اللہ ملک کی خیر کرے


میں جب بھی طالب علمی کے زمانے میں واپس جاتا ہوں‘ مجھے وہاں چھ طبقے ملتے ہیں۔

ہمارے کالج کے ذہین ترین طالب علم انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں پہنچے‘ وہ ڈاکٹر اور انجینئر بنے‘ ان سے کم ذہین طالب علموں نے بی اے اور بی ایس سی کیا‘ یونیورسٹیوں میں پہنچے‘ سی ایس ایس اور پی سی ایس کیا اور وہ اپنے انجینئر اور ڈاکٹر کلاس فیلوز کے باس بن گئے‘ ان سے کم ذہین بلکہ کند ذہن طالب علموں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑی‘ وہ سیاست اور بزنس میں آئے‘ ان میں سے درجن بھر وزیر بن گئے اور وہ اپنے بیورو کریٹس‘ انجینئراور ڈاکٹر کلاس فیلوز کے باس ہو گئے‘ یہ کبھی نہ کبھی وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بھی بن جائیں گے۔

اس کیٹگری کے چند لوگ کامیاب تاجر‘ صنعتکار اور بزنس ٹائیکون بنے اور سیاستدانوں کے فرنٹ مین اور فنانسر بن گئے اور یہ وزیروں کی وزارتیں‘ محکمے اور حلقے چلانے لگے‘ یہ سیاستدانوں سے بھی مضبوط ہیں‘ سیاستدان اپنے قائدین کو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن یہ اپنے فنانسرز کو ناراض نہیں کرتے‘ ہمارے کلاس فیلوز میں سے جو لوگ پڑھنا نہیں چاہتے تھے‘ وہ ایف اے اور ایف ایس سی کے دوران فوج میں بھرتی ہو گئے۔

وہ ترقی کرتے ہوئے بریگیڈیئر اور میجر جنرل بنے اور وہ بزنس مینوں‘ سیاستدانوں‘ بیورو کریٹس ‘ ڈاکٹرز اور انجینئرز سب کے باس بن گئے‘ ان چاروں طبقوں کے درمیان ہم جیسے مڈل کلاس بھی تھے‘ ہم لوگ پڑھائی میں بھی اچھے نہیں تھے‘ ہم ذہین بھی نہیں تھے‘ ہمارے والدین بھی تاجر اور صنعتکار نہیں تھے‘ ہم کسی صوبائی اور قومی حلقے کے ’’مالک‘‘ بھی نہیں تھے‘ ہم زمیندار بھی نہیں تھے اور ہم جسمانی لحاظ سے بھی زیادہ مضبوط نہیں تھے چنانچہ ہم کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دھکے کھاتے ہوئے‘ رٹا لگا کر امتحان پاس کرتے ہوئے عملی زندگی میں آ گئے‘ ہم میں سے کچھ وکیل بن گئے‘ کچھ جج ہو گئے‘ کچھ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں استاد بن گئے اور کچھ چھوٹا موٹا کاروبار کرنے لگے۔

ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام بن گئے اور ہم ملک کو کما کر دینے لگے اور ہم میں ایک چھٹا طبقہ بھی تھا‘ وہ طبقہ چٹا ان پڑھ تھا‘ وہ اسکول نہیں جا سکا اور اگر وہ گیا بھی تو وہ چوتھی پانچویں جماعت میںبھاگ گیا چنانچہ والدین نے انھیں مدرسے میں ڈال دیا یا پھر وہ انھیں ورکشاپوں‘ خرادیوں یا الیکٹریشنوں کے پاس چھوڑ آئے‘ یہ لوگ بڑے ہو کر عالم یا پیر بن گئے یا پھر استاد ہو گئے اور یہ آگے چل کر پچھلے پانچوں طبقوں کے باس بن گئے۔

آپ پاکستان میں چھٹے طبقے کی طاقت ملاحظہ کیجیے‘ علامہ خادم حسین رضوی شریعت نافذ کرنے کے لیے اسلام آباد تشریف لائے‘ یہ ڈیڑھ ہزار زائرین کے ساتھ فیض آباد میں فروکش ہوئے اور یہ اس وقت تک گھر واپس نہیں گئے جب تک پوری ریاست نے ان کی قدم بوسی نہ کرلی‘ ریاست نے اپنے ہاتھ سے ان کے ساتھ تحریری معاہدہ بھی کیا اور ان کے کارکنوں کو حوالات سے نکال کر واپسی کا کرایہ بھی دیا‘آپ انٹرنیٹ سے دونوں ’’ملکوں‘‘ کے درمیان ہونے والا معاہدہ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ایک طرف ریاست کے مقتدر عہدیداروں کے ٹھوس دستخط ملیں گے اور دوسری طرف شکستہ حروف میں صرف خادم حسین لکھا ہوگا‘ آپ کو معاہدہ دیکھ کر علم ہوگا علامہ صاحب ٹھیک طریقے سے خادم لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی حسین۔ آپ صرف معاہدے کے دستخط دیکھ لیجیے‘ آپ ملک کے اصل باس تک پہنچ جائیں گے۔

