انٹرنیٹ سے منسلک سمارٹ اشیاء کے انسانی نسل پر اثرات


مصنف: کلیِر ایبٹ اور ڈاکٹر عاطف بن منصور ملک
یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا

ابتدائیہ : یہ مضمون محترمہ کلیر ایبٹ اور ڈاکٹر عاطف ملک کے ایک انگریزی تحقیقی پیپر کا اردو ترجمہ ہے۔ کلیر ایبٹ نے یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں فلسفے میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی اور اب کمپیوٹر سائنس میں ماسڑز کی ڈگری کے لیے زیرتعلیم ہیں۔ ڈاکٹر عاطف ملک ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنس، یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں پڑھاتے ہیں اور یہ مضمون اُن کے پڑھائے گئے سبجیگٹ انٹرنیٹ آف تھنگ یعنی اشیاء کے انٹرنیٹ کے دوران لکھا گیا۔

خلاصہ
اشیاء کا انٹرنیٹ ایک ایسے دور کی طرف لے جارہا ہے جہاں انسان کی خودمختاری ہو سکتا ہے کہ الگورتھمز کے تابع ہو جائے۔ نیز ازاں انسان کی نجی زندگی یعنی پرائیویسی کو بھی مختلف آلات کے مسلسل اعداد و شماریعنی ڈیٹا کے جمع کرنے سے خطرہ ہے۔ ایک طبقاتی تقسیم کا بھی امکان ہے جہاں ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے اور لاعلم ایک پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی مانند ہو سکتے ہیں۔ ہمارےلیے یہ بھی ممکن نہ ہوگا کہ ہم ان آلات کے چنگل سے نکل سکیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشیاء کا انٹرنیٹ جو سہولیتیں لے کر آرہا ہے وہ اس قابل ہیں کہ ان تمام امکانی خطرات کا رسک لیا جائے۔ کیا یہ تمام امکانات اور خظرات ایک خیال ہیں یا حقیقت، یہ مضمون اس پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

مضمون
ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو مختلف انداز میں بدل رہی ہے، اس کے اثرات ہمارے رہنے، کام کرنے، تعلیم کے طریقوں سے بڑھ کر ہماری اپنے بارے میں رائے پر بھی اثر انداز ہیں۔ اگر ایک نسل سمارٹ فون سے فائدہ اٹھا رہی ہے تو وہیں ایک نسل کے لیے اس کا استعمال یا بھر پور استعمال نہ کر پانا پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔

اسی اثناء میں اشیاء کا انٹرنیٹ مستقبل میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اشیاء کا انٹرنیٹ سمارٹ اشیاء سے بنا ہوگا۔ عام استعمال کی اشیاء جب ان میں پروسیسنگ کی طاقت دے دی جائے اور وہ نیٹ ورک کے ذریعے دوسری اشیاء سے معلومات یعنی ڈیٹا کا تبادلہ کر سکیں تو یہ سمارٹ اشیاء کہلائیں گئی۔ ایک مثال عام ٹوتھ برش کی ہوسکتی ہے، وہ اگر آپ کی دانتوں کی صفائی پر ںظر رکھے اور آپ کو آپ کے موبائل پر یا کسی اور ذریعے سے بتائے کہ آپ اپنے دانتوں کی صفائی پر کم وقت دے رہے ہیں یا کوںے والے دانت کی صفائی آپ مسلسل صحیح نہیں کر رہے، تو یہ ایک اہم بات ہے۔ یہ خبر آپ کا ٹوتھ برش آپ کے دانتوں کے ڈاکٹر کو بھی بھیج پائے گا۔ سو اشیاء کا انٹرنیٹ سمارٹ اشیاء کا ایک دوسرے سے مربوط نیٹ ورک ہوگا جو انسانی تہذیب کی کئی جہتیں بدل سکتا ہے ۔
مگر اس تبدیلی کی انسان کو ایک قیمت ادا کرنی ہوگی، معاشرتی تقسیم، پرائیویسی کا فقدان، اور انسانی خود مختاری پرضرب وغیرہ۔ انسان اپنے آرام کے لیے کن چیزوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیا وہ خیال اور آورشیں جو آج سے چند دھائیاں قبل اہم تھیں آج سے چند سال کے بعد بھی اہم رہیں گی؟ اگلے کچھ عرٰصے میں ہمیں علم ہوگا کہ انسانی نسل اپنے لیے حقیقتًاً کیا اہم سمجھتی ہے۔

