نوازشریف پارٹی صدارت کے لئے نااہل، سینیٹ انتخابات خطرے میں


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ساڑھے 4 بجے دوبارہ آئیں گے اور بتائیں گے کہ مختصر حکم دینا ہے یا فیصلہ کرنا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کچھ دیر کی تاخیر ہوئی اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 6 بجے کے قریب فیصلہ سنایا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ سنایا۔

چیف جسٹس نے نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے نا اہل قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 پر نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا کیونکہ پارٹی صدارت کا براہ راست تعلق پارلیمنٹ سے ہے۔

عدالتی فیصلے میں نوازشریف کے بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے جس کے بعد سابق وزیراعظم کے بطور پارٹی صدر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی نامزدگی کالعدم ہوگئی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ ہوگئے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس

اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے ملکوں میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مختلف صورتحال ہے، پارٹی سربراہ کے گرد ساری چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہماری جان بھی اپنے لیڈر کے لئے حاضر ہے، یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور پارٹی سربراہ اہم ہوتا ہے اور اسی کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں۔

اس موقع پر وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف عدالت کا فیصلہ موجود ہے، کیا میں غلط کام کرنے کے لئے اپنا بنیادی حق استعمال کرسکتا ہوں اور مفروضے پر پوچھ رہا ہوں کیا ڈرگ ڈیلر یا چور پارٹی لیڈر بن سکتا ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں اخلاقی اقدار بنیادی نکتہ ہے، سیاسی جماعت ڈی ریگولیٹ نہیں رہ سکتی اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو سوال بھی نہیں پوچھ سکتا، ذہن میں اہم سوال آرہا تھا۔

انتخابی اصلاحات کیس کا پس منظر

2 اکتوبر 2017 کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظوری کے بعد نواز شریف کے لئے پارٹی صدر بننے کے لئے راہ ہموار ہوئی۔

پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف پارٹی صدر کے لئے نا اہل ہوگئے تھے اور پارلیمنٹ سے نئے بل کی منظوری کے بعد 3 اکتوبر کو وہ ایک مرتبہ پھر بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہوئے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے پارٹی صدر بننے اور پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری کے بعد تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔

یکم جنوری 2018 کو عدالت نے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس پر سماعت کی جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت کے دوران عوامی مسلم لیگ کی جانب سے فروغ نسیم، تحریک انصاف کی جانب سے بابر اعوان اور پیپلز پارٹی کی جانب سے لطیف کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).