پاکستانی ہندوؤں اور مسیحیوں پر نشتر


وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی اقلیتیں خود کو قابل احترام شہری ثابت کرنے کی کوشش میں ناکام نظر آتی ہیں۔ ان کے کردار کو صرف ایک اخباری کالم یا تحریری رپورٹ تک محدود رکھا گیا۔ اسی لئے آج بھی ایک عام پاکستانی کی نظر میں تمام اقلیتیں کافر ہیں۔ ان کی جان، مال اور عزت اکثریتی برادری پر حلال ہے۔ آپ کسی سڑک چلتے پاکستانی سے پاکستانی ہندو کا ذکر کریں تو وہ بغیر کسی تحقیق کے انہیں را کا ایجنٹ قرار دے گا۔ کسی مسیحی کا ذکر کریں تو انہی امریکی ڈارون یاد آ جایئں گے۔ پھرگفتگو میں موجود زہر، نفرت اور تعصب سے شاید سننے والے کو بھی خوف آنے لگے گا۔ یہ نفرت بھرے جذبات اکثر و بیشتر اپنی عملی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے۔ ہر شماہی کوئی بستی کوئی گاؤں جلتا ہے یا کوئی ہجوم کے تشدد کا شکار ہوتے ہے۔ ہندو اور مسیحی لڑکیوں کا اغوا اور جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔

ان نفرت بھرے رویوں کو بڑھاوا دینے میں اہم حکومتی اداروں اور حاکموں کا رہا ہے۔ پنجاب میں آج تک مسیحیوں کے خلاف تشدد کے جتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ وہ سب مسلم لیگ نواز کے دور میں ہوئے ہیں۔ مسیحیوں کی بڑی تعداد میں نواز لیگ سے خوفزدہ ہے۔ اس خوف کو پروان چڑھانے میں میاں صاحبان نے خود بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے متعصبانہ رویوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے دو سال پہلے سانحہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہوا تھا۔ اس میں بڑی تعداد میں مسیحیوں کی ہلاکتوں ہوئیں، دونوں میاں صاحبان میں سے کوئی نہ گیا۔ پھر مرنے والوں کے اہل خانہ کو صرف پچاس ہزار روپے فی کس کے حساب سے امداد دی گئی۔ بدقسمتی سے چیک کیش نہ ہونے پر اہل خانہ احتجاج کرتے نظر آئے۔ جبکہ سانحہ احمد آباد میں ہلاکتوں کے بعد دونوں میاں صاحبان نے مرنے والوں کے خاندانوں سے ملاقات کی اور تقریباً بیس لاکھ فی کس کے حساب سے امداد دی گئی۔ دوسری طرف ہندو کمیونٹی پیپلز پارٹی کے نا ختم ہونے والے دور میں اتنی پریشان ہے کہ ایک اندازے کے مطابق سالانہ پانچ ہزار سے زائد ہندو بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق سالانہ ایک ہزار سے زائد اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والوں کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے۔

اب اداروں کا ذکر کیا جائے تو خاکروب کی نوکری کا اشتہار ہو یا لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عوام کو صفائی کا خیال رکھنے کی تاکید کرنے کا انداز، اقلیتوں کے لئے نفرت اور اس نفرت میں اضافہ کرنے کی کوشش نمایاں نظر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں چھپنے والا اشتہار دیکھا، اس کے متن کے مطابق، چونکہ مسیحیوں کا ایک تہوار ہے، اس لئے انہیں چھٹیاں ہوں گی، اس لئے شہر میں صفائی کا خیال رکھا جائے۔ یقینی طور پر کمپنی پاکستان میں صفائی کرنے والوں سے خصوصی نفرت کے سماجی رویے سے واقف ہو گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، کمپنی نے اشتہار میں تاثر دیا ہے جیسے کمپنی تمام مسیحیوں کو صفائی کے نا پسندیدہ پیشے سے جوڑ کر سماجی دھتکار کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ جبکہ حقیت میں اس اشتہار کے برعکس، مسیحیوں کی بڑی تعداد تعلم اور صحت سے وابستہ ہے۔ ان کی عزت بڑھانے والے اشتہارت کی ضرورت ہے تاکہ ملی اتحاد میں اضافہ ہو سکے۔

افراد، اداروں اور حکمرانوں کی اقلیتوں کے خلاف نفرت دراصل ملک کو کمزور کر رہی ہے۔ ہم سب مل کر ایک قوم نہیں بن پا رہے۔ مذہب کی بنیاد پر جنم لینے والی تقسیم کہیں تو ذات اور برادری تک گھس جاتی ہے اور کہیں فرقوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ اس کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان، انسان کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ریاست کمزور سے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ آج اگر پاکستان میں بسنے والوں کو کسی ترقی کے معیار تک پہنچنا ہو گا تو تمام افرد کو بلا تفریق، عزت، مقام اور مواقع دینے ہوں گے۔ خاص طور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے مسیحیوں اور ہندوؤں کو تحفظ کا احساس دلانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).