آپ کو اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو آپ میاں نواز شریف‘ نہال ہاشمی‘ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کے مقدمے نکال کر دیکھ لیجیے‘ سپریم کورٹ نے دو تہائی ووٹ لینے والے وزیراعظم کو صرف ایک اقامہ کے جرم پر کھڑے کھڑے فارغ کر دیا‘ نہال ہاشمی ججوں کے خلاف ایک تقریر پر سینیٹ سے بھی فارغ ہو گئے‘ ایک ماہ جیل بھی بھگتی اور یہ اب تاحیات سرکاری عہدے کے لیے بھی نااہل ہو چکے ہیں‘ طلال چوہدری اور دانیال عزیز بھی عنقریب نہال ہاشمی بن جائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے عدالت میاں نواز شریف اور مریم نواز کی تقریروں پر بھی پابندی لگا دے لیکن آپ ان کے مقابلے میں علامہ خادم حسین رضوی کو دیکھ لیجیے‘ علامہ صاحب نے ججوں کے نام لے کر جو کچھ سرعام فرمایا تھا وہ آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔

وہ فرمودات کروڑوں لوگ سن چکے ہیں مگر علامہ صاحب کو کوئی نوٹس ملا اور نہ ہی انھیں کسی عدالت نے طلب کیا‘ علامہ صاحب نے ججوں پر جو پھول نچھاور کیے تھے ملک کے منتخب نمایندے اگر وہ سوچ بھی لیتے تو یہ جیل کی سلاخوں کے اندر ہوتے لیکن یہ طاقتور اور آزاد عدلیہ بھی علامہ صاحب کے سامنے بے بس ہے‘ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں ملک کا اصل باس‘ اصل سربراہ کون ہے؟

وہ شخص جو خادم حسین نہیں لکھ سکتا لیکن ریاست کے کسی ادارے میں اس کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہیں اور علامہ صاحب کوئی بہت بڑے پیر‘ لیڈر یا عالم دین نہیں ہیں‘ یہ پنڈی گھیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کے 99فیصد لوگ فیض آباد دھرنے سے قبل ان کے نام مبارک سے بھی واقف نہیں تھے‘ آپ ان کے اختیارات سے ان لوگوں کی طاقت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جن کے پاس پچاس لاکھ مریدوں کی فوج‘ کروڑ کروڑ مجاہد اور دو دو کروڑ تحریکی بھائی ہیں‘ ذرا سوچئے وہ ریاست سے کتنے مضبوط‘ کتنے تگڑے ہوں گے‘ وہ کتنے بڑے باس ہوں گے لیکن ان لوگوں سے اوپر بھی ایک باس موجود ہے اور وہ باس ’’استاد بشیرا‘‘ ہے۔

آپ خواہ صدر پاکستان ہوں‘ وزیراعظم ہوں‘ آرمی چیف ہوں‘ چیف جسٹس ہوں یا پھر آپ علامہ خادم حسین رضوی ہوں آپ استاد بشیرے کے بغیر اپنے گھر کی بجلی‘ اپنے کچن کا چولہا اور اپنے باتھ روم کی ٹونٹی نہیںچلا سکتے؟ آپ استاد بشیرے کے بغیر دو کروڑ روپے کی گاڑی سے آنے والی آوازیں نہیں روک سکتے‘ آپ استاد بشیرے کے بغیر ذرا مسجد کا ساؤنڈ سسٹم آن کر کے دکھا دیں‘ آپ بیس لاکھ روپے کا باتھ روم بنا لیں گے لیکن اس میں گرم پانی استاد بشیرے کی مرضی سے آئے گا چنانچہ پھر اصل باس کون ہوا؟

ملک کا اصل باس بہرحال وہ استاد بشیرا ہے جس کے سامنے علامہ خادم حسین رضوی بھی بے بس ہیں‘ یہ بھی آدھا وضو کر کے استاد بشیرے کی ٹونٹی سے پانی نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور میاں نواز شریف بھی اس استاد بشیرے کے بغیر میاں نواز شریف اور چیف جسٹس ثاقب نثار بھی چیف جسٹس نہیں ہیں‘ استاد بشیرا کسی بھی وقت ان سب کو اکیسویں سے پندرھویں صدی میں لے جا سکتا ہے۔

ہمیں ماننا ہوگا ہم ترتیب کے شدید فقدان کا شکار ہیں‘ ہم میں سے جنھیں اہم ہونا چاہیے تھا وہ اس ملک میں غیر اہم ہیں اور جنھیں غیر اہم ہونا چاہیے تھا وہ اہم ترین ہیں چنانچہ پورے ملک کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے‘ دنیا میں پی ایچ ڈی پروفیسر ملکوں کی پالیسی بناتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ کام شیخ رشید جیسے لوگ سرانجام دیتے ہیں‘ دنیا میں عدالتی فیصلے بولتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں چیف جسٹس پبلک فورمز پر اپنے فیصلوں کی وضاحتیں کرتے ہیں۔

پوری دنیا میں پارلیمنٹس اپنے اداروں کو مضبوط بناتی ہیں لیکن ہماری پارلیمنٹ اپنا فلور اپنے اداروں کی تذلیل کے لیے استعمال کرتی ہے‘پوری دنیا میں حکومتیں اپنے اداروں کی تکریم کی قسمیں کھاتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں وزیراعظم اپنے وزراء‘ ایم این ایز اور سینیٹرز کو حکم دیتے ہیں آپ پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں ’’ہم سپریم ہیں یا عدالتیں‘‘ پوری دنیا میں عدالتیں عوامی مفاد کے منصوبوں کی حمایت کرتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں میٹرو اور اورنج لائین ٹرین کے خلاف سٹے آرڈر آ جاتے ہیں۔

پوری دنیا میں لیڈر اپنی عدالتوں‘ اپنے ججز کی ڈھال ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں لیڈر الیکشن کے نتیجے کو عوامی عدالت کا فیصلہ قرار دے دیتے ہیں‘ یہ ججوں کو بغض سے بھرے ہوئے اور جانبدار ثابت کر دیتے ہیں اور پوری دنیا میں علم ’’مولانا‘‘ سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں مولانا علم بن چکے ہیں‘ یہ سائنس بھی ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی بھی ہیں اور یہ (نعوذ باللہ) جنت کے دربان بھی ہیں‘ یہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟

اوپر والے نیچے دبتے جا رہے ہیں اور نیچے والے اوپر سے اوپر اٹھتے جا رہے ہیں‘ آپ دنیا کا کوئی اخبار کھول کر دیکھ لیں‘آپ کو اس میں مہینوں تک کسی عدالت کی کوئی خبر نہیں ملے گی اور اگر ملے گی بھی تو اس میں جج کا نام نہیں ہوگا صرف فیصلہ ہوگا جب کہ ہمارے اخبارات میں روزانہ سپریم کورٹ کی دس دس خبریں ہوتی ہیں‘ ہماری ہر دوسری یا تیسری بریکنگ نیوز عدالت سے متعلق ہوتی ہے اور اس میں باقاعدہ ججوں کے نام اور تصویریں شامل ہوتی ہیں۔

پاناما کا کیس نومبر2016ء میں شروع ہوا‘20 اپریل 2017ء کو دو ججز نے نوازشریف کو نااہل اور تین ججزنے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی‘ 5 مئی 2017ء کو جے آئی ٹی بنی‘ جے آئی ٹی نے10جولائی کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی اور28 جولائی کو وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ آگیا‘ اس سارے عرصے میں میڈیا نے ملزمان کی تقریروں اور ججوں کے ریمارکس کے سوا کوئی کام نہیں کیا‘ یہ سلسلہ آج بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے‘21 فروری کو سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو ایک بار پھر پارٹی سربراہی سے ہٹا دیا‘ ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔

ہم آج 70 سال بعد بھی یہ بحث کر رہے ہیں آئین سپریم ہے یا پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو باپ ہونا چاہیے یا پھر پارلیمنٹ کو‘ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور کہاں تک چلے گا‘ ہم کیس کو کیس اور عدالت کو عدالت کیوں نہیں رہنے دیتے اور قانون سب کے لیے قانون کیوں نہیں ہوتا‘ قانون کی نظروں میں نہال ہاشمی اور خادم حسین رضوی دونوں میں فرق کیوں ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں ترتیب کا یہ فقدان ملک کو کہاں لے جائے گا‘ اداروں کی یہ کشمکش اور ’’میں سپریم ہوں‘‘ کی یہ دوڑ ہمیں کہاں پہنچا دے گی‘ ہمیں آج ماننا ہوگا ہمارے ملک میں سب کچھ ہے‘ اگر نہیں ہے تو سسٹم نہیں!سارے باپ ہیں‘ بچہ بننے کے لیے کوئی تیار نہیں‘ اللہ تعالیٰ ملک کی خیر کرے‘ بس یہ ملک بچ جائے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).