اشیاء کا انٹرنیٹ فی الوقت ایک ترقی پاتا خیال ہے مگر اس کا بنیادی نقطہ دنیا کی حقیقی اشیاء کا انٹرنیٹ کی غیر مرئی یعنی ورچوئل اشیاء سے ربط پیدا کرنا ہے۔ انسانی نسل کا اب تک اس طرح کے تعلق کا پہلے کوئی تجربہ نہیں، حقیقی دنیا کا کوئی مدمقابل پہلے ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ اشیاء کا انٹرنیٹ روزمرہ استعمال کی چیزیں مثلاً فرج اور ایر کنڈیشنر کو عقلمندانہ اشیاء میں بدل دے گا جو کہ ایک عالمی نیٹ ورک یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے دوسری اشیاء سے بات کریں گی۔ فرج آپ کو بتلائے گا کہ کھانا باسی ہونے والا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ پتا کرنا بھی آسان ہوگا کہ آپ کے فرج میں کیا پڑا ہے۔ گھڑی اور دوسری پہناوے کی چیزیں اپنے مالک کےبارے میں نہ صرف معلومات اکٹھی کر رہی ہوں گی بلکہ نیٹ ورک کے ذریعے طاقتور کمپیوٹرز کو بھی بھیج رہی ہوں گی۔ یہ ڈیٹا اور دوسرے بہت سے لوگوں کے ملتےجلتے ڈیٹا سے یہ کمپیوٹرز الگورتھمز کے ذریعے بہت سی معلومات حاصل کر رہے ہوں گے۔ ایسی معلومات جو آج ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ سمارٹ آلات انسانی آرام کو بہتر کر سکتے ہیں، مثلاً ایک سمارٹ ایر کنڈیشنر وقت سے پہلے ہی ٹمپریچر کی پیشن گوئی کی مطابق گھر کو ٹھنڈا یا گرم کر سکتا ہے۔ ایک ٹھنڈی رات گھر والوں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، سمارٹ ایر کنڈیشنر خود ہی حرارت کی سطح بڑھا دے گا اور مکین آرام سے سوتے رہیں گے۔ اشیاء کا انٹرنیٹ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں آ جائے گا؛ پرائیویٹ اور پبلک، تفریحی، انڈسڑیل، شہری، سائنسی تمام پہلو اس سے متاثر ہوں گے۔

اشیا ء کا انٹرنیٹ کس حد تک ہماری زندگیوں میں داخل ہوگا اور ہمار ی زندگیاں کس حد تک تبدیل کر دیگا، ہم حتمی طور پر ابھی اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتے مگر ماہرین کے خیال ہے کہ یہ ایک بڑی تبدیلی لائے گا اور ہر جگہ موجود ہوگا۔ یہ ایک متصل یعنی جڑا ہوا معاشرہ بنادے گا اور یہ متصل معاشرہ صرف لوکل نہ ہوگا بلکہ عالمی طور پر جڑا ہوگا۔ آلات اور ڈیٹا کی بنا پر لوگ دوسروں کی ذاتی معلوما ت تک رسائی حاصل کر سکتے ہوں گے۔ اشیا ء کے انٹرنیٹ سے ابھرنے والی یہ انتہا کی تبدیلیاں کئی سوالوں کو جنم دیں گی۔ سب سے بنیادی سوال ہے کہ کیا سب اس کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوں گے؟ جہاں اشیا ء کا انٹرنیٹ انسان کے لیے بہت مددگار ہوگا، وہیں یہ کئی فلسفیانہ اور اخلاقی سوالات کو جنم دے گا۔

