فن کار کو ریٹنگ کا دیوانہ سیلزمین نہیں بننا چاہیے


ایک مصنف دوست کی ٹی وی سیریز کی پہلی قسط نشر ہوئی تو میں نے اُسے مبارک باد کے لیے فون کال کی۔ کہنے لگا، ”یار ظفر! بڑی مشکل ہوگئی ہے؛ ادھر قسط ٹی وی سے نشر ہوتی ہے، کچھ دیر بعد یوٹیوب اور دیگر ویب سائٹس پر چڑھا دی (اپ لوڈ) جاتی ہے۔ گھنٹے دو گھنٹے میں ناظرین اس پہ رائے لکھنے لگتے ہیں۔ ہفتہ واری ریٹنگ کی تلوار پہلے ہی تھی، اب یہ آن لائن چینل بھی ہم پر دباو ڈالتے ہیں، کہ پروگرام کتنے لوگوں نے دیکھا، کتنوں نے نہیں“۔

ایسے مواقع کے لیے میں نے جو رٹ رکھا ہے، وہی دُہرادیتا ہوں۔ ”بھائی میرے! ٹیم مین کے طور پہ ہمارا کام لکھنا ہے، دوسرے نے ہدایات دینا ہیں، کچھ اداکاری کرتے ہیں، اور پروڈیوسر اپنا کردار نباہتا ہے۔ ان سب کی مشترکہ کاوش یہ ہونا چاہیے کہ کانٹینٹ اچھا ہو، تمام شعبے اپنے فن کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے، اپنے سے ہر خوبی اس پروگرام میں ڈال دیں۔ رہا ریٹنگ کا سوال تو یہ ہمارا کام نہیں، ٹی وی چینل کی پروگرام ڈپارٹ منٹ، مارکیٹنگ کے شعبے کا درد سر ہے۔ یا تو ہمارے ہاتھ میں ہو، کہ ہمارا پروگرام کس وقت چلنا ہے، اس کی پروموشن کیسے ہوئی ہے۔ حریف ٹی وی چینل پر اس وقت کون سا پروگرام ہے؛ وغیرہ۔ تب ریٹنگ کا سوال ہم سے کیا جائے۔ چھوڑو یہ ریٹنگ ویٹنگ اور بس کام کیے جاو۔ ہمارے سینیئر سمجھاتے رہتے ہیں، کہ فن کار کو اپنا کام کرکے اس سے بے نیاز ہوجانا چاہیے“۔

ظاہر ہے میری ایسی باتوں کا اثر کیوں ہوتا ہوگا۔ سبھی چاہتے ہیں، اس کے کام کو زیادہ سے زیادہ ناظرین دیکھیں، زیادہ سے زیادہ سراہا جائے۔ پھر مارکیٹ میں مول بھی اسی کے لگتے ہیں، جس کی ریٹنگ اچھی آئے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ شوبز ہی کیا ہر بزنس Perception پر چلتا ہے۔ ایک بار پھجے کے پائے مشہور ہوگئے اس کے بعد ذائقہ کون دیکھتا ہے۔ ہر کام کرنے والے کے ہر کام بہترین نہیں ہوتا، ہر ایک کے کیریئر میں عروج زوال ہوتا ہے؛ عروج کے دنوں میں اچھا برا سب چل جاتا ہے۔ ایک پھجے کا زوال ہو، دوسرا پھجا آ جاتا ہے۔

ہمارے یہاں اتنے ٹی وی چینل ہیں، کہ ان کے آپس کے بیچ میں مقابلہ چلتا ہے، کہ کون کس وقت کیا ریٹنگ لے رہا ہے۔ پلاننگ کی جاتی ہے کہ مقابل کس وقت کون سا پروگرام نشر کررہا ہے، اسٹریٹجی بنائی جاتی ہے، کہ اس کا کیا توڑ کیا جائے۔ ناظرین کی توجہ کے حصول کے لیے کئی کئی طرح کے ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں۔ ایسے میں چینل کو پیشے کی آن بھی بچانا ہے۔ جب کوئی چھوٹے درجے کا چینل سطحی معیار کا چٹا پٹا پروگرام پیش کرکے ریٹنگ بڑھا لیتا ہے، تو ایسے چینل جنھیں معیاری سمجھا جاتا ہے، ان کی ٹیم پر دباو بڑھتا ہے، کہ وہ بھی ریٹنگ کے حصول کے لیے پروفیشن کی ناموس پر دھبا لگادیں۔ خاص طور پہ نیوز اینڈ کرنٹ افیئر کے شعبے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ”سب سے پہلے“ کا غوغا، خبر کی تصدیق کی مہلت ہی کہاں دیتا ہے؛ سو نیوز چینل اپنا اعتبار گنوانے لگتے ہیں؛ اسی طرح کرنٹ افیئر کے پروگراموں میں چیخم دھاڑ، ڈرامائی صورت احوال، لڑائی بھڑائی، سنسنی پھیلاتی افواہیں، پروگرام کی ریٹنگ ہائی کرنے کے مجرب نسخے تسلیم کرلیے گئے ہیں۔

