منسٹر کی بیوی اور عدالت کا تقدس


کورٹ کی چاردیواری کے اندر عجیب و غریب دنیا آبا دہے۔ پچھلے ایک سال میں اس عمارت نے اتنے اسرار مجھ پر کھولے ہیں کہ ایک تفصیلی مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ پہلی بار سٹی کورٹ میں کسی منسٹر کی بیگم کو اتنے قریب دیکھا جتنے قریب سے اکثر آئینے میں اپنے خدوخال دیکھتی ہوں۔ جس طرح آئینہ کی سچائی پر کبھی مسکراتی ہوں، کبھی حیران ہوتی ہوں اور کبھی بے اختیار میری چیخیں نکل جاتی ہیں، بالکل اسی طرح منسٹر صاحب کی بیگم کو دیکھ کر پہلے تو میرے چہرے پر مسکراہٹ آئی، پھر منہ حیرت سے کُھلا اور اس کے بعد چیخیں نکل گئیں۔

یہ چیخیں ملک کی ایک معزز عدالت کی حدود میں قانون کی دھجیاں بکھر جانے پر نکلیں۔ پھر جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ میری چیخیں تو کورٹ کی ہواؤں میں ہی کہیں تحلیل ہوگئی ہیں۔ میں وہاں اپنا ہکا بکا وجود لے کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور کورٹ کی مصروف زندگی ایسے آگے بڑھ گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دولت اور عہدہ صرف متعلقہ فرد کو ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک افراد کو بھی اس جیسا ہی سرکش بنا دیتا ہے اس کا بہ خوبی اندازہ مجھے کل ہوا۔ شاید اسی لیے درویش صفت لوگ عہدے اور بے حساب دولت سے اپنا دامن بچا کر چلتے ہیں۔

کل شاید سٹی کورٹ کے داخلی دروازے پر ڈیوٹی پر مامور خاتون پولیس اہل کار کی شامت آنی تھی جو اس نے معمول کی چیکنگ کا فرض نبھاتے ہوئے کسی منسٹر کی بیوی کا پرس کھولنے کی جرأت کرلی۔ اس بے چاری اہل کار کو جانے کیوں فرض شناسی سوجھی تھی، میں تو سال بھر میں جتنی بار کورٹ گئی ہوں، کسی خاتون اہل کار نے پرس چیک کرنے کی کبھی زحمت ہی نہ کی۔ ہمیشہ کمال بے نیازی سے مجھے اندر جانے کا اشارہ کردیا۔ میں اس رویے پر اکثر حیران بھی ہوتی تھی کہ سٹی کورٹ کراچی کی چند حساس قرار دی گئی جگہوں میں سے ایک ہے۔ پھر بھی سیکیوریٹی کے نام پر اتنی بے پروائی سمجھ سے باہر تھی۔ لیکن اس خاتون پولیس اہل کار کی قسمت خراب تھی کہ اس نے اپنے پیشے کا حق ادا کرنا چاہا۔ منسٹر کی بیوی کے پرس کو جو کھنگالا، تو اس میں سے ’برآمدگی‘ بھی ہوگئی۔ خاتون اہل کار نے منسٹر کی بیوی کو اندر جانے سے روکا ہی تھا کہ کمال کا ادھم مچ گیا۔ جو چیخیں سسٹم کی کوتاہی پر ہمیشہ عوام مارتے ہیں اب وہی چیخیں قانون کی عمل داری کے نام پر منسٹر کی بیوی کے حلق سے بلند ہو رہی تھیں۔ بظاہر پڑھی لکھی نظر آنے والی عورت نے کمال درندگی سے خاتون پولیس اہل کار کو نہ صرف بے عزت کیا بلکہ اس کو نوکری سے نکلوانے کی دھمکیاں بھی دیں۔ زبردستی اس کے گلے میں لٹکا کارڈ کھینچ کر اس کا نام پڑھا اور مغلظات بکیں۔

شور بڑھنے پر، بھاگتا ہوا ایک مرد پولیس اہل کار آیا۔ اس نے مشہور زمانہ ’مردانہ عقل‘ کا استعمال کیا، منسٹر کی بیوی سے معذرت کی، برآمد شدہ سامان کا ڈبا بند کرکے منسٹر کی بیوی کے حوالے کیا اور نہایت انکساری اور تابع داری سے اسے اندر جانے کا راستہ دکھایا۔ انتہائی ماڈرن اور اسمارٹ محترمہ نے اندر جاتے جاتے بھی دھمکیاں دیں اور عدالت کا تقدس جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اندر داخل ہوگئیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات، گستاخ الفاظ اور پوری باڈی لینگویج اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ یہ ملک، یہاں کے ادارے اور قانون ان چند فی صد سیاست دانوں کے گھر کی لونڈی ہیں اور انہیں جو بھی قانون سکھانے یا پڑھانے کی کوشش کرے گا وہ یا تو اپنے کام سے یا کبھی اپنی جان سے جائے گا۔

اس ملک میں قانون کی پاس داری اور حکم رانی پر تو کئی بار انا للہ پڑھی جاچکی ہے، لیکن بہتر ہے کہ اب باقاعدہ سوئم اور چالیسویں کی فاتحہ بھی پڑھ لی جائے تاکہ قانون اور انصاف کے پھر سے لوٹ آنے کے تمام خوش آئند تصورات سے جان چُھٹے۔ پاکستانیوں کو یقین آجائے کہ اس ملک میں انصاف کا شفاف نظام کبھی نہیں آئے گا۔ اس ملک میں حکم رانی قانون کی نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے زندہ ہونے والے اور ان کے ٹیکسوں پر پلنے والے سیاست دانوں اور ان کے اہل خانہ کی ہے۔ یہ بڑی گاڑیوں سے اترنے والے چھوٹے چھوٹے لوگ ہیں۔ ان کی گردن پر میرے وطن کی آبرو کا خون ہے۔ ان کے دامن پر اس دیس کی بدنامی کا داغ ہے، ان کے ہاتھ بدعنوانی کی کالک سے لتھڑے ہیں۔ پھر بھی یہ عزت دار کہلاتے ہیں، قانون کے رکھوالے ان کے آگے جھکتے ہیں۔ پورا نظام ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ انہوں نے انصاف اور عدل کا خون کر کے اسے اپنے محلوں میں دفن کر دیا ہے۔ ان کے قہقہوں کی گونج میں میرے وطن کا کرب کبھی سنائی نہیں دے سکتا۔

بہت دکھی دل لیے میں کل گھر کو لوٹی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بیٹے نے بجلی کا بل پکڑایا اور کہا، مما! آپ بہت تھک گئی ہیں، میں جا کے بل جمع کروا دوں گا۔ میں نے اسے گلے سے لگا کے پیار کیا اور کہا نہیں بیٹا! تم صرف پڑھائی پر دھیان دو، تمہارے خاندان میں کوئی منسٹر نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).