سپریم کورٹ اور مقننہ کی کشمکش میں اصل طاقت کس کے پاس ہے؟


سپریم کورٹ نے آج مقننہ کے ستمبر 2017 میں بنائے گئے انتخابی اصلاحات کے ترمیمی قانون کا ایک اہم جزو ختم کر دیا ہے۔ ستمبر میں انتخابی اصلاحات کے بل کی شق نمبر 203 کا اضافہ کیا گیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص جو سرکاری ملازم نہ ہو وہ نہ صرف سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے بلکہ اس کا صدر بھی بن سکتا ہے۔ اس نئی شق کے تحت میاں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر بن گئے۔

چیف جسٹس نے نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے نا اہل قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 پر نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا کیونکہ پارٹی صدارت کا براہ راست تعلق پارلیمنٹ سے ہے۔ عدالتی فیصلے میں نوازشریف کے بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے جس کے بعد سابق وزیراعظم کے بطور پارٹی صدر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی نامزدگی کالعدم ہوگئی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ ہوگئے۔

بنیادی انسانی حقوق کے باب میں موجود آئین کا آرٹیکل 17 ہر ایسے پاکستانی شہری کو سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کا حق دیتا ہے جو سرکاری ملازم نہ ہو۔ اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے اس شق کا ذکر کرتے ہوئے اسے آرٹیکل 62 اور 63 سے جوڑا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان آرٹیکل پر پورا نہ اترنے والا شخص سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں ہو سکتا کیونکہ سیاسی جماعت کے عہدیدار کے اعمال و افعال کا پارلیمنٹ اور قانون سازی پر اثر پڑتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ”سیاسی جماعت بنانے کا مقصد حکومت بنانا ہوتا ہے“۔

یاد رہے کہ ملک کے بدترین مارشل لاؤں میں بھی سیاسی جماعتوں کی عہدے حاصل رکنے پر ایسی قدغن نہیں لگائی گئی تھی۔ ویسے اس بات کو آگے بڑھایا جائے تو ہر ووٹر کے ووٹ کا بھی مقننہ اور قانون سازی پر فرق پڑتا ہے، تو مناسب ہے کہ ووٹر لسٹ کی چھان بین کر کے ہر ایسے شہری سے ووٹ کا حق چھین لیا جائے جو صادق اور امین نہیں ہے۔

ایک خلاف روایت بات یہ ہوئی ہے کہ بحیثت پارٹی سربراہ نواز شریف نے جو فیصلے بھی کیے ہیں وہ غیر قانونی قرار پائے ہیں۔ حالانکہ عدالتی روایت ہے کہ کسی عہدیدار کی معزولی کے نتیجیے میں اس کے کیے گئے فیصلے کالعدم قرار نہیں دیے جاتے۔ اس کی بہت بڑی مثال جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا کیس ہے جن کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ کبھی بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں رہے اور افتخار چوہددری اپنی معزولی کے دنوں میں بھی قانونی طور پر چیف جسٹس تھے۔ لیکن یہ فیصلہ دیا گیا کہ جسٹس ڈوگر کے فیصلوں کی قانونی حیثیت برقرار رہے گی۔ یہ فیصلہ عدالتی روایات کے عین مطابق تھا۔ لیکن نواز شریف کے کیس میں اس کے برخلاف فیصلہ آیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نواز شریف کے جاری کردہ سینیٹ کے ٹکٹ ناقابل قبول قرار پائے ہیں اور سینیٹ کے الیکشن خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

ابھی پیر 19 فروری 2018 کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پارلیمان ملک میں قانون سازی کرتی ہے اور کیا اس پارلیمینٹ کو قانون سازی کے لیے کسی سے پیشگی اجازت لینا ہوگی؟ قانون سازی کی تو خلاف آئین قرار دیا جائے گا، کیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق نہیں ہے، یہ ایسے معاملے ہیں جن پر سب کو سوچنے کی ضرورت ہے“۔

جوابی تقریر میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے راہنما خورشید شاہ نے کہا کہ اگر حکومت کسی شخصیت کی بجائے ملکی مفاد میں قانون سازی کرے گی تو حزب مخالف کی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں گی۔

خورشید شاہ کی تقریر سے یہ تاثر ملا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی بڑی مفاہمت ہو چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ اگلی حکومت چاہے جس جماعت کی بھی آئے، اسے ایسا سپریم کورٹ منظور نہیں ہو گا جو اس کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتا دکھائی دے۔ مقننہ میں کل کی ان تقاریر کے بعد اگر درجہ حرارت بڑھا تھا تو آج کے عدالتی فیصلے کے بعد اب بظاہر مقننہ اور عدلیہ میں کھلی جنگ شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس جنگ میں کس کے پاس کتنی آئینی طاقت ہے؟

