چور، ڈاکو، گاڈ فادر اور وزیراعظم


محترم وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں خطاب میں فرمایا ” ایوان میں بیٹھے لوگ 20 کروڑ عوام کے منتخب نمائندے ہیں، لیکن عدالتوں انھیں کبھی چور، کبھی ڈاکو کبھی گاڈ فادر کہا جاتا ہے، حکومتی پالیسی کو مسترد کیا جاتا ہے، دھمکی دی جاتی ہے کہ جو قانون آپ نے پاس کیا ہے اسے ختم کر دیں گے۔ کیا ایوان کو قانون سازی کا حق نہیں؟ کیا ہمیں قانون سازی کرنے سے قبل منظوری لینی ہوگی، کیا حکومت کو فیصلے کرنے کا حق ہے؟ سرکاری افسروں کو نکالا جاتا ہے، حکومتی نمائندوں کو بے عزت کیا جاتا ہے، اس قسم کی باتوں سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

ماشاء اللہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا! آپ کا بیان سر آنکھوں پر، لیکن کیا منتخب نمائندوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم فرائض ادا نہیں کرتے حقوق مانگنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا پورے پانچ سال میں وہ اسمبلی میں پابندی سے حاضر ہوئے ہیں۔ کتنی ہی دفعہ ان کی غیر حاضری اور مناسب تعداد نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوئے ہیں، اسمبلی میں جب بھی قانون سازی کی گئی اپنے مفاد اپنی حکومت بچانے کے لیے کی گئی، جبکہ بغیر کام کیے تنخواہ پوری لے رہے ہیں، کبھی کسی نے کہا کہ ہم یہ تنخواہ نہیں لیں گے کیونکہ کام نہیں کیا، دنیا کا ہر عیش وآرام آپ کو حاصل ہے ہر قسم کی مراعات آپ کو حاصل ہیں، امیر امیر ترین اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔ آپ لوگ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے نمائندے کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ تیس فیصد ووٹ لے کر اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔

عوام کو شعور ہی نہیں ووٹ دینے کا، ووٹ دینے والے اپنے علاقے کے لوگوں کو ووٹ دینے کے پابند ہوتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے، جو جیت کر آتا ہے اس پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے اور ہارنے والا اپنا رونا روتا ہے۔ اسمبلی میں بیٹھ کر عوام کی بھلائی کے کونسے کام کیے ہیں۔ تعلیم، صحت، مہنگائی حد تو یہ ہے کہ پینے کا صاف پانی عوام کو میسر نہیں، کوئی ادارہ ایسا نہیں بنایا جو ہنگامی حالات زلزلہ، سیلاب، ہنگاموں سے نمٹ سکے فوراً فوج طلب کرنی پڑتی ہے، کراچی میں رینجرز اور شہر کا ساتھ پرانا ہوچکا ہے اب تک اس قابل نہیں ہوئے کہ ملک کے بڑے شہر کا نظام چلا سکیں، اب ادارے مداخلت نہ کریں تو کیا کریں۔ عدالتیں انھیں چور، ڈاکو اور گاڈ فادر کہتیں ہیں، کیا سب پارسا ہیں کسی نے رشوت نہیں لی کسی نے حق نہیں مارا، اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، کسی نہ کسی وزیر پر کوئی نہ کوئی الزام لگا ہوا ہے، الزام جب ہی لگتا ہے جب کچھ ہوتا ہے، کہیں دال میں کالا ہے اور کہیں پوری دال کالی ہے۔ اپنی دولت پاکستان میں رکھنے کے بجائے باہر کیوں رکھتے ہیں، کیا اپنے پیسے کو ٹیکس سے بچانے کے حربے استعمال نہیں کرتے۔

شکوہ جب بجا ہے جب ایوان میں اپنی ذمہ داری پوری سچائی اور دیانتداری سے نبھائی جاتی، اور عوام کی خدمت بلا تفریق کی جارہی ہوتی۔ جس ملک کے وزیر، سفیر اور دوسرے بڑے علاج کے لیے ملک سے باہر جارہے ہوں تو اس ملک میں صحت و صفائی کا کیا حال ہوگا کیا ایک بھی ہسپتال ایسا نہیں جہاں ان ارکان پارلیمنٹ کا علاج ہوسکے۔ آپ لوگوں نے کیا ہی کیا ہے ایک بیمار کو علاج کی سہولت تو دے نہیں سکتے، یہاں کے ہسپتالوں کا خود بھروسہ نہیں اس لیے باہر جاکر علاج کرواتے ہیں۔ تعلیم کا شعبہ لے لیجیے سب کی اولادیں اس ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہی ہیں کیونکہ ملک میں انھیں بہترین تعلیمی سہولیات نہیں ہیں عوام کا کیا ہے عوام ان کالے، پیلے اسکول میں پڑھ لے گی اور کیڑے مکوڑوں کو اس سے زیادہ سہولت دینی بھی نہیں چاہیے ، حالانکہ جس علاقے سے ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی منتخب ہوتا ہے اگر وہ اپنے علاقے کی دیکھ بھال کر لے تو پورا پاکستان سنور جائے۔

جب آپ کی سرزش کی گئی تو چیخیں نکل رہی ہین کیونکہ عدلیہ نے آپ کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ عدلیہ کو کوئی ضرورت پیش نہیں آتی اگر تمام معاملات احسن طریقے سے دیے جارہے ہوتے۔ کونسا ٹھیکہ، کونسا معاہدہ ہے جس میں پیسے نہیں کھائے جارہے، سی پیک کے لیے ملک کے بڑے بڑے ادارے گروی رکھ دیے گئے ہیں، قرض کا بوجھ اتنا ہے کہ قرض کی قسط دینے کے لیے قرض لیا جاتا ہے۔ ان سب باتوں کو اعداد شمار میں بھی لکھا جاسکتا ہے لیکن عام عوام کو سمجھنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کا مقروض پیدا ہوتا ہے۔ سطحی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

اب تو دم آخر ہے اگلے الیکشن کے نتائج بھی اسی سے ملتے جلتے ہوں گے، کبھی میری کبھی تیری باری۔ اب بھی سدھر جائیں بڑی بڑی باتوں کے بجائے کام کرکے دکھائیں تاکہ عوام کا بھلا ہو، جسے آ پ نے ڈھور ڈنگر سمجھ رکھا ہے اسے انسان سمجھیں اور بنیادی سہولیات مہیا کریں ورنہ یہ عوام ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).