بانی متحدہ الطاف حسین کی واپسی؟


انی متحدہ قومی موومنٹ کئی دہائیوں تک کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والے مہاجروں کے قائد رہے۔ اِس طویل اور منفرد دور میں کئی اتار چڑھائو آئے۔ ایک لمبے عرصے سے اُنہوں نے برطانیہ کی شہریت لے کر ہزاروں میل دُور، لندن میں مستقل سکونت اختیار کئے رکھی۔ اتنے فاصلے سے ایک سیاسی جماعت کی، اتنی مؤثر سربراہی، شاید تاریخ میں کبھی کوئی اور نہ کر سکے۔

ایم کیو ایم کے قائد کی قیادت کے بہت سے پہلو سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کرتے رہے۔ اُن کی قیادت قبول کرنے والے زیادہ تر لوگ، ہندوستان کے صوبے یو پی، سی پی، بہار، حیدر آباد دکن اور دہلی سے ہجرت کرکے سندھ کے شہری علاقوں میں آن بسے تھے۔ اُن کے بزرگ تحریک پاکستان میں بہت متحرک تھے۔ اُن کی زبان اُردو تھی اور یہی پاکستان کی قومی زبان تسلیم کی گئی۔ تعلیم، ادب، شاعری اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے وہ اپنے آپ پر فخر کرتے تھے اور پاکستان کی دُوسری قوموں کے حوالے سے اُن میں ایک احساس برتری پایا جاتا تھا۔

مگر ان کی قیادت کی بنیاد نہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر رکھی گئی اور نہ ہی اُن کے جانثار ساتھی تہذیب اور شائستگی کے علمبردار تھے بلکہ سیکٹر کمانڈروں کے ناموں سے جُڑی عرفیت، اُنہیں میدانِ سیاست کی بجائے جرم و سزا کی دُنیا کا باشندہ ظاہر کرتی تھی۔ بانی متحدہ کی قیادت میں اُن کی شخصیت سے خوف کا عنصر نمایاں رہا۔ حکم عدولی کا تصور ممکن نہ تھا۔ کراچی مختلف سیکٹرز میں تقسیم رہا اور سیکٹر کمانڈر براہِ راست اُن کے احکامات پر عمل کرتے۔ لوگ حیرت زدہ تھے کہ مہاجر قوم نے اِس قسم کی قیادت کو کیسے قبول کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بہت عرصے سے ان جیسے قائد کے لئے زمین ہموار ہو رہی تھی۔ جن لوگوں نے بخوشی اُن کی قیادت تسلیم کی وہ بہت عرصے سے مہاجر قوم کی اہمیت میں کمی اور سیاسی میدان میں احساسِ محرومی محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے جو بھی طریقے اختیار کئے ہوں، اُنہیں اپنی طاقت کا احساس دلایا۔ مہاجروں کی بیشتر آبادی کے لئے، تمام تر خرابیوں کے باوجود، یہ ایک قابلِ قبول راستہ تھا۔

اِس احساس کا پس منظر بہت طویل عرصے پر محیط تھا۔ پاکستان کا پہلا دارالحکومت کراچی میں قائم ہوا۔ مغربی پاکستان کی اکلوتی بندرگاہ، یہ شہر ہر لحاظ سے نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھا۔ وہ صوبائی اسمبلی جس نے اولین طور پر 1942ء میں صوبہ سندھ کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی، اِسی شہر میں موجود تھی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ شہر اُس اسمبلی کی عملداری سے نکال کر وفاقی علاقہ قرار دیا گیا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ سندھ اسمبلی نے اِس فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی اور ایک وفد زیارت میں قائد اعظم سے ملا۔ سندھ اسمبلی کا احتجاج مؤثر ثابت نہ ہوا اور کراچی کا انتظام و انصرام وفاقی حکومت کے پاس رہا۔

ہاشم رضا ایک آئی سی ایس افسر، تمام اختیارات کے مالک تھے، اُنہوں نے بطور کمشنر کراچی، اپنے حسنِ انتظام سے بہت نام کمایا۔ وفاقی حکومت کے دفاتر میں بیشتر افسران اور اہلکاروں کا تعلق دہلی اور اُردو بولنے والے علاقوں سے تھا۔ پاکستان کی معیشت قواعد و ضوابط کے ڈھانچے میں جکڑی ہوئی تھی۔ ہر کام کے لئے سرکار کا اجازت نامہ ضروری ہوتا۔ مثال کے طور پر کسی بس کو تجارتی بنیادوں پر چلانے کے لئے روٹ پرمٹ کی ضرورت ہوتی اور یہ روٹ پرمٹ لوگوں کو سیاسی رشوت کے طور پر دیئے جاتے۔ اُن دنوں یہ بات بہت عام تھی کہ بس کسی کی ملکیت ہوتی اور روٹ پرمٹ کسی اور کے نام۔ بس کا مالک روٹ پرمٹ کے حامل شخص کو ماہانہ ادا کرتا۔

اِسی طرح امپورٹ کے لائسنس جاری ہوتے جو بازار میں کھلے عام بکتے۔ کسی قسم کی صنعت کاری سرکاری اجازت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ نہ صرف یہ شہر سیاسی دارالحکومت تھا بلکہ ہر قسم کے اقتصادی معاملات بھی یہیں طے ہوتے تھے۔ سرکاری افسر عہدوں کی جاہ و حشمت سے لطف اندوز ہوتے۔ بہت سال پہلے راقم نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے بیرونی حصے میں ایک تختی دیکھی۔ اُس پر تحریر تھا ’’کراچی اسٹیڈیم کا یہ حصہ عہدِ نقوی میں تعمیر ہوا۔‘‘ سرکاری افسران کے طور و اطوار میں حاکمیت کا عنصر اپنی جگہ مگر وہ عام طور پر دولت اکٹھی کرنے کی دوڑ میں شامل نہ ہوتے تھے۔

ایوب خان کے مارشل لا سے کراچی شہر اور اُس کے باسیوں کو بہت نقصان ہوا۔ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کا سرکاری دفاتر سے میل ملاپ متاثر ہو گیا۔ کراچی شہر کا انتظام وفاقی افسران کے ہاتھوں سے نکل کر مغربی پاکستان کی حکومت کے سپرد ہوا۔ اُردو بولنے والے مہاجرین، ایوب خان کی حکومت کو ناپسند کرتے تھے۔

1964ء کے صدارتی الیکشن میں کراچی اپوزیشن کا شہر بنا۔ مادرِ ملت، محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی حمایت کو چیلنج کرنے کے لئے صدر ایوب کے بیٹے، گوہر ایوب نے ایک جلوس نکالا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوس لسانی تضادات کا نقطہ آغاز تھا۔ یحیٰی خان کی صدارت میں ون یونٹ ٹوٹا مگر شہری علاقوں کے باسیوں کو فائدہ نہ پہنچا۔ بلدیاتی نظام مضبوط نہ تھا۔ شہری ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت تھے۔ محدود معاشی اور انتظامی اختیارات کی وجہ سے شہری علاقوں کا انتظام و انصرام براہِ راست سندھ حکومت کے کنٹرول میں رہا۔

بھٹو کے دورِ حکومت میں بلدیاتی اداروں کے الیکشن ہی نہ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے مہاجروں کو اپنائیت کا احساس نہ دیا۔ غیر ضروری لسانی بل کے ذریعے تفریق میں اضافہ ہوا۔ کشیدگی بڑھی اور نوبت قتل و غارت تک پہنچی۔ امنِ عامہ متاثر ہوا اور مہاجروں میں ’’اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دُھوم سے نکلے‘‘ کی نوحہ گری ہوئی۔ دارالحکومت کی منتقلی سے شہری علاقوں میں روزگار کے مواقع پہلے ہی کم ہو رہے تھے۔ اِس پر کوٹہ سسٹم کا نفاذ ایک اضافی ستم سمجھا گیا۔ اِن حالات میں مہاجروں کے احساسِ محرومی میں کمی نہ ہوئی۔

سندھ کی شہری آبادی کے ووٹ عام طور پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ملتے تھے۔ اِن جماعتوں نے رائے دہندگان کی نمائندگی کا حق ادا نہ کیا۔ نہ تو شہری علاقوں میں سہولتوں کی فراہمی کے لئے آواز بلند کی اور نہ ہی پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے روزگار کے حصول کی جدوجہد کی۔

شہری آبادی کا احساسِ محرومی عروج پر پہنچا تو تمام عوامل بانی ایم کیو ایم جیسے قائد کی آمد کیلئے موافق تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کی قیادت کے دوران کراچی میں امنِ عامہ کی صورتِ حال دگرگوں رہی۔ کوٹہ سسٹم بھی موجود رہا۔ نجی شعبے میں بھی صنعت و حرفت کی ترقی رُکی رہی۔ بے روزگاری کم نہ ہو سکی۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران، ایم کیو ایم، اپنے قائد کی قیادت سے آزاد ہوئی۔ اُمید تھی کہ سندھ کی شہری آبادی میں صاف ستھری، غیر متشدد سیاست لوگوں کے مسائل حل کرے گی۔ کم از کم کچرا ختم ہو گا۔ آمد و رفت کے راستوں میں بہتری کے ساتھ سستی اور مؤثر ٹرانسپورٹ کی سہولت ملے گی۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو گا۔ مگر اِس جماعت کے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ مستقبل میں شہری آبادی کی مؤثر نمائندگی نہ ہونے سے، احساسِ محرومی ختم نہیں ہو گا۔ اِس طرح تو مستقبل میں ان جیسے ایک اور لیڈر کے آنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood