می ٹو وائرس کا حرم پاک پر حملہ
یوں تو انواع و اقسام کے وائرس ہر وقت ہی فضا میں موجود ہوتے ہیں، لیکن آج ہم صرف زکام کی بات کریں گے، جسے انگریزی میں انفلوئنزا کہتے ہیں۔ اگر گھر کا ایک بچہ اسکول سے اپنے ساتھ زکام کا وائرس لاتا ہے تو ایک ایک کر کے سارا گھر اس زکام کا شکار ہو جاتا ہے، ایسے میں اگر کوئی مہمان دوسرے شہر یا دوسرے ملک سے آپکے گھر آئے، تو جاتے وقت وہ آپکے دیے گئے تحائف کے ساتھ زکام کے وائرس کا تحفہ بھی لے کر جائیں گے۔ اور اس طرح وائرس کا سفر جاری رہتا ہے ایک جسم سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ، یوں ایک وائرس پھلتا پھولتا رہتا ہے۔
زکام کی طرح ہر وقت ہوا میں لاکھوں وائرس موجود ہوتے ہیں اور آپ کی ناک کے راستے آپکے جسم میں داخل ہوکے تباہ کاری پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ حجاز مقدس اور حرم ؍ پاک میں ہر وقت زیارت کے لئے آنے والوں کا رش رہتا ہے، تقریباً سارے سال ہر وقت ہی وہاں لاکھوں کی تعداد حج و عمرہ کے لئے موجود ہوتی ہے۔
دنیا بھر سے آنے والے زائرین کی وجہ سے وہاں کثرت سے زکام کا وائرس پھیل جاتا ہے۔ بعض اوقات حرم پاک میں ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لوگ کھانستے اور چھینکتے ہیں کہ ایک عجیب سا شور بن جاتا ہے، ہر سال کی طرح اس برس بھی مقدس سرزمین پے وائرس نے حملہ کیا ، مگر اس دفع وائرس کچھ انوکھی نوعیت کا تھا۔
یہ وائرس محترمہ سبیکا خان کے کاندھے پے ہوائی سفر کرتا ،کراچی سے سرزمین حجاز پے اترا اور وہاں کی ہوا میں پھیل گیا۔ وائرس کا نام تھا
“Me too”
اس اصطلاح کو پہلے دن کے اختتام تک 200000 سے زائد مرتبہ استعمال کیا گیا، اور 16 اکتوبر2017 کو 500000 سے زائد مرتبہ ٹویٹ کیا گیا۔ فیس بک پر، ہیش ٹیگ نے پہلے 24 گھنٹوں کے دوران 12 ملین سے زیادہ پوسٹ میں 4 4۔7 ملین سے زائد لوگوں نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ۔ اس تحریک میں وہ تمام خواتین شامل ہو سکتی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی بھی جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہو۔ اس تحریک میں مشہور اداکارائیں، ماضی کی مشہور ماڈلز سب سے زیادہ متحرک نظر آئیں۔
یوں یہ وبا تیزی کے ساتھ بھارت اور پاکستان پہنچی یہاں کچھ اداکاروں اور جدیدیت زدہ خواتین کی طرف سے پرجوش استقبال ملا۔
اور پھر کراچی سے بذریعہ بین اقوامی پرواز یہ بیماری مقدس سرزمین حجاز پہنچی، اور تیزی سے ہوا میں پھیل گئی۔ محترمہ نے کراچی آمد کے بعد اپنے فیس بک اسٹیٹس میں یہ بیان دیا کہ دوران طواف کوئی شخص مسلسل انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتا رہا۔اب چونکہ ہوا میں می ٹو وائرس پھیلا ہوا ہے تو سب می ٹو کی چھتری تلے جمع ہو گئے، خواتین ماضی میں مسجد حرام میں محسوس ہونے والی جنسی ہراسانی کے واقعات بیان کرنے لگیں، ایک محترم نے یہاں تک تحریر کیا کہ ان کی ستر سالہ والدہ کو بھی وہاں کسی نے جنسی طور پے ہراساں کیا ۔
ہر زمانے کے کچھ buzzwords ہوتے ہیں، me too بھی ان میں سے ایک ہے۔ جنسی ہراسانی اور می ٹو وبا پھیلتے ہی یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے مرد نام کا جنسی درندہ ابھی ابھی آسمان سے اترا ہے۔ یا جیسے فضا میں زکام کی وباء پھیل جاتی ہے اسی طرح آ ج کل مردوں میں کسی خاص قسم کی کھجلی کا وائرس پھیل گیا ہے۔ کراچی شہر میں اگر آپ عید کی خریداری کے لیے طارق روڈ چلے جائیں تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ آ پ سے مرد ٹکرایا یا عورت، کیونکہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی ، ہر شخص کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام نمٹانے کے چکر میں ہوتا ہے، اس بات سے بے نیاز کے اسکی جنس کیا ہے۔
اور جہاں تک حرم پاک کی بات ہے وہاں جانے کے بعد جو بات سب سے پہلے ذہن سے محو ہوتی وہ ہے آپکی جنس، کیونکہ جب آپکا مرکز ؍ نگاہ حرم پاک ہو تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا ، عورت اور مرد نہیں صرف انسان ہوتے ہیں، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں۔ ہر شخص اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے ایک دوسرے سے بے نیاز۔
اب اگر ایسے میں کسی کو ایسا محسوس ہوا کہ کسی نی جنسی ہراسانی کی کوشش کی ، اور مسلسل ہراساں کرتا ہی رہا تو اس مسلے پر ہم ایک چھوٹا سا قصہ سناتے ہیں۔
ایک دفع کا زکر ہے! شیرنی کو کسی جانور نے چھیڑ دیا (جنسی طور پر ہراساں کیا) ، شیر نے جنگل میں اعلان کروایا کہ سب جانوروں کو دربار میں حاضر کیا جائے۔
جانوروں میں سب آگے چوہا ناچتا پھدکتا جا رہا تھا ، اور زور زور سے بلند آواز میں نعرہ لگا رہا تھا
Me too, Me too, Me too!
- یتیم خانے کے مسافر - 28/08/2023
- ململ کی بیلٹ اور بدزبان بڈھا: ایک دکھ بھری یاد - 25/08/2023
- جاوید چودھری کے طارق عزیز اور ابن خلدون کے بارے میں انکشافات - 09/12/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).