اعتراف حکومتی سطح پر سالوں بعد بھی ہوتا ہے۔ شایدوفاقی حکومت آنے والے دنوں میں کوئی اقدام اٹھا ئے۔ دنیا بھر سے عاصمہ جہانگیر کی خدمات اور کنٹریبیوشن کا اعتراف کیا گیا ہے۔ وہ غیر معمولی خوبیوں کی مالک قائد تھیں جنھوں نے انسانی حقوق کی تحر یک کی برسوں رہنمائی کی۔ ایک روشن جمہوری اور پر امن پاکستان بنانے کے لئے ان کے ساتھی اِس جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔
شکریہ عاصمہ جہانگیر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).