ٹی وی چینل میں تو ہفتہ واری ریٹنگ چارٹ دیکھے جاتے ہیں، اس کی مناسبت سے اسٹریٹجی تبدیل کی جاسکتی ہے۔ آن لائن چینل اور ویب سائٹس پر ہاتھ کے ہاتھ پتا چلتا رہتا ہے کہ کتنے ناظرین کس وقت کیا دیکھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آنے والا وقت روایتی نشریاتی اداروں کے بجائے، آن لائن ٹی وی چینل کا ہے۔

جوں جوں سائبر ورلڈ کا پھیلاو ہوتا جاتا ہے، بڑے بڑے اداروں کی مناپلی کو خطرہ لاحق ہے۔ آن لائن چینل کے لیے اتنے وسائل کی ضرورت نہیں، جتنا روایتی انداز کے چینل کے لیے ہوتی ہے۔ کوئی بھی کم وسائل سے اپنا چینل لانچ کرسکتا ہے۔ سینسر کی بھی وہ پابندیاں نہیں۔ اوٹ پٹانگ سی وِڈیو بھی ہٹ ہوجائے تو لاکھوں کروڑوں ناظرین دیکھ لیتے ہیں۔ ادارے کے طور پہ پروفیشن کی اخلاقیات کا بار بھی نہیں ہوتا۔

سائبر ورلڈ پر زیادہ تر نوجوانوں کا راج ہے۔ ابھی دنیا ایک فیز سے نکل کر دوسرے فیز میں داخل ہورہی ہے۔ جیسے پہیا ایجاد ہونے کے بعد برسوں لگے ہوں گے، یہ سمجھنے میں کہ پہیے کو کہاں کہاں کیسے کیسے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ سائبر ورلڈ کے پہیے کو ابھی کہاں کہاں فٹ ہونا ہے، یہ نت روز سیکھنے کو ملتا ہے۔ تیسری دُنیا کے ہم میں سے بہت ہیں جو پہیے کو ہوا میں معلق کرکے گھماتے ہیں، اور خوش ہوتے ہیں، اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ چند ہیں جو اس پہیے کا درست استعمال کرتے ہیں، اور وہ بھی ہوں گے جو اس پہیے کو اتنا تیز دوڑانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، کہ بھاری سے بھاری خیال کو اٹھا کر اونچی فضاوں میں لے اُڑیں۔

پاکستان میں ابھی یوٹیوب اور اس طرح کے دیگر چینل سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا گیا، جیسا کہ دُنیا بھر میں استعمال ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عوام کا اس سے فوائد کا شعور بڑھتا جارہا ہے۔ یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ آن لائن بزنس کے کیسے کیسے امکانات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نشریاتی اداروں کے لیے سائبر ورلڈ خطرے کی گھنٹی بنا ہوا ہے۔ سیٹھ یہاں بھی سرمایہ کاری کررہے ہیں، اور نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کس طرح یہاں بھی مناپلی قائم کی جاسکے۔

ظاہر ہے کسی بھی فنون سے وابستہ شخص کو اپنی حیرت بچا کر رکھنا چاہیے؛ اس کی حیرت تمام ہوئی تو وہ سیلزمین بن کے رہ جاتا ہے؛ یہ ریٹنگ ویٹنگ کے جھنجٹ انھی کو زیبا ہیں، جن کا یہ کام ہے۔ سچی بات ہے میں اس دُنیا میں آ تو گیا ہوں، لیکن مجھے اس دُنیا کی کچھ خبر نہیں۔ مجھے تو سائبر ورلڈ ٹائم مشین کی طرح لگتا ہے، میں حیرت سے چاروں اور دیکھتا ہوں، اور منتظر رہتا ہوں کہ ہر آنے والا لمحہ مجھے کہاں کی سیر کراتا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran