قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اساتذہ سراپا احتجاج کیوں؟


 `

قائد اعظم یونیورسٹی ملک کی وہ واحد یونیورسٹی ہے جس کا نام اور کام بین الاقوامی سطح پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ مارگلہ کے دامن میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی کا پر فضا ماحول اور حسین نظاروں کی کچھ یادیں میری طالب علمی کے زمانے سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ جب یونیورسٹی میں طالباء صرف اور صرف اپنے اپنے کلچر کی نمائش کرتے نظر آتے تھے۔ 3 اور 5 بجے کے پوائنٹس پر پونڈی کرنا اور رات کے وقت لڑکیوں کے ہاسٹل اور پیرا فیری کے باہر واک کرنا طالب علموں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ کیفے ٹیریا اور مجید ہٹس پر کھانا کھا کر، گڈو کی چائے کا مزا لینا تقریباً ہر طالب علم کی روز مرہ کے معمول میں شامل تھا۔ ہاسٹل لائف کی اپنی موج مستی، نائیٹ کینٹین پر ادھار کے کھانے کھانا، جھومر، اتنڑ، بھنگڑا اور ہو جمالو کا رنگ ہر وقت ہی ہاسٹل پر نظر آتا تھا۔ اگر کبھی کبھار لڑکیوں پر یا دیگر مسائل پر یونیورسٹی کی اسٹوڈنسٹس کونسلز میں جھگڑا ہو بھی جائے تو بھی ہم کلاس فیلوز کی دوستی پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور سارے معاملات یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی بغیر مداخلت کے طے پا جاتے تھے۔ اب کافی عرصے سے قائد اعظم یونیورسٹی کے بالخصوص اور ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے بالعموم قصے کہانیاں، لڑائی جھگڑے ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ آج کل قائدا عظم یونیورسٹی کے تمام اساتذہ، وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف انکوائری رپورٹ آنے کے بعد بھی ایک سال سے ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی بلکہ الٹا اساتذہ کو ہراساں کر کے وائس چانسلر کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ہمیشہ سے نظر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نیّر بخاری پر بھی قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ کر کے اپنا بنگلہ بنانے کا الزام ہے جس وقت نیّربخاری چیئرمین سینٹ رہے اس وقت انہوں نے اپنے عہدے کا اثر و رسوخ استعمال کرکے معاملے کو دفن کرنے کی کوشش کی۔ ابھی بھی قائد اعظم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پر یہ الزام ہے کہ وہ یونیورسٹی کی زمین کو بیچنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یونیورسٹی کے پیسوں کو اپنے اکاؤنٹ میں رکھ کر اس پر حاصل منافع سے اپنا بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے زیر استعمال یونیورسٹی کا سرکاری گھر بھی ہے اور دوسری طرف وہ یونیورسٹی سے ہاؤس رینٹ بھی لے رہے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے اکیڈیمک ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عقیل بخاری کا کہنا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت کی واضح پالیسی ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے کا سربراہ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا مگر وائس چانسلر صاحب خود دوہری شہریت رکھتے ہیں اور 2002 میں آئی بی اے کرچی سے نااہلیت کے بنیاد پر نکالا گیا تھا۔

یونیورسٹی کے اساتذہ نے وائس چانسلر کے خلاف وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی کے اکیڈیمک ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عقیل بخاری نے کہا کہ وائس چانسلر کی بد انتظامی، کرپشن اور من مانی کی وجہ سے یونیورسٹی ایڈہاک پر چل رہی ہے، ریسرچ پروجیکٹس بند پو چکے ہیں اور اس دفعہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ایڈمیشن نہیں ہو رہے ہیں۔ مختلف شعبہ جات کو بند کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور بہت سی انتظامی اور تدریسی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ رجسٹرار، خزانچی، کنڑولر امتحانات کے بغیر ہی یونیورسٹی چلائی جا رہی ہے۔ یونیورسٹی میں 5000 ہزار طالب علموں کی گنجائش ہے اور داخلہ 15000 کو دیا گیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی کے تدریسی عمل میں بھی وائس چانسلر کی من مانی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اساتذہ کا کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اتنے عرصے سے احتجاج کے باوجود کہیں پر بھی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ اب اس وائس چانسلر کے ہوتے ہوئے تدریسی عمل کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ یاد رہے کہ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کے طالب علم اپنی بے دخلی کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئے ابھی وہ معاملہ جاری تھا کہ اساتذہ کا احتجاج شروع ہو گیا جس سے یقیناً طالب علموں کی پڑھائی کا حرج ہوگا۔ اس پوری صورتحال پر قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول روز بروز خراب ہوتا جا رہا ہے پڑھائی کا اب وہ معیار نہیں ہے جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں ایک منصوبے کے تحت رجعت پسندی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے جس سے یونیورسٹی کا ماحول اور تدریسی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ کسی زمانے میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک رجعت پسند جماعت کی اجارہ داری تھی۔ لڑکے اور لڑکی کی بات چیت، گھومنے پھرنے پر مکمل پابندی تھی اگر کوئی اس جماعت کی پابندی کی مخالفت کرتا تھا تو اسے زدو کوب کیا جاتا تھا۔

اس کے بعد یونیورسٹی میں پاکستان کی علاقائی اسٹوڈنس کونسلز کی بنیاد رکھی گئی اور کونسلز کے آپسی لڑائی جگھڑوں سے دوبارہ یونیورسٹی کے ماحول کو رجعت اور جنونیت پسندی کی طرف دھکیلا دیا جا رہا ہے۔ کافی عرصے سے قائد اعظم یونیورسٹی سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعنیاتی اکثر و بیشتر سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنسی ہراسائی، تدریسی معیار میں کمی اور دیگر مسائل میں اضافہ نظر آ رہا ہے جو ہماریے معاشرے میں موجود نظام کی کمزوریوں کی نشاندھی کرتا ہے۔

اگر ملک کے دارالخلافہ میں موجود قائد اعظم یونیورسٹی کی یہ صورتحال ہے ملک میں موجود دیگر یونیورسٹیوں کے کیا حالات ہوں گے جہاں پر مذہبی شدت پسندی کا رجحان بڑتا نظر آ رہا ہے اور بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جب یونیورسٹیوں میں طالب علموں کے کھانے کے لیے خیراتی نذر و نیاز کے لنگر لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہوں تو پھر وہ وقت دور نہیں جب بابا بلھے شاہ،شاہ حسین، شاہ لطیف،سچل، سامی، خواجہ فرید، بابا فرید،مست توکلی،خوشحال خان خٹک، رحمان بابا، فیض اور شیخ ایاز کے کلام اور آزاد نظموں کے پڑھنے پر بھی فتوے جاری کر دیے جائیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).