میں اپنے مریضوں کو بری خبر کیسے سناتی ہوں؟


انٹرنل میڈیسن کے امتحان کے سوالوں میں‌ سے ایک پڑھا جو کہ ایک صاحب کے بارے میں‌ ہے جن کو تین سال پہلے پروسٹیٹ کا کینسر ہوگیا تھا۔ حالیہ ٹیسٹوں‌ سے یہ بات پتا چلی کہ پیٹ میں‌ موجود آعضا میں یہ کینسر سرایت کرگیا ہے۔ اب یہ بات مریض‌ کو کیسے بتائی جائے؟
یہ سوال اس بات کے بارے میں‌ ہے کہ بری خبر مریضوں کو کیسے دی جائے۔ پہلے زمانے میں‌ یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر کوئی مرنے والا ہو تو ڈاکٹرز اور ان کے خاندان والے ان سے یہ بات چھپاتے تھے کہ وہ مرنے والے ہیں۔ کسی کو بھی بری خبر سنانا اچھا نہیں‌ لگتا۔ سب وہی ڈاکٹر ہونا چاہتے ہیں‌ جو کسی بالی وڈ مووی میں‌ باہر آکر کہتا ہے کہ مبارک ہو لڑکا ہوا ہے۔
ایک مرتبہ آئی سی یو میں‌ ایک خاتون کی دل کی دھڑکن بگڑ گئی اور ہم سب ان کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن وہ نہیں‌ بچیں، اگلے دن پیتھالوجی لیب میں‌ ان کے آعضا ٹرے میں‌ تھے اور ان کا جائزہ لیا جارہا تھا کہ موت کی کیا وجہ تھی؟
ایک رات میں‌ ایک صاحب کی غذا کی نالی میں‌ سے خون اس طرح‌ ضائع ہونا شروع ہو گیا کہ پریشر کے ساتھ خون اور نارمل سیلین چڑھانے، شریانیں‌ بند کرنے، سانس اور دل بحال رکھنے میں‌ ساری رات لڑنے کے باوجود صبح تک ان کی موت ہوچکی تھی۔ صبح میں‌ ان کی ماں‌ اور بہن بستر کے پاس کھڑی رو رہی تھیں اور ہم لوگ تھکے ہارے گھر لوٹ گئے۔
اس طرح‌ زندگی کو دیکھ لیا جائے تو عام زندگی کی چھوٹی موٹی باتیں‌ بالکل اہم نہیں‌ لگتیں۔ اگر ڈاکٹرز کو یہ تربیت نہ دی جائے کہ بری خبر کس طرح‌ دی جائے تو مریضوں‌ اور ان کے  خاندانوں کے لیے منفی نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 91 فیصد ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ بری خبر دینا ایک اہم صلاحیت ہے لیکن صرف 40 فیصد اس بات پر اعتماد رکھتے تھے کہ ان کو اس دائرے میں‌ مناسب تربیت ملی ہے۔
اپنے ڈاکٹری کے تجربے میں‌ میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ مریضوں‌ کو تین گروہوں‌ میں‌ تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں، اوکلاہوما کے چھوٹے شہروں‌ میں‌ رہتے ہیں‌ اور وہ دواؤں‌ اور دیگر میڈیکل پروسیجرز سے کافی گھبراتے ہیں۔ کچھ صاف ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ڈاکٹرز بالکل پسند نہیں ہیں، صرف مجبوری میں‌ آئے ہیں۔ ایک گروپ وہ ہے جو یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں‌ پروفیسر یا اسٹوڈنٹس ہیں، کافی لوگوں نے مختلف مضامین میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔
یہ لوگ اپنی اعلیٰ تعلیم کی تربیت کی طرح‌ تنقیدی سوچ ہر نکتے پر استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ جب بال کی ضرورت سے زیادہ کھال اتاری جائے تو دماغ اتنا الجھ سکتا ہے کہ فیصلے کی طاقت سلب ہوجاتی ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے سو پاؤں والے کیڑے سے پوچھا کہ تمہارے اتنے سارے پیر ہیں، یہ فیصلہ کیسے کرتے ہو کہ پہلے کون سا آگے رکھنا ہے؟ وہ یہ سن کر اتنا پریشان ہوگیا کہ چلنا پھرنا چھوڑ دیا۔ اس مشاہدے سے میں‌ نے یہی سیکھا کہ زندگی میں‌ نارمل طریقے سے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ درمیانہ روی اختیار کی جائے۔
ہر انسان چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ مجھے پسند کریں۔ ڈاکٹرز بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم مریضوں‌ کا اچھی طرح‌ علاج کریں‌ اور وہ ٹھیک ہوجائیں۔ سر زبیری ہمارے چانڈکا میڈیکل کالج میں‌ میڈیسن کے پروفیسر تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میڈیسن اسٹوڈنٹ لائف میں ہی سیکھ لیں، جب آپ لوگ اصلی دنیا میں‌ کام کریں‌ گے تو مریضوں‌ کو بہتر کریں گے تبھی وہ گھر جاکر اپنے رشتہ داروں‌ یا پڑوسیوں‌ کو آپ کے پاس ریفر کریں‌ گے۔
آج کل انٹرنیٹ کے دور میں‌ سوشل میڈیا کے آگے آنے سے نئے سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مریض ایسی چیز کی فرمائش کرتے ہیں جس سے ان کا فائدہ نہیں ہوگا یا پھر وہ ایسی توقعات رکھتے ہیں‌ جو حقیقت سے دور ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اینٹی بایوٹک سے وائرل انفکشن ٹھیک نہیں‌ ہوگی اور کچھ لوگوں کو درد کی اصل میں شکایت نہیں‌ ہوتی ان کو درد کی دواؤں کے نشے کی عادت ہوچکی ہوتی ہے۔
ایک صاحب نے یہ درخواست کی کہ یہ کہا جائے کہ ان کی بیماری ویت نام کی جنگ میں‌ استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں‌ کی وجہ سے ہوئی حالانکہ اس بیماری کا ان کیمیائی مادوں‌ سے تعلق نہیں‌ جوڑا جاسکتا۔ پھر وہ اپنے سماجی دائرے میں‌ جا کر شکایت کریں‌ تو اس سے ڈاکٹرز کی ساکھ پر اثر پڑتا ہے۔ سب لوگوں‌ کو کبھی خوش نہیں‌ کیا جاسکتا ہے۔ اس دباؤ سے بچنے کے لیے بھی کئی ڈاکٹرز مریضوں‌ کو خوش کرنے کے لیے بھی کچھ ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں‌ جو ان کی پروفیشنل رائے کے خلاف ہوں۔
ڈاکٹر حسن سید لاڑکانہ میں‌ ایک کڑک ای این ٹی کے پروفیسر تھے جن سے سب اسٹوڈنٹس کافی ڈرتے تھے۔ ایک دن کلینک چل رہا تھا اور ہم سب میڈیکل اسٹوڈنٹس ان کے ساتھ مریض‌ دیکھ رہے تھے۔ ایک باپ اور بیٹا آئے تھے۔ بیٹا مریض تھا۔ ڈاکٹر حسن سید نے کہا کہ اس لڑکے کی ناک کا چیک اپ کون کرے گا۔ سب کو سکتہ ہوگیا تھا۔ میں‌ ایک دو بار تھوڑا سا آگے بڑھی کہ اس کی ناک چیک کروں‌ پھر یہ سوچ کر رک گئی کہ وہ سب کے سامنے مجھ پر چلائیں‌ گے۔ انہوں‌ نے میری جھجھک بھانپ لی تھی۔ مڑ کر باپ سے پوچھتے ہیں‌ کہ کیا آپ کا بیٹا کرنٹ مارتا ہے؟  جی؟ ان کو کچھ سمجھ نہیں‌ آیا۔ جی نہیں! لیکن میں‌ سمجھ گئی تھی۔ میں‌ نے آگے بڑھ کر اس کی ناک کو چیک کیا۔ وہ ایک اچھا کیس تھا۔ انہوں‌ نے ہمیں‌ سکھایا کہ کیا نارمل ہوتا ہے اور کیا نہیں۔ کچھ علامات موروثی اور نارمل ہوتی ہیں اور کچھ بیماریاں۔ اچھی طرح‌ سے ہسٹری لینے، طبعی امتحان اور مناسب ٹیسٹ کرنے کے بعد جو بھی نتائج سامنے آئیں‌، ان کو آسان کرکے مریض‌ کو سمجھانا میڈیسن کی پریکٹس کا اہم حصہ ہے۔
ڈاکٹرز کو ناپسند کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ان کو بری خبر سنائیں گے۔ بری خبر دینا ڈاکٹرز کی اہم پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے جس کا اندازہ مجھے میڈیکل کالج میں‌ ہی ہوگیا تھا۔ ایک دن لاڑکانہ میں‌ ای این ٹی کا کلینک چل رہا تھا۔ دو خواتین آئیں‌ جنہوں‌ نے کالے برقعے پہنے ہوئے تھے۔ ایک خاتون نے جب اپنا نقاب اٹھایا تو ہم سب نے دیکھا کہ ان کا آدھا چہرہ جلد کے کینسر سے ڈھکا ہوا ہے۔ ڈاکٹر سید نے ان سے کہا کہ آپ کو کینسر ہے اور میں‌ آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ ان کے ساتھ جو دوسری خاتون تھیں، انہوں‌ نے دو تین بار کہا کہ ہاں ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ چھالیہ کھانے سے ان کو منہ میں‌ کینسر ہوگیا ہے۔ انہوں‌ نے صبر سے یہ بات سنی اور واپس چلی گئیں۔ شائد ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔
کئی سال ہوئے ایک صاحب کو ذیابیطس کے علاج کے لیے میرے پاس ریفر کیا گیا تھا۔ امریکن اسوسی ایشن آف کلینکل اینڈوکرنالوجسٹس کی گائیڈلائنز کے مطابق میں‌ نے ان کا تفصیل سے معائنہ کیا اور مناسب ٹیسٹ کیے۔ اس کے بعد ان کو بتایا کہ آپ کو اوسٹیوپوروسس، سیلیاک بیماری اور وٹامن ڈی کی کمی بھی ہے۔ وہ اگلی بار آئے تو کچھ ناراض تھے اور پریشان بھی کہ جب میں‌ آپ کے پاس علاج کے لیے آیا تو مجھے ایک بیماری تھی اور اب چار ہیں۔ حالانکہ وہ ان کو پہلے سے تھیں‌، صرف ان کے بارے میں‌ معلوم نہیں‌ تھا۔ اس طرح‌  سوچنا چاہئیے کہ اگر ہمیں‌ چھپے ہوئے مسائل کے بارے میں‌ پتا چل جائےتو ان سے مستقبل میں‌ ہونے والی پیچیدگیوں‌ سے بچا جاسکتا ہے۔  یہ بات بھی مجھے وقت کے ساتھ سمجھ میں‌ آگئی کہ جب ہم کسی مریض‌ کو بتاتے ہیں‌ کہ ان کو ذیابیطس ہے تو اس جملے کے بعد وہ آگے سننا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ان کو کچھ وقت دینا ضروری ہے تاکہ وہ اس انفارمیشن کو جذب کرسکیں اور اس کے بعد ہی مناسب علاج ممکن ہے۔
بری خبر دینے کے موضوع پر کافی سارے تحقیق دانوں‌ نے مختلف پروٹوکول تشکیل دیے ہیں‌ جن میں‌ سے ایک فائن ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔
Fine protocol with five phases.
Phase 1, preparation, involves establishing appropriate space, communicating time limitations, being sensitive to patient needs, being sensitive to cultural and religious values, and being specific about the goal.
Phase 2, information acquisition, includes asking what the patient knows, how much the patient wants to know, and what the patient believes about his or her condition.
Phase 3, information sharing, entails reevaluating the agenda and teaching.
Phase 4, information reception, allows for assessing the information reception, clarifying any miscommunication, and handling disagreements courteously.
Phase 5, response, includes identifying and acknowledging the patient’s response to the information and closing the interview.
ایک دن ہسپتال سے فون آیا کہ فلاں‌ مریض‌ کو آکر دیکھ لیں۔ شام میں‌ کلینک ختم کرکے گئی تو کمپیوٹر میں دیکھا کہ ان کے تھائرائڈ کی پیتھالوجی کے نتائج واپس آچکے ہیں‌ اور ان کو تھائرائڈ کا کینسر ہے۔ میں‌ نے ایک گہرا سانس بھرا اور ان کے کمرے کی طرف گئی تو دیکھا کہ ان سے کوئی صاحب ملنے آئے ہیں جن کی گود میں‌ ایک چھوٹا سا کتا ہے۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ میں‌ نے ان سے بس یہ کہا کہ شب خیر!
صبح‌ بھی تو آئے گی، صبح بتا دیں‌ گے۔
ریفرنس:
Proc (Bayl Univ Med Cent). 2016 Jan; 29(1): 101–102.
PMCID: PMC4677873
Delivering bad news to patients

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).