سپریم کورٹ نے افتخار چوہدری کے دور میں یوسف رضا گیلانی کو کمرہ عدالت میں ہی چند منٹ کی سزا دے کر لمحوں میں نا اہل کرنے کا اختیار دکھایا تھا۔ نواز شریف کو گھر بھیج کر اس اختیار کو دوبارہ دکھایا گیا۔ وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ آئین میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے، مگر شارٹ کٹ طریقہ یہ بنایا گیا کہ وزیراعظم کی پارلیمانی رکنیت ختم کر دی جائے۔ وزیراعظم کو اپیل کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی اور وہ فارغ ہو جاتا ہے۔ اسی کلیے کے تحت سپریم کورٹ تمام ممبران پارلیمنٹ کو لمحوں میں گھر بھیجنے کی اہل ہے۔ اس لحاظ سے سپریم کورٹ کے پاس بے انتہا طاقت ہے۔

مگر اب سیاست دانوں کی بس ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ اتنے کمزور نہیں ہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ آئین کی خالق پارلیمان ہے اور وہی آئین سپریم کورٹ تخلیق کرتا ہے اور اسے اختیارات دیتا ہے۔ بنانے والا ختم بھی کر سکتا ہے اور اختیار دینے والا اختیار واپس بھی لے سکتا ہے۔ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 239 کا ذکر کیا گیا تھا جس میں واضح ترین الفاظ میں دو مرتبہ بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا آئین میں ترمیم کا اختیار حتمی ہے اور کوئی آئینی ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے غور کریں تو پارلیمان کی طاقت بے انتہا ہے۔

اب فرض کریں کہ پارلیمان اپنی طاقت دکھانے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ ایک دن کے اندر اندر ایک ایسی آئینی ترمیم پیش ہو جاتی ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کی حد عمر کو ساٹھ سال کر دیتی ہے۔ یاد رہے کہ پہلے بھی سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی بیشی کی روایت موجود ہے۔ جنرل مشرف نے ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کر دی تھی جسے سترہویں آئینی ترمیم میں واپس 65 سال کر دیا گیا۔

تو فرض کریں کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ایک ہی دن میں یہ آئینی ترمیم منظور کر لیتے ہیں۔ اسی شام کو صدر مملکت اس ترمیم پر دستخط کر کے اسے آئین کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے جج اپنے عہدے سے معزول ہو جاتے ہیں۔ اب وہ کوئی بھی کیس یا اپیل نہیں سن سکتے۔ ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے دوران بحث اسے عدالت نہیں دیکھ سکتی کیونکہ مقننہ کی قانون سازی کے عمل کو عدالت ٹچ نہیں کر سکتی، نہ ہی مقننہ کو کوئی حکم دے سکتی ہے کہ ایسا قانون بناؤ یا نہ بناؤ۔ اس ممکنہ آئینی ترمیم میں ججوں کی نامزدگی، تعیناتی اور معزولی کا حق بھی ججوں سے لے کر پارلیمنٹ کو دیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد پارلیمنٹ ایسے ججوں کی تعیناتی کر سکتی ہے جو جوڈیشل ایکٹوازم پر یقین نہ رکھتے ہوں اور پارلیمنٹ کو سپریم مانتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا وہ پرانا طریقہ واپس لے آیا جائے جس میں سینیارٹی پر چلنے کی بجائے حکمران یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کس جج کو چیف جسٹس بنایا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ججوں کے احتساب کا حق سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے سینیٹ کو دے دیا جائے۔ یہ امکان بھی ہے کہ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا بھی کچھ کر دیا جائے گا۔

بہرحال حالات جس طرف بھی جائیں، یہ پاکستان کے حق میں اچھا نہیں ہو رہا ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے مقابلے میں اب پارلیمانی ایکٹوازم کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ یہ بقا کی جنگ بن گئی ہے اور ایسی جنگ تباہی لاتی ہے جس میں کسی فریق کے پاس کھونے کو کچھ بھی باقی نہ رہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی لیڈر کے پیچھے عوام کی طاقت ہو تو کوئی ڈکٹیٹر بھی اسے نہیں روک سکتا ہے۔ اور سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کے بعد نواز شریف عوام کی مزید حمایت پاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar