اسٹیبلشمنٹ اور جمہور میں فیصلہ کن معرکہ


ملکی اقتدار پر بلا شرکت غیرے قبضہ جمائے رکھنے کی اس لڑائی میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ بیک وقت حملے بھی کررہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا دفاع بھی۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ آخری باقاعدہ مارشل لا ءیعنی مشرف دور کے دوران ادارے کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ عوامی تاثرات میں بھی بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ جنرل کیانی کی سربراہی میں پاک فوج کی قیادت نے ڈیمج کنٹرول پالیسی کے تحت بعض اقدامات کیے جن میں سے ایک یہ کہ جنرل مشرف کو صدارت سے چھٹی کرا کے باہر بھجوانا تھا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ اب براہ راست مہم جوئی کا وقت نہیں رہا سو ریاستی معاملات کو بالواسطہ طور پر کنٹرول کیا جائیگا۔ آج بھی اسی پالیسی پر عمل جاری ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ عمومی تاثر مگر یہی ہے کہ اگر براہ راست مہم جوئی ممکن نہیں رہی تو بالواسطہ طور پر ایڈونچر بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ اب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ ملک کے تقریباً تمام ادارے اور دو تین کو چھوڑ کر باقی سب سیاسی جماعتیں مل کر ن لیگ کی قیادت کے درپے ہیں مگر ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں“ والا معاملہ ہورہا ہے۔ فوجی گملے میں سیاسی پرورش پا کر قد آور لیڈر بننے والے نواز شریف نے بہت کم وقت میں ہی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر رقص کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل اسلم بیگ سے لے کر جنرل مشرف تک وہ ہر کسی کے سامنے ”باغیانہ“ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ جسٹس منیر کی روایات والی عدلیہ کے ججوں نے بھی جب کبھی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر کوئی چاند چڑھانا چاہا تو نواز شریف کھل کر سامنے آگئے۔ یہ کھیل کسی نہ کسی طریقے سے آج بھی جاری ہے۔ مائنس ون اور پھر مائنس ٹو یعنی نواز شریف اور بےنظیر بھٹو کو سیاست سے باہر کرنے کی باتیں 90 ءکی دہائی میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے پالتو خودساختہ ترجمان اسی وقت یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ بےنظیر کوئی بات سننے پر تیار نہیں ہوتیں جبکہ نواز شریف کسی بات کو سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ دونوں کے خلاف کردار کشی کی مہم وقتاً فوقتاً چلائی جاتی رہی ۔ وہی غداری،ملک دشمنی، کرپشن اور سب سے بڑھ کر بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات۔ یہ آخری مضحکہ خیز الزام جنرل ایوب نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پر بھی لگایا تھا ،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ الزام سکرپٹ کا مستقل حصہ ہے۔

1990 ءکی دہائی تو جوں توں گزر گئی۔ 1999ء میں کارگل برپا ہو گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مس ایڈونچر کے ذمہ داروں کو احتساب کے دائرے میں لا کر کورٹ مارشل کیا جاتا۔ اس حوالے سے خود فوج کے اندر بھی مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ اس دور کے کئی ریٹائرڈ جنرلوں کی کتابوں میں اس ایشو کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ خیر کورٹ مارشل کی نوبت تو نہ آسکی بلکہ الٹا کارگل کے ہیروز نے مل کر سول حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا۔ وزیراعظم نواز شریف اندر ہو گئے، جیل، نااہلی، عمر قید پھر جلاوطنی وغیرہ بھگتنا پڑی۔ مشرف دور میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک میں جمہوریت بحال ہونے کی امید پھر سے پیدا ہوئی تو بےنظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے ”ناپسندیدہ“ کردار پھر سے ملکی قیادت سنبھالنے کیلئے لوٹ آئے اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بےنظیر بھٹو کو راولپنڈی میں دھماکے کے ذریعے مائنس کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو لولی لنگڑی جمہوریت ملی تو سمجھوتے کر کر کے وقت گزارنا پڑا۔ صدر آصف زرداری عملاً ایوان صدر میں مقیم قیدی بنے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کا 5 سالہ دور مکمل ہونے کے قریب آنے لگا تو ملک میں پھر سے ہلچل پیدا کر دی گئی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے تحریک انصاف کو تھرڈ فورس بنانے کیلئے تمام وسائل اور صلاحیتیں جھونک دیں۔ سب سے پہلے ق لیگ کا کباڑا ہوا۔ یہ بات ریکارڈ پر بھی ہے کہ چودھری برادران جنرل پاشا کی شکایت اور کئی ثبوت لے کر آرمی چیف جنرل کیانی کو ملے۔ جنرل کیانی نے دلاسہ دے کر رخصت کر دیا۔ ہر طرح کی کاوشوں کے باوجود تحریک انصاف مطلوبہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی تو پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ عام انتخابات رکوائے جائیں۔ لمبا نگران سیٹ اپ آئے، طاہرالقادری کو باہر سے بلوا کر اسلام آباد میں دھرنا دلوایا گیا۔ سازش کو بھانپتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ایک ہو گئے تو پلان تبدیل کرنا پڑا۔ 2013 ءمیں عام انتخابات ہوئے تو ن لیگ کو اکثریت مل گئی۔

اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ نواز شریف کو اردلی ٹائپ وزیراعظم بنا کر کچھ وقت گزارا جائے پھر چھٹی کرا کے کوئی اور ڈمی مسلط کر دی جائے۔ یہ کام عدالتوں کے ذریعے کرانے کا منصوبہ تھا مگر اس مقصد کیلئے پہلے اسلام آباد میں شرمناک دھرنے دلوائے گئے۔ اس غلیظ کھیل میں کئی چہرے بے نقاب ہوگئے۔ سی پیک کے خلاف بھی باقاعدہ سازش کی گئی۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ پارلیمنٹ متحد رہی، سو کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملہ طے پا گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب نواز شریف سے ایک چوک ہو گئی۔ انہوں نے فریق ثانی کے دعوﺅں پر اعتبار کر لیا۔ خود کو ایوان وزیراعظم تک محدود کر کے اہم ریاستی معاملات میں غیر سیاسی فریقوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا۔ یہ سچ ہے کہ اپنی پارٹی کی تنظیم نو اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کے بجائے انہوں نے بڑی حد تک تساہل کا مظاہرہ کیا۔ دوسری جانب سے اسی منصوبے پر کام جاری رکھا گیا جو درحقیقت طاہر القادری کے پہلے دھرنے کے وقت ہی تیار کر لیا گیاتھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کو یہ ”اعزاز“ حاصل ہے کہ ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی انہیں ہٹانے کے اقدامات عملی طور پر شروع کر دئیے گئے۔ 2014ء کے دھرنوں کے دوران جو الزام تراشیاں ہوتی رہیں حیرت انگیز طور پر ان میں یہ قدر مشترک پائی گئی کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر ایک جیسے الزامات لگاتے رہے۔ ایک کہہ رہا تھا کہ حکومت بھارتی ایجنٹ ہے تو حکومتی زعما مخالفین کو امریکہ، بھارت کے مشترکہ ایجنٹ قرار دے رہے تھے جو سی پیک رکوانے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار نظر آتے تھے۔ سازش کا کینوس بہت وسیع تھا۔ اسی دوران امریکہ کی ایک گھٹیا سی ”کالونی“ پاناما سے بعض لیکس آئیں اور پھر سے سازشوں کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ اسلام آباد لاک ڈاﺅن اور اس سے پہلے ہی سپریم کورٹ کی جانب سے اس کا نوٹس لینا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

پانامہ لیکس کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ”پیٹرن“ واضح طور پر سامنے آجاتا ہے ۔نگران جج کے تقرر اور چھ ماہ کے اندراندر احتساب عدالت کو فیصلے سنانے کیلئے پابند کرنے کے اقدامات پر خود کئی قانون دانوں نے بھی سخت اعتراضات کیے۔ پھر یہ اطلاعات آنے لگیں کہ طویل نگران سیٹ اپ آئے گا، سینیٹ الیکشن کا انعقاد ہی ممکن نہیں رہے گا۔ اس تمام گھڑمس کے دوران نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ پرجوش عوامی رابطہ مہم چلا کر اپنی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل ہی دھڑا دھڑ ضمنی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کر کے نواز شریف نے یہ ثابت کیا کہ ” مجھے کیوں نکالا“ کا بیانیہ کامیاب جا رہا ہے۔ نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد بقول مرحومہ عاصمہ جہانگیر ”اپنی جانب سے توازن پیدا کرنے کی کوشش میں جہانگیر ترین کی بھی نااہلی کر دی گئی“۔ اگر یہ واقعی توازن پیدا کرنے کی کوشش تھی تواس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ خیر اصل واقعہ تو اس کے بعد رونما ہوا ۔ کھرب پتی جہانگیر ترین جو پچھلے چالیس سال سے اس حلقے پر انویسٹ کررہے ہیں اور 2013ء میں شکست کھانے کے بعد اپنے حریف کو نااہل کرا کر ضمنی الیکشن جیت کر ایم این اے بنے تھے ،اپنی نااہلی کے بعد اس حلقے میں اپنے بیٹے کو بری طرح سے ہروا بیٹھے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کی انتخابی سیاست کا پول بھی کھول کر رکھ دیا۔ یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔ اسی دوران ہر ایک سے بنا کر رکھنے والے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے لاہور آ کر پنجاب حکومت کو غیر متوقع طور پر تڑیاں لگائیں تو اندازہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نواز سیاسی گروپوں کے ان دعوﺅں میں بھی دم ہے کہ شہباز شریف کو بھی سبق سکھایا جائے گا۔ اب تو اس حوالے سے باقاعدہ کام شروع ہو گیا ہے۔ احد چیمہ کی گرفتاری کو اسی منصوبے سے جوڑا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا یہ تو طے کر چکے ہیں کہ اگلا حکومتی ڈھانچہ عمران خان کے وجود سے بھی پاک ہو گا۔ منصوبے تو بن گئے مگر عملدرآمد کی راہ میں ابھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سٹیک ہولڈرز صرف اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی ہیں۔ عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد اگر احتجاج کے موڈ میں نہیں تو اتنا ضرور ہے کہ معاملے کی حقیقت بھانپ چکی ہے۔ اس اہم ترین موڑ پر نواز شریف محض علامت کی صورت میں سامنے آئے ہیں وہ موثر کردار ادا نہ کرپائے تو کوئی دوسرا ایسا کر گزرے گا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے مرحلے بھی آتے ہیں جب جیل تو کیا جلاد کا سامنا بھی بے معنی ہوتا ہے اور خوف غائب ہو جاتا ہے۔ بندوقیں محض لوہے کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ نواز شریف بحران کے عین عروج پر پیش کردہ پیکج قبول کر کے بیرون ملک پناہ لے لیتے تو ان کی سیاست اور شخصیت کا حقیقی معنوں میں کباڑہ ہو جانا تھا۔ ویسے بھی سینیٹ الیکشن کیلئے جس طرح سے بلوچستان میں ”کھوتا کریسی“ کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے واضح ہو گیا کہ اعتبار ممکن ہی نہیں۔ اب تک کی صورت حال کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ نواز شریف اور ان کے ہم خیال سیاستدانوں کے پاس لڑ کر مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی کوئی اور راستہ نہیں، پیچھے ہٹی تو ”شراکت اقتدار“ کا نیا اور ناقابل تنسیخ فارمولا لاگو ہو جائے گا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آہنی گرفت کو مزید کمزور کرتا چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).