دلیپ کمار میں کیا خاص بات تھی؟ مکمل کالم


دلیپ کمار کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا ممکن نہیں جو اِس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو، سوائے اِس بات کے کہ وہ بہت بڑے اداکار تو تھے مگر یہ کہنا کہ اُن سے بڑا کوئی اداکار آج تک برصغیر میں پیدا نہیں ہوا، شاید مبالغہ آرائی ہو۔ کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ دلیپ کمار کو جتنا عظیم اداکار کہا جاتا ہے اتنی غیر معمولی بات اُن میں نہیں، میرا خیال تھا کہ وہ بہت اعلی ٰ پائے کے اداکار ہیں مگر جس طرح اُنہیں صدی کا سب سے بڑا اداکار کہا جاتا ہے وہ کچھ زیادتی ہے۔ سچی بات ہے کہ میری رائے لا علمی کی بنیاد پر تھی۔

میں نے اپنے لڑکپن میں دلیپ کمار کی جو پہلی فلم دیکھی وہ ’کرما ‘ تھی اور اسی سے میرے دماغ میں دلیپ کمار کا ایک تاثر بن گیا جو آنے والے کئی برسوں تک قائم رہا حالانکہ کرما نہ اُن کی نمائندہ فلم تھی اور نہ ہی اُس میں دلیپ صاحب اپنے جوبن پر تھے۔ کسی بھی اداکار، آرٹسٹ یا لکھاری کو اُس کے بہترین کام سے پرکھا جاتا ہے۔ دلیپ کمار کو چالیس کی دہائی میں عروج ملا اور ساٹھ کی دہائی تک وہ بلا شرکت غیرے برصغیر میں اداکاری کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگوں کی تفریح کے دو ذرائع تھے، ریڈیو اور فلم، ٹی وی ابھی نہیں آیا تھا۔ ریڈیو پر ہفتے میں ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جسے لوگ بہت شوق سے سنا کرتے تھے اور چونکہ ریڈیو ڈرامے میں اداکاری کو جانچنے کا واحد ذریعہ آواز تھی اِس لیے لوگ آواز کے زیر و بم اور اداکار کے لہجے کے اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر ہی اُس کے اچھے برے ہونے کا فیصلہ کرتے تھے۔ دلیپ کمار کی فلمیں جب اُس زمانے میں لگیں تو لوگ اُن کی اداکاری کے دیوانے ہو گئے اور اِس کی بنیادی وجہ دلیپ کمار کی آواز کا اتار چڑھاؤ تھا، وہ دھیمے لہجے میں مکالمے بولتے اور ہر ڈائیلاگ کی ادائیگی میں ایک قدرتی پن جھلکتا، لوگ چونکہ ریڈیو کے ڈرامے سُن کر محض اداکار کی آواز سے اُس کے فن کو پرکھ لیتے تھے سو بہت جلد دلیپ کمار کی بھی اِس نرالی خصوصیت نے انہیں اپنے ہمعصر اداکاروں سے ممتاز کر دیا۔

جس روانی، سادگی اور قدرتی انداز میں دلیپ کمار مکالمے بولتے تھے وہ مسحور کن تھا۔ اِس ضمن میں درجنوں فلموں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر ذاتی طور پر میں دو فلموں کا حوالہ دوں گا، ایک ’دیودا س ‘اور دوسری ’انداز‘۔ دیوداس میں دلیپ کے مکالمے بولنے کا سٹائل ایسا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ دھیمے لہجے میں اتنا تنوع کیسے ممکن ہے۔ ایک منظر میں دیوداس پار و کو غصے سے چہرے پر چھڑی مارتا ہے مگر یہاں بھی دلیپ نے غصے کا اظہا ر اوور ایکٹنگ کے ذریعے نہیں کیا بلکہ فقط اپنے لہجے کے اتار چڑھاو ¿ سے ہی اداکاری میں رنگ بھر دیے ہیں۔ ’ انداز‘ میں دلیپ کمار کا سامنا نرگس اور راج کپور سے ہوا، پوری فلم میں دلیپ کمار چھائے رہے، خاص طور سے جب راج کپور کی انٹری ہوتی ہے تو دیکھنے والا یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ راج کپور بہت ’محنت سے اداکاری ‘ کر رہے ہیں جبکہ دلیپ کمار کا وہی لا پروائی سے قدرتی انداز میں مکالمے بولنے کا سٹائل، جس کے آگے راج کپور جیسا سپر سٹار بھی نہیں ٹھہر سکا۔

 ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں آج یہ بات انوکھی نہ لگے اور وہ کہیں کہ اِس میں ایسا کون سا کمال تھا جو دلیپ کمار نے کیا، آخر ایک اچھے اداکار سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ آواز اور لہجے کی مدد سے مکالموں میں جان پیدا کرے، مردہ لہجے میں تو کوئی بھی ڈائیلاگ نہیں بولتا۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں، دو مثالیں پیش ہیں۔ آج کے دور میں اگر کسی نوجوان کو سن پچاس کا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے کہا جائے تو کچھ دیر بعدوہ بور ہو کر اٹھ جائے گا۔ اسی طرح نور جہاں اور دلیپ کمار کی فلم ’جگنو‘ جو 1947میں سپر ہٹ ہوئی تھی آج 2021 میں ہمیں متاثر نہیں کر سکے گی۔ دوسری مثال کے لیے ’نیٹ فلکس‘ پر موجود فلم ’کامیاب ‘ دیکھ لیں، یہ ایک بی کلاس اداکار کی کہانی ہے جو اب تک اپنے پرانے فلمی دور میں ہی جی رہا ہے اور اسے اندازہ نہیں کہ فلمی دنیا کس قدر بدل چکی ہے۔

اِس میں ایک سین بہت دلچسپ ہے جس میں اُس اداکار کو ایک طویل عرصے بعد کسی فلم کے آڈیشن کے لیے بلایا جاتا ہے، آڈیشن کے دوران وہ اسی طرح اونچی اور جذباتی آواز میں مکالمے بولتا ہے جیسے وہ اپنے دور میں اوور ایکٹنگ والی فلموں میں بولا کرتا تھا، آڈیشن لینے والا اسے لاکھ سمجھاتا ہے کہ آج کل ’نیچرل ‘ انداز میں مکالمے بولے جاتے ہیں مگر اُس اداکار کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی۔ سو جو بات دلیپ کمار نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں سمجھ لی اسے سیکھنے کے لیے باقی فلم انڈسٹری کو کئی برس لگے، ساٹھ کی دہائی میں پونا میں فلمی انسٹیٹیوٹ بنایا گیا جہاں اداکاروں اور ہدایتکاروں کی تربیت کی گئی اور اُس کے بعد آرٹ فلموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں نصیر الدین شاہ، سمیتا پاٹل، شبانہ اعظمی، اوم پوری وغیرہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور پھر ہمیں پتا چلا کہ بغیر اوور ایکٹنگ کیے بھی اداکاری کی جا سکتی ہے۔

ہماری نسل نے چونکہ اُس دور میں فلمیں دیکھنی شروع کیں جب اِس method acting کے ذریعے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے تو ہمیں دلیپ کمار کی عظمت کا اندازہ نہیں ہو سکا جنہوں نے کسی انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیے بغیر اداکاری میں وہ قدرتی رنگ بھرا جو اُس وقت بالکل نئی بات تھی۔ اُس زمانے میں صرف ایک اداکار ایسا تھا جو اِس ڈگر پر چلتا تھا، موتی لال، اِس نے دیوداس میں چنی بابو کا کردار کیا تھا، دلیپ صاحب اِس سے بہت متاثر تھے۔ سو آج اگر کوئی کہے کہ دلیپ کمار کی اداکاری میں ایسا کیا کمال تھا، اسے چاہیے کہ دیو آنند کی اوور ایکٹنگ والی فلمیں دیکھ لے۔

کوئی بھی اداکار چاہے کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، ایک دن اُس کی جگہ کوئی دوسرا اداکار لے لیتا ہے اور اُس دوسرے کی جگہ کوئی تیسرا۔ ہم جس زمانے میں پلے بڑھے وہ امیتابھ بچن کے عروج کا دور تھا۔ فلم ’شکتی ‘یہ دونوں عظیم اداکار ایک دوسرے کے مقابل آئے اور فلمی شائقین نے دونوں کی اداکاری کا موازنہ کیا۔ خاکسار کی رائے میں امیتابھ کا پلڑا بھاری رہا اور اِس کی ایک وجہ امیتابھ کے کردار کی نوعیت تھی، امیتابھ ایک ناراض بیٹے کا کردار ادا کر رہا تھا جس میں اداکاری کے جوہر دکھانے کی کا فی گنجایش تھی جبکہ دلیپ کمار کے پاس ایک روایتی ایماندار پولیس افسر کا کردار تھا۔ ایک سین میں جہاں دلیپ کمار کو بیٹے کے اغوا کی خبر دی جاتی ہے تو اُن کا رد عمل قدرتی نہیں لگتا بلکہ وہ بہت جلد نارمل انداز میں اغوا کار سے گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ تاہم میرے اِن اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ 1983میں فلم فئیر کے بہترین اداکار کا ایوارڈ دلیپ کمار کے حصے میں آیا تھا۔

تقسیم ہند کے وقت دلیپ کمار نے اپنے بھائی ناصر خان کو لاہو ر بھیجا تاکہ وہ حالات کا جائز ہ لے کر بتائے کہ کیا اُن کے فلمی کیرئیر کے لیے پاکستان آنا بہتر ہوگا یا ہندوستان میں رہنا۔ ناصر خان نہ صرف لاہور آئے بلکہ یہاں ایک فلم ’تیری یاد ‘ میں کام بھی کیا جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جا تا ہے (اِس فلم کا قصہ خاصا دلچسپ ہے جو پھر کبھی )۔ واپس جا کر انہوں نے دلیپ کمار کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ وہ بھارت میں ہی رہیں، وہاں فلموں کا مستقبل زیادہ تابناک ہے۔ ناصر خان کا اپنے بھائی کو دیا گیا یہ مشورہ درست ثابت ہوا۔ دلیپ کمار نے پاکستا ن ہجرت تو نہیں کی، بمبئی میں ہی زندگی گذاری مگر دیگر اداکاروں کے برعکس وہ اپنے نظریات کے اظہار میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے تھے۔ 1993میں بمبئی فسادات کے وقت اُن سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ بمبئی جل رہا ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ دلیپ کمار نے جواب دیا ’بمبئی کہاں جل رہا ہے، صرف مسلمانوں کے گھر جل رہے ہیں۔ ‘یہ تھے دلیپ کمار جو 98برس کی بھرپور زندگی گزار کر ’نروس 90s‘ کا شکار ہو گئے۔ ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments