عدالت کی سیاست کیا رنگ لا سکتی ہے؟


سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کے سربراہ کے طور پر نواز شریف کو اپنی پارٹی کی قیادت سے نااہل قرار دینے کے اگلے ہی روز چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد میں وکیلوں اور ججوں کے ایک اجتماع سے ’عوامی‘ خطاب کیا ہے۔ انہوں نے وکیلوں کو اپنی فوج اور ججوں کو ہرکارے قرار دیتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ ملک میں عام آدمی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے بنیاد رکھ دی ہے ، اب عمارت تعمیر کرنا آپ کا کام ہے۔ یوں تو میاں ثاقب نثار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی ہنر مندی کا مظاہرہ صرف کمرہ عدالت میں ہی نہیں کرتے بلکہ تقریریں کرتے ہوئے بھی اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ چابکدستی سے ایسی باتیں کریں جو میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پا سکیں اور جن کے ذریعے عام آدمی انہیں اپنا پالن ہار تصور کرنے لگے۔ اس مقصد کے لئے وہ پوری مہارت سے ایسا بیانیہ تراشتے ہیں جو سیدھا دلوں کو چھو لے اور چیف جسٹس کی جے جے کار ہونے لگے۔ آج کی تقریر میں انہوں نے ایک نامعلوم شہری کا خط پڑھ کر سنایا اور واضح کیا کہ اس خط میں جن خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے ، وہی فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اگر سیاسی ہنر اور ہتھکنڈے سکھانے کی کوئی تربیت گاہ قائم ہو تو جسٹس ثاقب نثار کی یہ تقریر اس کے نصاب میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کی جانی چاہئے کیوں کہ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایک ماہر سیاست دان کس طرح لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے۔ کسی سیاست دان کی تقریر کے بعد البتہ تبصروں اور نعروں میں اسے ’جھوٹا اور مکار‘ کہا جاسکتا ہے یا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ وعدے پورے کرنے کے لئے وسائل کہاں سے لاؤ گے لیکن چیف جسٹس کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان سے سوال کرنے والا توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جاسکتا ہے۔

معاشرے کی تطہیر اور اصلاح کرنے کے عظیم مشن کی تکمیل میں مگن چیف جسٹس مختلف سماعتوں کے دوران اپنے ساتھیوں کے ہمراہ یہ وضاحت بھی کرچکے ہیں کہ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ عدالت، توہین عدالت کے تحت چھ ماہ تک کی سزا دے کر مطمئن ہو سکتی ہے یا وہ اس سے آگے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کا کہنا ہے کہ عدالت پر ہونے والی تنقید کو آئین کی شق 5 کے تحت ملک کے آئین سے بغاوت بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔ یہ شق لاگو ہونے کی صورت میں عدالت آئین کی شق 6 کے تحت کسی شخص پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ گویا اعلیٰ عدالتوں کے ججوں یا ان کے فیصلوں اور رویہ پر نکتہ چینی آئین سے بغاوت اور ملک سے غداری قرار دی جاسکتی ہے۔ اس قسم کے تبصرے اور وضاحتیں یہ بتانے کے لئے کی جارہی ہیں کہ ججوں کو بے اختیار نہ سمجھا جائے اور توہین عدالت صرف چھ ماہ تک قید یا پبلک عہدے سے نااہلی تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ کسی کے لئے پھانسی کا پھندا بھی بن سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی یہ باتیں فی الوقت تبصروں تک محدود ہیں یا جیسا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی نکتہ چینی پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے فرمایا کہ ‘جج تو صرف سوال کرتے ہیں، ان کا مقصد کسی کو چور کہنا تو نہیں ہوتا‘۔ اسی طرح خوش فہمی میں مبتلا لوگ جمع خاطر رکھیں جج صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ توہین عدالت پر کون کون سے قانون اور آئینی شقات کا اطلاق ہو سکتا ہے، وہ کسی کو پھانسی کی سزا تھوڑی دے رہے ہیں۔

کل کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کسی شخص کو تو پھانسی کی سزا نہیں سنائی لیکن ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو موت کی سزا دینے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔ جو عدالت اس ملک میں آئین کے تحت جمہوری نظام اور بنیادی شہری حقوق کی محافظ ہونے کے علاوہ اس بات کی بھی ذمہ دار ہے کہ ملک کے سب ادارے خودمختاری سے اپنے دائرہ کار میں فیصلے اور اقدام کرنے میں آزاد ہوں، اس نے انتخابی ایکٹ 2017 کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف پارلیمان کا آئینی استحقاق مجروح کیا ہے بلکہ اس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اپنے ذیلی ادارے کی حیثیت دے دی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے حوالے سے فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے لیکن کل کے فیصلہ میں اس نے نواز شریف کی پارٹی صدارت ختم کرتے ہوئے ایک طرف ملک کی سب سے بڑی اور مرکز کے علاوہ پنجاب میں حکمران مسلم لیگ (ن) کو سیاست سے بےدخل کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف یہ اعلان کیا ہے کہ سپریم کورٹ ہی تمام امور طے کرنے کی مجاز ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے مختصر حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدر تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے امید واروں کو حکم دیا کہ وہ اب آزاد حیثیت میں ہی سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس جابرانہ فیصلہ سے صرف سینیٹ کے پارٹی امیدواروں کا استحقاق ہی مجروح نہیں ہؤا بلکہ قومی اور صبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ن) کے سینکڑوں ارکان کو بھی اپنی پارٹی کے سینیٹرز منتخب کرنے کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ کون سا قانون اور آئین کسی بھی ادارے کو اس قسم کے دوررس نتائیج کا حامل فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کی محافظ ہے اور چیف جسٹس ذاتی طور پر 2018 کے انتخابات منعقد ہونے کی ضمانت فراہم کرچکے ہیں۔ پوچھا جانا چاہئے کہ کیا عام انتخابات بھی انہی ہتھکنڈوں کے تحت منعقد ہوں گے، جن کا اطلاق سینیٹ الیکشنز پر کیا جارہا ہے۔

پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے الیکشن کمیشن جا کر تمام امید واروں کو نئے ٹکٹ جاری کئے اور درخواست کی وہ بطور چیئرمین ٹکٹ دینے کے مجاز ہیں لہذا ان جاری شدہ ٹکٹوں کی بنیاد پر پارٹی کے امید واروں کو سینیٹ انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کا بغل بچہ بننے کو ترجیح دی اور پارٹی چیئرمین کی درخواست قبول کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمیشن نے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو سینیٹ کے اہم انتخاب میں حصہ لینے سے محروم کرنے کے بعد ان انتخابات کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ اصولی طور پر تو الیکشن کمیشن کو اپنی خودمختاری پر ہونے والے حملہ کے خلاف درخواست دائر کرنی چاہئے تھی۔ یا کم از کم مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں امید وار کھڑے کرنے کا موقع دینے کے لئے بعض قواعد میں نرمی کرنے یا انتخابات کو چند دن کے لئے ملتوی کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ موجودہ صورت میں یہ کہنے اور سمجھنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان فیصلوں پر ویسی ہی گفتگو کی جارہی ہے جو سیاسی اعلان یا فیصلہ پر ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ اسے درست مانیں گے اور کچھ اسے ملک کے نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھیں گے۔ ایسے میں کوئی قانون و آئین سے شناسائی کی دہائی دے کر اس سیاسی اختلاف رائے کو مسترد نہیں کرسکتا۔

جو سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس کے سیاسی عزائم کے بارے میں شبہ کا شکار ہو وہ جسٹس ثاقب نثار کی آج کی تقریر میں شامل ایک نامعلوم شہری کے اس دردناک خط کے متن کو پڑھ لے جو انہوں نے خود اپنی تقریر میں شامل کیا تھا۔ اس خط میں مبینہ طور پر کہا گیا ہے کہ ’مجھے پینے کا صاف پانی چاہیے، مجھے صاف ہوا اور صاف ماحول چاہیے، مجھے خالص دودھ چاہیے، مجھے مردہ جانوروں کا گوشت نہیں کھانا، مجھے کینسر اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں سے تحفظ چاہیے، مجھے میری فصلوں کی جائز قیمت ملنی چاہیے، مجھے ہسپتالوں میں مفت علاج چاہیے، مجھے سستا اور معیاری انصاف ملنا چاہیے‘۔ چیف جسٹس ثاقب نثار یہ ساری سہولتیں اس ملک کے غریب اور مجبور عوام کو فراہم کرنے کے مشن پر گامزن ہو چکے ہیں۔ پاناما کیس میں نواز شریف کی نااہلی اسی مشن کا ایک حصہ تھی اور کل پارٹی صدارت سے ان کی بے دخلی اس مشن کی تکمیل کے بارے میں سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کے عزم کا اعلان تھی۔ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو جزو معطل بنانے کی کوشش میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ سپریم کورٹ اپنا مشن مکمل کرسکے۔ اب چیف جسٹس کو صرف یہ بتانا ہے کہ انہوں نے آج جو خط پڑھا ہے اور عام آدمی کے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ، انہیں آئین کی کون کون سی شق ان مقاصد کے لئے جد و جہد کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

سپریم کورٹ جب خود ہی آئین کی تفہیم اور نفاذ کی ذمہ دار ہو جائے گی تو یہ سوال پوچھنا بھی ’غداری‘ شمار ہوگا۔ اختیارات پر اجارہ داری کا یہ طریقہ کار البتہ کسی بھی ملک میں بارآور نہیں ہؤا۔ پاکستان میں بھی فوج نے ملک کی اعلیٰ عدالت کے تعاون سے اسی مشن کے لئے چار بار اقتدار پر قبضہ کیا۔ لیکن عوام اب بھی صاف پانی اور مفت علاج کے منتظر ہیں۔ فوج اگر 35 برس براہ راست اور 35 برس بالواسطہ اقتدار پر قابض رہ کر بھی یہ خواہش پوری نہیں کرسکی تو چیف جسٹس تن تنہا یہ بوجھ کیسے اٹھا پائیں گے۔ چیف جسٹس اگر یہ سوچ سکیں کہ فوج عوام کی بہبود کے مقصد میں کیوں ناکام رہی تو شاید انہیں اندازہ ہو سکے کہ وہ خود بھی اس مقصد کو کیوں پورا نہیں کرسکیں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کا آئین یہ حق اور اختیار فوج یا عدالتوں کو نہیں بلکہ منتخب نمائیندوں کو تفویض کرتا ہے۔ جب بھی اس حق و اختیار کو محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی، فوج ہو یا سپریم کورٹ وہ اپنی عزت بھی گنوائے گی اور وہ کام کرنے میں بھی ناکام رہے گی جو ملکی آئین کے تحت انہیں کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali