بچپن بیچ آیا ہوں!


پندرہ سالہ بیٹے کے بے جان، کفنائے وجود کے سامنے سکتے کے عالم میں بیٹھی ماں کی آنکھ میں رونے کو آنسو بھی نہ تھے۔ درد جب حد سے سِوا ہو جائے تو آنکھیں یوں ہی خشک ہوجاتی ہیں۔
اپنے لاڈلے کے لیے وہ پہلی بار اس وقت روئی جب نو سال کی عمر میں اس نے اپنا بچپن بیچ کر دو ہزار روپے ماں کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے خوشی خوشی بتایا کہ سیٹھ نے اب نوکری پکی کردی ہے، کیوں کہ اس کی فرماں برداری پر وہ بہت خوش ہے۔ بیٹے کی خوشی میں وہ اس کا ساتھ نہ دے پائی، آخر، رات کے کسی سمے ضبط کے سارے بندھن توڑتے ہوئے وہ پہلے سے زیادہ ٹوٹ گئی۔

بیٹے کی میت کے سامنے اس کے پر سکون چہرے پر نظریں گاڑے اس کی خیالوں کی ریل میں یہ پندرہ سال چل رہے تھے، جس میں وہ اپنے جگر گوشے کو کچھ بھی نہ دے پائی۔ وہ جگر گوشہ، جس کا بچپن ذرا ہی بالغ ہوا تو ماں سے گھی والی روٹی کی فرمائش کرنا چھوڑ دی، گُڑ کے چاول اسے اچانک ناپسند ہو گئے، محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلنا اسے ذرا نہیں بھاتا تھا، اپنا بستہ اور کتابیں وہ کب جا کے کس کو دے آیا، نہیں معلوم! کوئی ارمان اس کے اندر مہکتا نہیں تھا، عید پر بھی نئے کپڑوں کا شوق اس کی آنکھوں میں دمکتا نہیں تھا، رنگ برنگے کھلونے اور ٹافیاں دیکھ کے وہ کبھی مچلتا نہیں تھا، ماں کی آغوش میں سر دَھر کے وہ آخری بار کب رویا تھا؟ کب اس کے ہاتھ سے آخری بار نوالہ کھایا تھا؟ کب آخری بار باپ کے بارے میں سوال کیا تھا، یاد نہیں! یاد ہے تو بس یہ کہ جب کارخانے تک کا کچا پکا راستہ پیدل طے کر کر کے اس کی چپل اتنی گھس گئی کہ محنت کرنے والی ننھی ایڑی کا بوسہ سڑک بھی لینے لگی تو ماں سے اپنی پہلی فرمائش کرنی ہی پڑی۔

کپڑے کے کارخانے پر دو ہزار کا ملازم وہ اپنی خوشی سے لگا۔ سر اٹھا کر، سینہ تان کر، بڑے فخر سے سب کو بتاتا کہ اب صاحبِ روزگار ہے، اپنی ماں کا کماؤ پوت ہے۔ تیس دن سر جھکا کر، جھڑکیاں کھا کر کام کرنے کے صلے میں جب اجرت ملتی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا۔ میلی قمیص کی چھوٹی سی جیب میں، مسلے ہوئے نوٹوں کی گرمی محسوس کرتے ہوئے وہ تیزی سے گھر کی طرف دوڑتا، مبادا کوئی چھین نہ لے، یہ نوٹ اس کے لیے کسی خزانے سے کم کہاں ہوتے تھے؟ لڑکھڑاتے قدموں اور بے ترتیب سانسوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہی ماں کے ہاتھ پر دو ہزار رکھتا اور کتنی ہی دیر ماں کی طرف دیکھ کر فخر سے مسکراتا، لیکن ماں اس سے نظریں چُراتی، اس کے سانولے چہرے پر سکڑی، پیلی آنکھوں میں نمی اور بڑھ جاتی۔ توقع کے خلاف ماں کا ردعمل اسے بے چین رکھتا۔ ماں کی ایک خاموشی کے آگے اس کے سارے سوال معلق ہو کر رہ جاتے۔ تاروں بھری رات کے سائے میں، بان کی ڈھیلی چارپائی پر گٹھڑی بن کر پڑے پڑے کب اس کا دن ختم ہو جاتا، اسے خبر بھی نہ ہوتی۔ دن اور رات کی اس گردش سے بے نیاز وہ کولھو کے بیل کی طرح جتا رہتا۔ اچھے دنوں کا انتظار بھی اچھے دنوں کی طرح ہی خوش گوار ہوتا ہے۔ وہ بھی اس انتظار میں شاداں تھا۔

رات کی روٹی چائے میں بھگو کر ناشتہ کرتے کرتے اس کا دل کبھی اوبا نہیں تھا، دن کا کھانا البتہ اس نے کب کا کھانا چھوڑ دیا تھا۔ ہاں! کبھی سیٹھ اپنی پلیٹ کا بچا ہوا سالن اس کو دے دیتا تو وہ منع بھی نہیں کرتا تھا۔ کارخانے میں سب اس سے بہت پیار کرتے، لیکن جب کوئی اس کے گال یا جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگا کر پیار کرتا تو اس کو عجیب لگتا تھا۔ اسی لیے، وہ سب کی ’’محبت‘‘ سے بچتا بچاتا، کھچا کھچا رہتا۔

کارخانے میں کپڑوں کے بھاری تھان اٹھا اٹھا کراس کا وزن تیزی سے کم ہو رہا تھا۔ لیکن انکار کر کے سیٹھ کو ناراض کردینا اسے کسی طور گوارا نہیں تھا۔ نوکری سے نکال دیا جاتا تو اپنی بے بس ماں کو کیا منہ دکھاتا، جو آج تک اس کی نیند میں خلل کے ڈر سے، رات گئے تک کواڑ بھیڑ کر کمرے کی زرد مدہم روشنی میں محلے کی عورتوں کے کپڑے سیتی ہے۔

دن پر لگا کر صرف امیروں کے لیے اڑتے ہیں، اس کے لیے تو وقت بس اتنا ہی کھسکا کہ پانچ سال کی تگ و دو کے بعد اس کی تنخواہ میں ایک ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے تنخواہ بڑھنے کے ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھتی ہی ہیں، لیکن تنخواہ میں یہ اضافہ تو ساتھ اس کی سنجیدگی بھی بڑھا چلا۔ اب وہ رات دیر سے گھر آتا۔ ماں کے ہاتھ پر تنخواہ سر اٹھا نے کے بجائے اب جھکا کے رکھنے لگا۔ وقت کے تھپیڑوں نے اسے باور کروادیا تھا کہ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے مسئلے ان تین بوسیدہ نوٹوں سے حل نہ ہوسکیں گے۔ اٹھتے بیٹھتے سنہری سپنے دکھانے والی آنکھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتیں دکھا کر لٹے پٹے بچپن اور درماندگی کا دکھ بڑھا دیا تھا۔ بچپن ہجرت کر کے بلوغت کی سرحد پر آیا ہی تھا کہ سوچوں میں گم چلتے چلتے، راستے کے پتھروں کو ٹھوکر سے اڑاتے اڑاتے، ایک تیز رفتار ڈمپر نے اس کو بھی اڑا کر اس جہاں سے دوسرے جہاں میں پھینک دیا۔ یوں اس نے گردشِ ماہ وسال سے رہائی پا ہی لی۔ اس طرح غریب کی ایک نسل ختم ہوئی۔ غربت کا ایک باب بند ہوا۔

گم صم، صدمے سے نڈھال ماں خون میں تر بتر میلی قمیص کو سینے سے لگائے، بیٹے کی خوشبو کھوج رہی تھی کہ جیب میں کچھ چرمرایا۔ ماں نے بے قراری سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تین بوسیدہ اور خون آلود نوٹ اس کے ہاتھ میں آئے اور پھر اس کی فلک شگاف چیخیں عرش ہلانے لگیں۔ وہ نوٹ کب تھے؟ وہ تو سماج کے کریہہ چہرے پر پڑنے والا زبردست طمانچہ تھے، جو چلا چلا کر پوچھ رہے تھے، کہ اے دنیا کے دانش ورو! ذرا یہ تو بتلاؤ، غریب اپنے بچے پیدا کرتا ہے یا باپ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).