اشیا ء کے انٹرنیٹ کے بارے میں گمان کیا جارہا ہے کہ یہ نوع انسانی کو جوڑ دے گا ، مگر اس کا بھی گمان ہے کہ یہ تقسیم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ہے، اس سے ایک ڈیجیٹل تقسیم کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے جہاں کچھ ممالک اور ان کا معاشرہ اشیا ء کے انٹرنیٹ کے باعث باقی ممالک سے فرق ہوں گے۔ اشیا ء کا انٹرنیٹ ہر جگہ موجود ہوگا اور مسلسل ڈیٹا بھیج رہا ہوگا، ایسے جیسے کوئی پوشیدہ جاسوس۔ یہ ٰڈیٹا انسان کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جارہا ہوگا مگر اس کو کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عام آدمی کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ اُس کی زندگی کس حد تک اس اشیا ء کے انٹرنیٹ کے جال میں الجھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں عام آدمی اور ٹیکنالوجی جانتے شخص کی تقسیم پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے۔

ایک شفافیت کی ضرورت ہے، یعنی ہمیں علم ہو کہ کمپنیاں آلات کی مدد سے ہمارے متعلق کیا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں، یہ کیسے استعما ل ہوگا ، ہمارے کیا حقوق ہیں، ہم اپنے ذاتی ڈیٹا پر کتنا حق رکھتے ہیں۔ اشیا ء کے انٹرنیٹ کے دور میں ہمیں کیا قانونی حقوق حاصل ہیں؟ ہم اپنے مفاد کا کیسے بچاؤ کر سکتے ہیں؟ یہ بہت بڑے سوال ہیں، خصوصاً بڑی کمپنیوں مثلاً گوگل، مائیکروسوفٹ وغیرہ کی اجارہ داری کے دور میں۔ یہ کمپنیاں ڈیٹا کو کسی اخلاقی تعین سے ہٹ کر اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتی ہیں، اور عام افراد کی لاعلمی سے بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ابھی بھی ان کے کسی سروس دینے کے پرائیوسی ایگریمنٹ بہت مشکل زبان میں لکھے جاتے ہیں، لمبی لمبی قانونی اصطلاحات سے بھرے کہ عام آدمی بالکل بھی نہ سمجھ پائے۔ اگر آپ ایگریمنٹ کو نہ مانیں تو سروس نہیں دی جاتی۔

فری سروس کے نام پر کیا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے، یہ ہمارے علم میں نہیں۔ قوانین ابھی ان معاملات میں ٹیکنالوجی کی رفتار سے کہیں پیچھے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان قوانین کو ملکی سطح سے بڑھ کر عالمی ہونا ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی کوئی جغرافیائی حد نہیں ہوتی۔ ایسے عالمی قوانین کا بنا نا اور وقت پر بنانا بہت مشکل کا م ہے۔
پرائیویسی کے ساتھ ساتھ انسانی خودمختاری بھی خطرے میں ہے۔ انسانی خودمختاری ایک انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے فیصلے، چناو، عمل کا تعین خود کر سکے۔ اگر کوئی بیرونی طاقت مثلاً حکومت، قبیلہ، خاندان، ملازمت وغیرہ اس پر اثر انداز ہو تو یہ خودمختاری کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اس چیز کا امکان ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی خودمختاری پر حاوی ہو جائے گی۔ ایک عام آدمی ٹیکنالوجی کے تابع ہو کر اپنی خودمختاری کھو بیٹھے گا۔

اشیاء کے انٹرنیٹ کو ہم ہر جگہ پائیں گے جو کہ مسلسل انسانی ڈیٹا اکٹھا کررہا ہوگا۔ یہ اکٹھا کیا جانے والا ڈیٹا بہت کارآمد ہے، مثلاً ایک شخص کا بلڈ پریشر، نبض، اور دوسرا ڈیٹا آلات کے ذریعے اکٹھا کر کےالگورتھمز تجزیہ کر سکتے ہیں اور ڈاکٹر کو پیشگی علاج کے لیے بتا سکتے ہیں کہ بیماری ابتدائی مرحلے میں ہی کنٹرول ہو جائے۔ یہ ڈاکٹر کو مزید معلومات بھی دے گا مثلاً مریض خوراک میں بد احتیا طی کر رہا ہے، اور دوسری ہدایات کی پیروی نہیں کر رہا۔ اسی طرح ایک سمارٹ کار اپنے ڈرائیور کی خطرناک ڈرائیونگ کے رحجان کے بارے میں بتا رہی ہوگی، گھر کے باہر گند اکٹھا کرنیوالا سمارٹ ڈبہ گھر کے کوڑے سے مکینوں کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پرائیویسی کا سوال ایک بنیادی سوال ہوگا۔

اشیاء کے انٹرنیٹ کا دور عجب ہوگا۔ جارج اورویل کے ناول ”انیس سو چوراسی“ کے ہر جگہ موجود ایک ”بگ برادر“کے مقابلے میں اس دور میں کئی بگ برادرز ہوں گے۔ یہ انفرادی شہری بھی ہو سکتے ہیں، حکومتی ادارے بھی ہو سکتے ہیں اور بڑی انٹر نیشنل کارپوریشنیں بھی ہو سکتی ہیں۔ انسان کے ذاتی ڈیٹا تک اُنہیں مختلف سطح کی رسائی ہو گی۔ جارج اورویل کے بگ برادر کے واحد مقصد یعنی کنٹرول کے مقابلے میں ان دوسرے بڑے بھائیوں کے مقاصد مختلف اور چھپے ہیں۔ یہ بڑے بھائی، جانتے، کنٹرول کرتے اور کبھی نہ بھولنے کی صلاحیتیں رکھتے ہوں گے۔

اشیاء کا انٹرنیٹ ہمارے لیے مختلف کا م آسان بنا دے گا، ہمیں زیادہ نظر دیگا، مگر دوسری جانب انسانی توقعات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر ای میل اور ایس ایم ایس نے جہاں رابطے آسان کر دیے ہیں، وہیں ایک توقع پیدا ہو گئی ہے کہ فوری جواب دیا جائے، سو اسی طرح اشیاء کا انٹرنیٹ انسانی توقعات کو بہت اوپر لے جا سکتا ہے کہ ہم اپنے ہر لمحے کو کارآمد بنائیں کیونکہ اب ٹیکنالوجی ایسا ممکن کر سکتی ہے۔ کیا ہماری زندگیاں ٹیکنالوجی کے وجہ سے زیادہ آزاد ہوں گی یا محدود؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

ہم اشیاء کے انٹرنیٹ سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ انفرادی طور پر یہ مشکل ہے، اور پبلک زندگی میں یہ ممکن نہ ہوگا کیونکہ اس کے فوائد کی بنا پر حکومتیں اور شہری انتظامیہ اس کا بھر پور استعمال کریں گی۔ آپ کی لاعلمی میں بھی آپ کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہوگا۔ انسانی خودمختاری کو سب سے بڑا خطرہ اشیاء کے انٹرنیٹ سے یہ ہے کہ وہ انسان سے بہتر کام کرنے کی صلاحیت دکھائے گی۔

گوگل کی خود چلتی گاڑی کا پہلا حادثہ تب ہوا جب اُس نے ایک پیدل کو بچاتے بریک لگائی اور پچھلی گاڑی جسے کوئی فرد چلا رہا تھا، اُس سے آ ٹکرائی۔ یہ حادثہ نہ ہوتا اگر دونوں گاڑیاں خود چلتی ہوتیں اور آپس میں نیٹ ورک سے جڑی ہوتیں کہ پچھلی کار کو اگلی کار کابھر پور علم ہوتا اور اُس کے بریک لگانے سے یہ بھی ر ک جاتی۔ ہم اسی رائے کو بڑھا کر کہہ سکتے ہیں کہ حادثات میں کمی ہو جائے اگر تما م گاڑیاں خود چلتی اور اشیاء کے انٹر نیٹ کے ذریعے سے جڑی ہوں۔ سو ہم ڈرائیونگ کا تجربہ اپنی اگلی نسلوں سے لے کر ٹیکنالوجی کو دیں گے کیونکہ اس طرح وقت، پیسے اور انسانی جانوں کا بچاؤ ممکن ہوگا۔ ڈرائیونگ کےعلاوہ کئی دوسرے کام ہیں جو کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ اس میں اشیاء کا انٹرنیٹ اور الگورتھمز ایک اہم کردار ادا کریںگے۔ انسانی استعداد بہت سے تعصبات کا شکار رہتی ہے اور افراد کے فیصلے ان کےزیرِ اثرہوتےہیں۔ تعصبات انسانی خواہشات، پرورش، تجربات بہت سی چیزوں سےبنتے ہیں۔ کیا انسانی احسات، جذبات اور تٰعصبات ہمیشہ غلط ہی ہوتے ہیں جوکہ انسانی کارکردگی پر برے انداز میں اثر ڈالتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ گمان ہے کہ الگورتھمز ان تعصبات سے بالاتر ہوکر کام زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔

اشیاء ایک انسان کے بارے میں مسلسل مختلف ڈیٹا اکٹھا کر کے الگورتھمز کو دیں گی تو ہو سکتا ہے کہ وہ الگورتھمز اس شخص کو خود اُس سے بھی بڑھ کر جاننے لگ جائیں اور بہتر فیصلے کرنے لگ جائیں۔ الگورتھمز بتا سکیں گے کہ کس وقت اُس کا نیند سے جاگنا اُسے خوش رکھے گا، کن اشیاء کا ناشتہ اُس کی صحت کے لیے موزوں ترین ہے۔ وہ پرانے ٰڈیٹا کی بنیاد پر دوستوں کی سفارش کر سکتا ہے۔ میرج بیورو یا شادی دفتر کی بجائے الگورتھم ڈیٹا کی بنیاد پر رشتے کروا رہے ہوں گے، سو اشیاء کا انٹرنیٹ کئی جگہوں پر انسانی کاموں کا متبادل لا سکتا ہے۔ مگر کیا ہم اپنی آزادی اور خودمختاری خوشی سے ٹیکنالوجی کو دے رہے ہوں گے کیونکہ وہ انسانوں سے بہتر کام کر سکتے ہیں یا ہمیں اس پر اعتراض ہوگا؟ انسان کی آنے والی نسل پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ مختصر اور طویل عرصے میں اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ یہ سب سوالات کا ہمیں سامنا کرنا ہوگا۔

پیو ریسرچ سنٹر، امریکہ کی رپورٹ میں سائیکو تھراپسٹ، آرون بالک کے خیال میں ”جب انسان اپنا کام ٹیکنالوجی کے حوالے کرے گا کیونکہ وہ بہتر کام کر سکتی ہے تو ہم اپنی خواہشات اور عقل کو ٹیکنالوجی کے تابع کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کم ہونے کا خطرہ ہے۔ آپ نے ایسے قصے سنے ہوں گے جہاں جی پی ایس کے مطابق چلتے ڈرائیور اپنی منزل سے کہیں دو ر جا پہنچے۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ غلط جارہے ہیں، ان کا آس پاس کا سفر انہیں بتا رہا تھا کہ وہ غلط جا رہے ہیں، مگر ٹیکنالوجی کو اپنے سے برتر جانتے ہوئے وہ چلتے رہے۔ ہماری حسیات کا کیا ہوگا؟

چھٹی حس ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے ، مگر کیا ہم اُسے مانیں؟ ہم جو ایک گمنام راستے پر چل کر سیکھتے رہے ہیں، اُس کا کیا ہوگا ؟ وہ جو رسک لے کر ہم نے سیکھا، وہ جو ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا، وہ کدھر جائے گا؟ “۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس ٹیکنالوجیکل ترقی کا انسانی خودمختاری کے ساتھ ساتھ انسانی تخلیقی صلاحیت پر کیا اثر ہوگا ؟ تخلیقی صلاحیت کیسے آ تی ہے؟ اس کیترویج اور ترقی کیسے ہوتی ہے؟ کیا تخلیقی حس ہم الگورتھمز کے تابع کر سکتے ہیں؟

ایک انسانی مشینی اسسٹنٹ مثلاً گوگل کا کورٹانا یا ایپل کا سری کو پروگرام کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مالک کا حکم مانے اور اس کے وقتی فائدے کی بجائے لمبے عرصے کے فائدے کا خیال کرے۔ مگر انسان کئی دفعہ وقتی خواہش رکھتا ہے جو کہ اس کے طویل عرصے کے فائدے سے متصادم ہوتی ہے۔ ہم نے اکثر شوگر کے مریضوں کو میٹھے کی بد احتیاطی کرتے دیکھا ہے۔ ایک مشینی اسسٹنٹ جس کے پاس اپنے مالک کا بہت بڑا ڈیٹا ہے، وہ اس ڈیٹا کی ساز باز سے اپنے مالک سے وہی حکم لے سکتا ہے جو وہ لینا چاہتا ہے۔ مالک اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہوئے بھی مشین کی تعبداری میں خوش رہے گا۔

انسان کو پیش آنے والے ان خطرات کا کیا حل ہے؟ اشیاء کا انٹر نیٹ اپنے ہمراہ کئی مسائل لائےگا۔ کیا ہم اس ترقی کو بند کر دیں؟ یہ ممکن نہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اشیاء کے انٹر نیٹ کی ترقی کے اوپر نظر رکھی جائے اور اس کو کنٹرول کیا جائے کہ یہ انسانی خودمختاری کو نقصان نہ پہنچا پائے۔ ایک اور نقطہ نظر ہے کہ کیونکہ الگورتھمز انسانی غلطیوں سے پاک ہوں گے، اور انسان کو کئی فائدے پہنچائیں گے سو اس کی قیمت کے طور پر ہم انسانی خودمختاری کے نقصان کو خوشی سے قبول کریں۔

ایک انتہا پسندانہ نقطہ ںظر یہ بھی ہے کہ انسان اور مشین کی تفریق کو ختم کردیں۔ ہم اپنے جسموں اور دماغوں میں آلات کی پیوند کاری کر لیں۔ ہماری کارکردگی بہتر ہو جائے گی۔ ہم بہتر انسانیت کی خدمت کر پائیں گے، اس کے خیال کے مخالفین کےمطابق یہ انسانیت کی موت ہو گی، خدمت نہیں۔

اشیاء کا انٹرنیٹ ہمار ے لیے کیا لاتا ہے، وقت ہی بتا پائے گا۔ کیا معاشرتی انصاف، پرائیویسی اور انسانی خودمختاری کی قربانی بڑے سوال ہیں یا انسانی آرام کے لیے یہ قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں۔ یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان میں سےکون جیتتا ہے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ اشیاء کا انٹرنیٹ ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ آنے والا دور انسان اور ٹیکنالوجی کی ہم آہنگی اور کشمکش کا دور ہوگا۔

REFERENCES
[1] . Kortuem, . Kawsar, . Sundramoorthy and . Fitton, “Smart objects as building blocks for the Internet of Things,” IEEE Internet Computing, vol. 10, pp. 30-37, 2010.
[2] Â. Guimarães Pereira, A. Benessia and P. Curvelo, “Agency in the Internet of Things,” European Commission, Luxembourg, 2013.
[3] L. Rainie and J. Anderson, “The Internet of Things Will Thrive by 2025,” 14 May 2014. [Online]. Available: http://www.pewinternet.org/2014/05/14/internet-of-things/. [Accessed 02 09 2017].
[4] J. Meder, “Human Empowerment in a Semantic Web of Things,” Uppsala Universitet, 2014.
[5] B. D. Weinberga, G. R. Milnea, Y. G. Andonovab and F. M. Hajjata, “Internet of Things: Convenience vs. privacy and secrecy,” Business Horizons, vol. 58, no. 6, p. 615–624, 2015.
[6] M. Goodman, Future Crimes, London: Penguin Random House, 2015.
[7] M. Mannermaa, “Living in the European Ubiquitous Society,” Journal of Futures Studies, vol. 11, no. 4, pp. 105 – 120, 2007.
[8] Y. N. Harari, Homo Deus, London: Penguin Random House, 2015.
[9] M. A. Osborne and C. B. Frey, The Future of Employment, Oxford: University of Oxford, 2013.
[10] A. Benessia and A. Martinho Guimaraes Pires Pereira, “The dream of the Internet of Things,” Routledge, 2015.

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor