ایف آئی آر کے بارے میں چند اہم معلومات


ایف آئی آر، فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کا مخفف ہے جسے اردو میں ابتدائی اطلاعی رپورٹ بھی کہتے ہیں۔ قانون کے مطابق کسی جرم ہونے کی صورت میں جتنا جلدی ہوسکے پولیس کو اطلاع دینا ضروری ہے۔ اطلاع میں جتنی تاخیرہوگی اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف آئی آر کیسے درج کرائیں؟

آپ کسی مسئلے پر پولیس سے رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پولیس ہر شکایت پر ایکشن نہیں لیتی بلکہ یہ صرف ان معاملات کی رپورٹ لکھتی ہے جو قانون نے اس کے دائرہ اختیار میں دیے ہوئے ہیں۔ ایسے معاملات کو قابل دست اندازی پولیس کہتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی، قتل، اغوا، ریپ، خواتین کو ہراساں کرنا، شدید نوعیت کی مار پیٹ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر بے شر جرائم کی تحقیق و تفتیش بھی پولیس کے ذمے ہوتی ہے۔ کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں جن میں پولیس براہ راست کارروائی کی مجاز نہیں۔ فراڈ، جعلسازی، عوامی پریشانی سے متعلق اور معمولی چوٹ وغیرہ کے مقدمات اس کی مثالیں ہیں۔

فرض کریں آپ اپنی بائیک کی چوری کی رپورٹ درج کرانا چاہتے ہیں۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت آپ ایس ایچ او کے نام درخواست دیں گے۔ ایس ایچ او، سٹیشن ہاؤس افسر کا مخفف ہے جسے عام طور پر تھانے دار کہا جاتا ہے۔ آپ چاہیں تو درخواست خود بھی لکھ سکتے ہیں ورنہ تھانے میں موجود محررسے بھی لکھوا سکتے ہیں۔ آپ نے خود درخواست لکھی ہے تو اس میں جرم کی پوری تفصیل درج کریں گے جیسے ملزم کا نام، پتہ اور دیگر معلومات، ملزم انجانا ہو تو جیسا کہ چوری اور ڈکیتی کے اک معاملوں میں ہوتا ہے تو اسے “نامعلوم” لکھیں گے۔ جرم کب اور کہاں ہوا؟ اورایسی معلومات جو پولیس کو ملزم پکڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہوں، بتائی جائیں گی۔ چوری ہونے والی موٹر بائیک کی تفصیل، میک، ماڈل، بر اور اس کی مالیت وغیرہ بھی بتانا ضروری ہے۔ درخواست میں آپ اپنا نام، پتہ اور فون بر لکھیں گے اور آخر میں دستخط کرکے پولیس کے حوالے کر دیں

اگر آپ محرر سے درخواست لکھواتے ہیں تو وہ آپ سے اہم ضروری تفصیلات پوچھ کر لکھے گا اور پھر آپ کو پڑھ کر سنائے گا۔ جہاں آپ ضروری سمجھیں گے وہ اس میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کا پابند ہے۔ درخواست کے آخر میں آپ کے دستخط کرانے کے بعد اس پر ڈائری نمبر وغیرہ درج کردیا جائے گا۔ محرردرخواست کی ایک کاپی آپ کو بھی دے گا۔ پولیس رپورٹ کی کوئی فیس نہیں ہوتی۔ ِ قابل دست اندازی پولیس جرم ہونے کی صورت میں پولیس پرچہ درج ہونے کے فوراً بعد مقدمے کی تحقیقات شروع کر دیتی ہے۔ پولیس چاہے تو وارنٹ گرفتاری کے بغیر ملزم کو گرفتار کر سکتی ہے۔ ِ ناقابل دست اندازی پولیس جرائم کے مقدمات درج کرنے اور تحقیقات کے لیے پولیس کو عدالت کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ ایسے مقدمات میں پولیس کو بغیر وارنٹ کسی گرفتاری کا اختیار نہیں ہوتا۔

ایف آئی آر درج کرانے میں مشکلات بعض اوقات پولیس مقدمےکے اندراج میں لیت و لعل سے کام لیتی ہے، سیاسی اثرورسوخ، سفارش، رشوت، اختیارات کا غلط استعل سمیت اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تھانے دار یا محرر درخواست لینے سے انکار کریں توآپ سب ڈویژنل پولیس افسر کو درخواست دے سکتے ہیں۔ وہاں بھی شنوائی نا ہو تو پھر آپ کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر( ڈی پی او) کے دفتر میں درخواست دینا ہوگی۔ ان دونوں افسروں کے پاس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 551 کے تحت وہ تمام اختیارات ہوتے ہیں جو ایک ایس ایچ او کے پاس ہوتے ہیں۔ ڈی پی او خود ایف آئی آر لکھ سکتا ہے یا پھر متعلقہ تھانے دار کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔

محکمہ پولیس کا کوئی افسر آپ کا مقدمہ درج نہیں کرتا تو گھبرانے کی ضرورت ن حکومت نے اس کام کے لیے ہر ضلعے کے کچھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو “جسٹس آف پیس” کا عہدہ دے رکھا ہے جو کسی درخواست پر تھانے دار کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دے سکتے ہیں۔ تھانے دار جسٹس آف پیس کے احکامات کو نہیں مانتا تو اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ آئین پاکستان میں ریاست نے عوام سے فوری، سستے اور شفاف انصاف کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن حقیقت میں نظام، انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس بعض اوقات جسٹس آف پیس کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔

اس صورت میں قانون نے آپ کے لیے ایک اور دروازہ کھولا ہوا ہے۔ اس کے تحت ہائی کورٹ میں رٹ داخل کرائی جاتی ہے۔ عدالت سائل کی درخواست پر ایف آئی آردرج کرنے کے احکامات دیتی ہے۔ ایف آئی آر درج کرنا پولیس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ ایسے تمام پولیس افسر جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں انہیں پولیس آرڈر 2002 کے تحت تین سال کی قید کے ساتھ جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر سائل کے خیال میں تھانہ محرر اس کی درخواست میں اس کی بتائی گئی بات کو توڑ موڑکر لکھ رہا ہے یا غلط حقائق پیش کر رہا ہے یا سائل کو پولیس پر اعتبار نہیں رہا یا پھر کوئی سائل تھانے جانا ہی نہیں چاہتا تو وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 190 اور 200 کے تحت مجسٹریٹ کوشکایت کرسکتا ہے۔

شکایت اور ایف آئی آر میں فرق دونوں میں بہت معمولی لیکن بنیادی فرق ہے۔ مجسٹریٹ درخواست گزارسے حلفاً بیان لیتا ہے اورمعاملے کی جانچ پڑتال کے بعد شکایت درج کرتا ہے۔ شکایت میں نامزد ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ مجسٹریٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے کسی بھی پولیس اہلکار یا کسی اورسرکاری عہدے دار کو ذمہ داری تفویض کرسکتا ہے، اس دوران جانچ پڑتال کی نگرانی مجسٹریٹ خود کرے گا تحقیقات کے بعد مقدمہ چلے گا اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزا کے لیے ملزم کو گرفتار کیاجاتا ہے۔ ایف آئی درج ہونے کے بعد ملزم کو فوراً گرفتارکیا جاتا ہے اورپولیس تحقیقات مکمل کرنے کے بعد عدالت میں چالان پیش کرتی ہے۔ دنیا بھر میں قانون لوگوں کی مدد کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انہیں لوگوں کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے تھانے میں پرچہ کٹوانا ہو تو پوری تیاری سے جائیں۔ کچھ دعائیں بھی یاد ہوں تو زیادہ بہتر ہے

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya