چیف جسٹس کا تبصرہ پسپائی کا اشارہ ہے یا مقابلے کا اعلان


چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کل قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے عدلیہ کے جارحانہ رویہ پر نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے لیکن آئین پارلیمنٹ سے بالا تر ہے۔ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین سے متصادم ہو یا اس کے تحت عطا کردہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔ میڈیا کمیشن کے بارے میں ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کی نگران ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ وہ کوئی وضاحت نہیں دینا چاہتے اور نہ ہی ہم سے وضاحت دینے کا تقاضہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم وضاحتوں کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتے‘۔ سپریم کورٹ کے سربراہ نے اعلان کیا کہ ’ ہمیں اپنے مقاصد سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ آئین کے تحت حاصل اختیارات کا بھرپور استعمال کرے گی‘۔ چیف جسٹس نے اس تبصرہ میں وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ نہیں دیا لیکن ان کی باتوں سے عیاں تھا کہ وہ وزیر اعظم کی تنقید کا جواب دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد ایوان کی تقریر کا جواب اگر کوئی چیف جسٹس کمرہ عدالت میں دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ ملک میں اداروں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے افسوسناک صورت حال کا اشارہ ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں اور انہیں وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اسی سانس میں وزیر اعظم کی باتوں کا جواب دے کر وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہے کہ اس صورت حال میں انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے عام پاکستانی کے لئے یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ کیا وزیر اعظم کی طرح چیف جسٹس بھی مقابلہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں یا یہ ان کی طرف سے پسپائی کا اشارہ ہے۔

یوں تو اگر سیاست دانوں اور حکمران جماعت اور اس کے نمائیندوں کی طرح سپریم کورٹ کے جج بھی بیان بازی کو شعار بنائیں گے تو اس سے فطری طور پر عدالتوں کے وقار پر سوال اٹھیں گے۔ جیسا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج کہا کہ ملک کا آئین سپریم ہے اور پارلیمنٹ اس کے تابع رہ کر ہی قانون سازی کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کو اس عمل کی نگرانی کرنے کا حق و اختیار تفویض ہؤا ہے۔ یہ ایک اہم اور نہایت باوقار رول ہے۔ اسے نبھانے والے کرداروں کو بھی اپنی اس ذمہ داری کے مطابق عام لوگوں یا سیاست دانوں کے قد کاٹھ سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جج نہ تو سیاسی امور پر تبصرہ کرتے ہیں یا رائے دیتے ہیں اور نہ ہی سماجی مباحث کا حصہ بنتے ہیں۔ روایت کا حوالہ دیتے ہوئے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی سماجی زندگی محدود رکھتے ہیں، عدالتی امور پر نجی محفلوں میں تبصرے نہیں کرتے اور اپنے اقوال یا گفتگو سے اس بات کا اندازہ نہیں ہونے دیتے کہ وہ کسی معاملہ پر کیا رائے رکھتے ہیں۔ تا آنکہ اس معاملہ پر زیر سماعت مقدمہ میں فیصلہ سامنے نہ آجائے اور قانونی حوالوں اور دلائل و شواہد کے ساتھ ججوں کی رائے کا اظہار نہ ہو۔ عدالتی فیصلوں پر ہر ملک میں مباحث ہوتے ہیں اور ان پر نقد و جرح کی جاتی ہے لیکن کسی ملک میں جج خود ان مباحث کا حصہ نہیں بنتے۔ کوئی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ان کا اس مقدمہ یا اس میں دی گئی رائے سے اتنا ہی تعلق رہ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک خاص موقع پر ایک خاص تناظر میں موجود شواہد اور دلائل کی روشنی میں ایک فیصلہ لکھا تھا۔ یہ فیصلہ ایک فرد کی رائے نہیں تھی بلکہ دستیاب مواد کو قانون کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک جج نے ایک ماہر قانون اور منصف کے طور پر وہ الفاظ لکھے تھے۔ تاہم اگر جج بھی اپنے فیصلوں پر ہونے والے مباحث میں حصہ ڈالنے لگیں تو ایک جج اور سیاست دان یا اخبار کے تبصرہ نگار میں کیا فرق رہ جائے گا۔

پاکستان میں یہ افسوسناک صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کے چیف جسٹس پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد سے بالواسطہ طور سے ہی سہی ان مباحث کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار کا آج کا تبصرہ بھی ایک سیاسی بیان ہے جو کسی کمرہ عدالت سے جاری نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اور نہ ہی چیف جسٹس کے منہ سے ایسے الفاظ کی ادائیگی مستحسن کہی جاسکتی ہے۔ سیاست دان اگر غیر ذمہ دارانہ بات کرتے ہیں تو ان کی گرفت کرنے کے لئے ملک کا میڈیا اور اپوزیشن کے لیڈر موجود ہوتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کل قومی اسمبلی میں ججوں کے ساتھ ’دو دو ہاتھ ‘ کرنے کے حوالے سے جو بیان دیا تھا، اس پر اپوزیشن رہنما کل سے اپنے تحفظات کا اعلان کررہے ہیں۔ عدالتوں اور ججوں کے ساتھ پارلیمنٹ کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور حکومت کے ارکان کو کس طرح ججوں کے بارے میں یا ان سے متعلق گفتگو کرنی چاہئے، یہ ایک سیاسی بحث ہے۔ سپریم کورٹ کے کسی بنچ میں بیٹھے ہوئے ججوں کو اس بحث کو آگے بڑھانے کا کام نہیں کرنا چاہئے۔

آج چیف جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں ایک سہ رکنی بنچ میڈیا کمیشن کے بارے میں ایک مقدمہ کی سماعت کررہا تھا۔ اس بنچ میں شامل ججوں سے بجا طور سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنی ساری توجہ پیش نظر معاملہ پر مبذول رکھیں گے اور کوئی غیر متعلقہ بات منہ سے نہیں نکالیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب چیف جسٹس نے ایک روز پہلے کی گئی وزیر اعظم کی تقریر کا جواب دینا ضروری سمجھا تو انہوں نے ایک جج کی بجائے ایک فرد کے طور پر گفتگو کی ہے۔ ایک ایسا فرد جو وزیر اعظم کی باتوں کو اپنی ذات پر حملہ تصور کرتے ہوئے ان کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ اس عدالتی وقار اور طریقہ کار کے خلاف رویہ ہے کہ عدالتی بنچ میں شامل ارکان صرف اس معاملہ پر بات کریں جس پر سماعت کے لئے وہ جمع ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جب جسٹس ثاقب نثار یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ وضاحتوں کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتے تو وہ خود یہ تسلیم کررہے ہیں کہ ایک جج کے طور پر ان کا یہ مقام نہیں ہے۔ اس کے باوجود جب وہ وضاحت کرنا اور وزیر اعظم کے اعتراضات کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں تو خود اپنے بیان کردہ اصول سے متضاد رویہ اختیار کرنے کا باعث بنے ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنی وضاحت میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ سپریم ہے ۔ عدالت عظمیٰ صرف اس وقت پارلیمنٹ کے کسی قانون پر نظر ثانی کر سکتی ہے اگر اس کے خیال میں یہ آئین کی مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ اس اصول کا صرف یہ مقصد نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ ، اس کے سربراہ یا جج حضرات جب اور جس وقت چاہیں پارلیمنٹ میں ہونے والی گفتگو پر تبصرے کرنے میں آزاد ہیں۔ آئین اگر پارلیمنٹ کے اختیار پر حدود عائد کرتا ہے تو وہ عدالتوں کا دائرہ کار بھی متعین کرتا ہے۔ اس کے باوجود جب چیف جسٹس پارلیمنٹ میں کی گئی گفتگو کو موضوع بحث بناتے ہیں تو اسے ان حدود کی خلاف ورزی ہی سمجھا جانا چاہئے جو ایک جج کے دائرہ کار کے بارے میں مقرر ہیں۔ بجا طور سے چیف جسٹس سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث کو عدالتی سماعت کے دوران کس اختیار یا حق کے تحت موضوع گفتگو بنایا گیا تھا۔ یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تو اس سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو میڈیا کی رپورٹنگ کا عذر پیش کرکے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح چیف جسٹس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جج مقدمات کی سماعت کے دوران معاملہ کے تمام پہلوؤں کو جاننے اور مختلف نقطہ نظر سے آگاہی کے لئے سوال پوچھتے ہیں۔ ان کا فیصلوں یا کسی جج کی رائے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر میڈیا ان سوالوں کو شہ سرخیوں میں جگہ دیتا ہے تو اس کا ذمہ دار جج نہیں ہو سکتے۔ میڈیا کی خبروں پر جج کنٹرول نہیں کرسکتے لیکن وہ سوال کرتے ہوئے یا تبصرے کرتے ہوئے تو الفاظ کا چناؤ اس انداز میں کرسکتے ہیں کہ میڈیا کو سنسنی پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ اگر اس کے باوجود یہ کیفیت جاری رہے تو ججوں کو بھی صورت حال کا از سر نو جائزہ لے کر اپنے طرز گفتگو اور عدالتی کارروائی کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالتوں کے زیر سماعت مقدموں میں ہونے والی زیلی باتوں اور معاملہ کی ’تفہیم‘ کے لئے اٹھائے گئے سوال جب میڈیا میں خبروں کے علاوہ مباحث کا موضوع بننے لگیں تو ان کی روک تھام کے لئے ججوں کو بھی فعال ہونا پڑے گا۔ اس کے برعکس آج چیف جسٹس نے ایک غیر متعلقہ مقدمہ کی سماعت کے دوران نہ صرف قومی اسمبلی کی گفتگو پر رائے کا اظہار کیا اور اپنی پوزیشن واضح کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ’ ہم تک یہ بات پہنچائی گئی ہے کہ ہم مداخلت کررہے ہیں۔ اس لئے میں میڈیا کے نمائیندوں کی موجودگی میں یہ کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے‘۔ گویا چیف جسٹس میڈیا کو پیغام رسانی کے لئے استعمال کرنے کا اقرار و اعلان کررہے ہیں۔ حالانکہ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ یہ کام صرف اپنے فیصلوں کی صورت میں کریں۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزارت داخلہ کی طرف سے توہین مذہب کے قانون کے تحت غلط الزام عائد کرنے والوں کو ویسی ہی سزائیں دینے سے متعلق مسودہ پر غور کیا اور یہ بھی کہا کہ اب یہ کام بھی عدالتیں ہی انجام دے رہی ہیں۔ موضوع کی اہمیت اور سنگینی سے قطع نظر یہ سوال تو اپنی جگہ موجود رہے گا کہ کیا مختلف وزارتوں کو کسی خاص موضوع پر قانون تیار کرکے اس کا مسودہ منظوری کے لئے طلب کرنا، کسی بھی عدالت کے آئینی اختیار کا حصہ ہے یا ایسا اقدام کرتے ہوئے کوئی عدالت یا جج اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتا ہے۔ چیف جسٹس اس ایک معاملہ کے علاوہ گزشتہ ایک برس کے دوران سامنے آنے والے تبصروں ، سوالوں اور تقریروں پر غور کریں تو انہیں خود ہی آئین کے مطابق اپنے اختیارات کے علاوہ حدود و قیود کا تعین کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali