آئین اور جمہوریت میں ہی سب کی بقاء ہے


قدرت اللہ شہاب کے بقول جب انھوں نے 1958 میں اس وقت کے صدر پاکستان اسکندر مرزا کے ملک کے آئین کے بارے میں خیالات سنے تو ان کو دل کا دورہ پڑ ا اور وہ ہسپتال میں زیر علاج رہے تھے۔ اسکندر مرزا جس آئین کو اپنے اقتدار کے راستے کا پتھر سمجھ رہے تھے جب وہ نہ رہا تو پھر چراغوں میں روشنی بھی نہ رہی اور وہ خود بھی نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ غریب الوطنی میں کہیں مر گئے جس کا کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ یہ شروعات تھیں پھر اس کے بعد ایک سلسلہ ہے آئین کی بے توقیری کا جو ملک کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی جاری رہا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قانون کی عملداری کے قائل اور ایک آئین پرست قانون دان تھے۔ بطور بانی مملکت ان کے لئے مشکل نہ تھا کہ وہ خود کو صدر کہلاتے مگر کسی آئینی گنجائش کے بغیر ان کے لئے قابل قبول نہیں تھا اس لئے انھو ں نے صرف گورنر جنرل کے عہدے پر اکتفا کیا جو مروجہ قانون و دستورکے مطابق تھا۔

غلام محمد، خواجہ ناظم الدین اور اسکندر مرزا سمیت سب طبقہ اشرافیہ کے لوگ تھے جن کو عوامی حمایت اور تائید کا یقین نہیں تھا اس لئےانھوں نے ہمیشہ محلاتی سازشوں اور سیاسی ریشہ دوانیوں کو آئین کی بالادستی اور جمہوری عمل پر ترجیح دی۔ اپنے حلقہ اثر و رسوخ کو چھوڑ کر نئے ملک میں اقتدار کی طمع کے ساتھ آنے والے یہ رہنما آئین کی بالادستی اور انتخابی عمل سے خائف رہتے تھے۔ تاریخ کے مشہور کردار میر جعفر کے پڑ پوتے اسکندر مرزا نے ایک آئین توبنادیا اس کے تحت خود کو صدر مملکت کے عہدے پر فائز بھی کیا مگر اس آئین کی روح کے مطابق انتخابات کرواکر اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کے بجائے اس کو ردی قرار دے کر جمہوریت پر شب خون مارنے کی خود ہی دعوت دی۔ ایوب خان نے اپنے خود کےبنائے ہوئے آئین سے بے زار اسکندر مرزا کو دیس نکالا کرنے کے بعد اپنا ایسا راج قائم کیا جس میں ان کو ایک مقتدر حیثیت حاصل ہوگئی اور باقی سب اس کے مطیع اور فرمانبرداررعایا بن گئے۔

مولوی تمیز الدین کے کیس میں دیے اعلیٰ عدلیہ کے نظریہ ضرورت کے فیصلے سے زخمی جمہوریت کو مارشل لأ کی تابوت میں ڈال کر دفنانے کے بعد ایوب خان نے لوگوں کی توجہ آئین کی بالادستی سے ہٹا کر معاشی ترقی کی طرف موڑتے ہوئے یہ باور کروادیا کہ آئین کی وقعت بس اتنی سی ہے کہ طاقتور حکمران جب چاہے اس کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ ایوب خان کے غیر جمہوری اور غیر آئینی دور حکومت میں اشرافیہ نے دولت کا ارتکاز کیا جس میں بائیس خاندانوں کے پاس ملک کی دولت سمٹ چکی تھی۔

ایوب خان کی عوامی مزاحمت کے نتیجے میں رخصتی کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار براہ راست انتخابات منعقد کیے گئے توملک کے مشرقی اور مغربی بازو کے درمیان اختلاف رائے منقسم شکل میں سامنے آئی جس کو مغربی بازو کی با اثر اشرافیہ نے قبول کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوا۔ باقی ماندہ ملک کو جوڑے رکھنے کے لئے ایک آئین کی تشکیل ہوئی مگر چار سال بعد یہ آئین ایک بار پھر جمہوریت پر شب خون مارنے والے ایک طاقتور حکمران کے ہاتھوں ردی بن کر بے وقعت ہوگیا۔ اسی آئین کے تحت وجود میں آنے والی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے بھی انصاف پر اپنی نوکری کو ترجیح دی اور نظریہ ضرورت کو ایک بار پھر بر حق قرار دیا اور اگلے گیارہ سال ملک بے آئین رہا۔

جانے کب تلک ملک بے آئین رہتا مگر گیارہ سال بعد سی۔ 130 کے ہوئی حادثے نے انتخابات کی راہ ہموار کی تو مارشل لاء کے آہنی پنجوں میں آٹھویں آئینی ترمیم سے بے حال آئین بھی بحال تو ہوا لیکن اس سے پارلیمانی روح نکال کر صدارتی نظام حکومت کی روح پھونک دی گئی تھی۔ 1988 سے 2000 تک منتخب حکومتوں کی آمرانہ دور میں کی گئی اٹھویں ترمیم کی چھری سے قتل کے بعد ایک بار پھر طاقت کا محور پارلیمان قرار پایا تو ایسا ارتعاش پیدا ہوا کہ آٹھ سال تک ایک بار پھر ملک بے آئین رہا۔

آٹھ سال بعد آئین بحال ہوا تو اس پر ایک بار پھر صدارتی نظام کے داغ نمایاں تھے جو اسکندر مرزا، ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف کی مطلق العنانیت کی خواہشات سے مزیّن تھا۔ ایک بار پھر آئین کی پارلیمانی روح بحال کی گئی تو اب نشتر بدل چکے ہیں۔ اب عدلیہ اور مقننہ کے مابین تنازعہ اختیارات اور بالادستی کا چل پڑا ہے۔

مقننہ کا خیال ہے کہ اس کو عوامی تائید حاصل ہے وہ لوگوں کا منتخب کردہ ایوان ہے جہاں نہ وہ صرف ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہیں بلکہ ہر پانچ سال بعد عوام کے سامنے بھی ایک امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومتیں اور مقننہ صرف اپنے ووٹر کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں جو ان کو منتخب کرکے ان کے فیصلوں اور اقدامات کو سراہتے ہیں یا مسترد کر دیتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے ادارے کو پارلیمان کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اگر کوئی دوسر ادارہ ایسا کرتا ہے تو وہ آئین کی خلاف ورزی متصور ہوگی۔

عدلیہ کا خیال یہ ہے کہ وہ پارلیمان سمیت ہر ادارے کی اصلاح اور راہ راست پر لانے کی مجاز ہے۔ یہ اس کا کام ہے کہ وہ دیکھے کون سا قانون آئین کی روح کے مطابق ہے اور کونسا نہیں۔ بنیادی انسانی اور شہری حقوق کے منافی قوانین پر نظر ثانی اور حکومت کو ایسے اقدامات سے روکنا جو مفاد عامہ کے خلاف ہوں عدلیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس کے اختیارات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ عوامی تائید سے منتخب ہونے والے کسی بھی رکن اسمبلی کو خواہ وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو گھر بھیج دے، نا اہل قرار دے اور تاحیات سیاست کرنے پر پابندی لگادے۔

عدلیہ اورمقننہ کے درمیان ہونے والے اس کشمکش سے عام لوگوں کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اس دوران کسی بھی موقع پر حکومتوں پر بنیادی ضرورتوں یعنی تعلیم، صحت اور پینے کا پانی جیسی سہولتوں کی فراہمی سمیت کسی بھی آئینی ذمہ داری سے عہدہ برا نہ ہونے کی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی ہے بلکہ اشرافیہ کے ارکان ایک دوسرے پر دولت کے انبھار لگانے اور دولت کےبیرون ملک منتقلی کے الزامات لگاتے رہے ہیں جو ایک المیہ سے کم نہیں۔

غلام محمد سے مشرف تک آئین سے انحراف کرنے والوں نے ہمیشہ منتخب لوگوں اور اداروں کو نالائق، کم فہم اور بدعنوان گردانا اور خود کو بطور مسیحا متعارف کروایا۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ آئین سے انحراف کرنے والوں کو ان کے ادوار میں اچھی کارکردگی اور معاشی ترقی کے باوجود لوگوں نے کبھی منتخب نہیں کیا۔

جب بھی ملک میں آئین کو پامال کیا گیا عدلیہ نے ہمیشہ ایسا کرنے کو جرم سمجھنے کے باوجود جائز قرار دیا جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ میں غیر منتخب حکومتوں کا دور منتخب حکومتوں سے زیادہ رہا اور کسی آمر اور کسی غاصب کو آئین توڑنے اور بنیادی حقوق معطل کرنے کے جرم میں سزا نہ ہو سکی۔ ایک آمر کے سامنے ناں کہنے والے جج چوہدری افتخار کو جب عوامی طاقت سے انصاف کی کرسی پر دوبارہ بٹھایا گیا تو اس کا طرز عمل ملک کی تاریخ میں گزرے کسی آمر سےبھی برا ثابت ہوا۔ ایک آمر حکمران اور ایک مطلق العنان جج میں ایک قدر مشترک یہ ہوتی ہے کہ دونوں خود کو عقل کل اور دوسروں کو جاہل مطلق سمجھتے ہیں۔ دونوں کے فیصلوں کی ایک بھاری قیمت ملک اور قوم کو چکانی پڑتی ہے چاہے وہ سویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں شرکت ہو، امریکہ کے لئے فوجی اڈے ہوں یا ریکو ڈک اور رینٹل پاور کے مقدمے کے فیصلے، ہر صورت میں لوگوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔

جب تک ملک کی اشرافیہ یہ بات تسلیم نہ کرے کہ اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے، طاقتور ہونے اور وسائل رکھنے کے باوجود پارلیمانی جمہوریت میں حق حکمرانی عوام کو ہی حاصل ہے جو یہ حق آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق اپنے ووٹ کے ذریعے سے منتخب نمائندوں کو منتقل کردیتی ہے۔ اشرافیہ کو محلاتی سازشوں اور سیاسی رشہ دوانیوں کے زور پر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے بہتر سیاسی پروگرام کے ذریعے لوگوں کی تائید حاصل کرنی ہوگی۔

تمام تر کمزوریوں کے باوجود ملک کو اس کے آئین اور جمہوریت نے بچا رکھا ہے ورنہ عراق، لیبیا، شام، لبنان، کویت، سعودی عرب، یمن اور دیگر مسلم ممالک کی طرح یہاں بھی ایک طاقتور گروہ کا قبضہ ہوتا باقی سب اس کے خلاف صف آراء ہوجاتے۔ ان ممالک میں جہاں آئین اور جمہوریت نہیں وہاں جب چاہیں طاقتور ممالک دندھناتے ہوئے آتے ہیں اور حکومتیں بدل دیتے ہیں۔ کم از کم ہمارے یہاں ایسی جرات کسی کو نہیں ہوسکتی کیونکہ یہاں حکومتیں بنانے اور ہٹانے کا ایک جمہوری نظام موجود ہے جس کو آئین کہتے ہیں۔ اسی آئین اور جمہوریت میں ہی سب کی بقا ء ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan