ریل کی سیٹی بقلم محمد حسن معراج


پی ایم اے سے پاس آوٹ ہونے کے بعد لیفٹیننٹ محمد حسن معراج کو کہاں معلوم تھا کہ وہ فوج کی توپ زیادہ عرصہ تک سنبھال اور چلا نہ پائیں گے اور بالآخر قلم کی نوک سے زمین کے اس کینوس پر کچھ اس طرح سے آڑھی ترچھی لکیریں لگائیں گے (جو نہ صرف ماضی کے فوجی افسران کی یاد دلائیں گے یہاں میری مراد قطعاً ان افسرانِ اعلٰی سے نہیں۔ جن کے آنے سے بقول مشتاق یوسفی ذیابیطس کو عالمِ گھبراہٹ میں کاتب ضیاءبیطس لکھ بیٹھتا ہے) جو نہ صرف ریل کی پٹری کے ساتھ سفر کریں گی بلکہ ان عوامل، اشخاص اور حالات کا ذکر بھی ہو گا جو دورِ حاضر میں دھندلائی ہوئی یادوں کی طرح سفرِ فراموشی پہ ہوں گے۔ پی ایم اے نے وطنِ عزیز کو بہت سے عظیم سپوت دیے چند ایک جو عظمت تک نہ پہنچ سکے اور ریٹائرڈ ہو گے انھیں اردو آنگن نے سستانے کو جگہ دی۔ لیکن معراج صاحب نے ازخود سب چھوڑ چھاڑ کے اس قبیل میں جگہ بنائی

محترم حسن معراج نے چند ڈبوں کا ذکر سن 1853 سے شروع کیا جو لگ بھگ 165 سال پہلے کی بات ہے خیر مجھے اس کتاب کے مطالعہ سے پہلے اس سے قطعی کوئی سروکار نہ تھا کہ بات کتنے عرصہ پہلے کی ہے لیکن جناب کی نشاندہی نے اس پہ سوچنے پے مجبور کیا اور ہوں 165 سال پہلے کی شروع کی ہوئی وجہ ریل گاڑی مجھے اپنے ساتھ ساتھ لئے گئی۔

ریل کے اس سفر میں مختلف تہذیبیں، رسم و رواج، معرکی آرائیاں، ظلم، محبت، عقیدت، جگ بیتیاں اور بے شمار داستانیں سننے کو ملیں۔ اس خطے سے تعلق رکھنے والے چند نابغہ روزگار شخصیات کے متعلق جاننے کو ملا۔ نور محل اور عمر حیات محل کے مکینوں کی آرزویں اور ان کا انجام، دیو آنند، شیو کمار بٹالوی کا بچپن، جگا ڈاکو اور محبت کی تکون امرتا پریتم، ساحرٙ اور امروز سب کی یاد دلاتا ہے، کچھ تلخ اور کچھ شیریں یادیں، وہ قصے جو محبتوں سے نسبت رکھتے تھے اور فقط ایک لکیر نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا اور بیگانہ کر دیا۔ ہر اسٹیشن ایک داستان ہے وہ داستاں جو ہمارے ہونے سے بہت پہلے کے زمانہ کی ہے لیکن اُس کو اِس انداز اور محارت سے قلم بند کیا گیا ہے کہ گویا اپنی اپنی سی محسوس ہوتی ہے اور دل و دماغ یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا کوئی اِس ڈھنگ سے بھی لکیر کھینچ سکتا ہے۔

اِن ہی منازل کو طے کرتے ہوئے راستے میں پوٹھوہار کے دل کا تذکرہ آیا اور بات گوجر خان کے ریلوے اسٹیشن اور ٹراسپوٹر سیٹھ میلا رام تک آن پہنچی صاحبِ کتاب نے رینٹ اے کار کی دکان کا سیٹھ میلا رام کی روایت نبھانے تک محدود رکھنا، خدا معلوم دانستاً انہوں نے سابقہ وزیر ریلوے بلور صاحب کو نظر انداز کیا یا کوئی مصلحت آڑے آ گئی۔

ہم ایسے سویلین کے لئے یہ بہت اچنبھے کی بات ہے کہ کسی زمانے میں فوجی افسران فرنیچر کرائے پر بھی لے جاتے تھے لیکن اب صورتِحال ذرا مختلف ہے کہ اب بھی زمین کے کچھ ٹکڑے لئے جاتے ہیں اور وہ بھی بنا کرائے کے۔ خیر بات کسی اور طرف نکل پڑی۔
بات ریل کی پٹری کی ہو رہی تھی ریل کی پٹری کے سنگ مُردوں کیساتھ ساتھ زندوں کا تذکرہ بھی بھرپور انداز میں کیا گیا ہے۔

جھنگ کی وجہہ شہرت سلطان باھو، جاگیردار اور ہیر تھے لیکن اس سفر میں جھنگ کا ذکر چندر بھان کے حوالے سے بھی ہوا اُس پہ عشق کی واردات منفرد انداز سے ہوئی جس کا حاصل صرف وہ جانے۔ ۔ آج کے دور میں تو حضرتِ عشق مِس کال سے شرور ہوتے ہیں اور بیٹری کے اختتام تک جاری رہتا ہے اور اگلی صبح بیٹری چارج اور بیا عشق رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ ۔ اُس چندر بھان کے داستانِ عشق کا اثر ایسا پڑا کہ مجھ ایسے 40 سالہ اور تقریباً 40 کمر والے کو بھی اپنی زندگی میں کم از کم ایک عشق کی کمی شدت سے محسوس ہوئی جس کو عملی جامہ پہنانے کا خیال تو ضرور دل میں آیا لیکن اپنی بیگم کے تین عدد بچوں اور اُن کی والدہ کے ماتھے کے بل کا سوچ کر فوراً یہ خیال رفو چکر ہو جاتا ہے کیونکہ میرا یہ یقینِ محکم ہے کہ کسی بھی غیر شرعی کا ارادہ کرنے سے گناہ کا پلڑا بھاری نہیں ہوتا اور اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند لمحوں کے لئے دل پشاوری کر لیتے ہیں اور بندہ عذابِ بیگم سے بھی محفوظ رہتا ہے بات ریل کی پٹری کی ہو رہی تھی عمر کوٹ کی کہانی اور کنووں کا کھدوانا، زمینداروں کا کسی اور سرزمین پہ پیزا لگانا ہمارے معاشی، معاشرتی، سماجی اور ملکی حالات کی عکاسی ایک جداگانہ انداز سے کرتا ہے۔

اس سفر میں گرو امر داس اور انجیلِ مقدس کا ذکر لکھاری کی وقتِ حاضر کے علماء سے لگن اور وارفتگی کی عکاسی کرتا ہے۔ مورخ ملتان کا ایک تعارف شہرِ آسودہ اور خدا خوفی کے حوالے سے کرتا تھا لیکن مدینتہ الاولیاء کی نسبت سے اولیاءکرام کا تعارف بہرحال محمد حسین کے قلم کی ” معراج“ ثابت ہوا۔

محمد حسن معراج نے ریل کی سیٹی کی صورت میں قیمتی پتھروں کی ایک لڑی پروئی ہے، تاریخ کو بذریعہ فرید خاں ”ٹوڈر“ تو مل گیا کہ جو پتھر کے بدلے ایک سونے کا سکہ انعام میں دیا کرتا تھا، خدا معلوم کہ محمد حسن معراج صاحب کے حصٙے میں سونا یا سکہ دونوں میں سے کیا آیا۔ ۔ ۔

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
بقول محمد سلیم الرحمان ریل کی سیٹی سے بڑا اب سفر کا سمبل کیا ہو گا؟ رختِ سفر باندھ لو۔ میں چلا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).