فتح علی خاں اور اوم پوری کے نام


استاد بڑے فتح علی خاں کلاسیکی موسیقی کے تفاخرانہ احساس کانام تھے۔ استاد ِمعظم کا تعلق خیال گائیکی کی اس عظیم روایت سے تھا جو ہمارے ہاں اب ناپید ہوتی جارہی ہے۔ 60ء اور70ء کی دہائی میں استاد امانت علی خاں استاد فتح علی خاں کانام ایک کلاسیک برانڈ بن چکا تھا۔ دونوں بھائی پیدائشی فنکار تھے مگرموسیقی کے رستم اور زمان کہلانے کے لئے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ انہیں احساس تھاکہ ان کا تعلق گائیکی کے عظیم پٹیالہ گھرانے سے ہے جس کے جدِامجد علی بخش خاں اور فتح علی خاں تھے۔ اس عظیم جوڑی کو ”جرنیل خاں کرنیل خاں ‘‘ کے خطاب سے نوازا گیاتھا۔ گود سے لے کر گورتک وہ کسب ِکمال اور فنکارانہ عظمت کے احساس میں مبتلارہے اور اسی باعث وہ اپنی ساری زندگی محنت بھی کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ رہا کہ کامیابیوں نے ان کے قدمے چومے۔ لگ بھگ 43سال قبل استاد امانت علی اور فتح علی کی جوڑی 1974میں اس وقت ٹوٹ گئی جب امانت علی اپنے بھائی فتح علی خاں اور ان گنت چاہنے والوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 4جنوری 2017کو فتح علی خاں بھی بالآخر اس جہانِ فانی سے کوچ کرکے اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔ یوم حساب او ر سزا جزا کامعین وقت تو خُدا جانے عالم ِبرزخ میں یہ جوڑی پھر سے بن گئی ہوگی۔
70ء کی دہائی امانت علی خاں فتح علی خاں کے عروج کا زمانہ تھا۔ استاد فتح علی کا مکمل دھیان راگ داری پرہی مرکوز تھا مگر استاد امانت علی نے ٹھمری، دادرا، غزل اور ملی ترانے گاکر موسیقی کے مخصوص حلقے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ ”اے وطن پاک وطن ‘‘ ”چاندمیری زمیں پھول میرا وطن ‘‘ ”اے دھرتی میری سونایارو‘‘ اور ابن ِانشا کی غزل ”انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ نے استاد امانت کو وہ اسٹارڈم بخشاتھا جو پاپ اسٹار کو بھی کم ہی نصیب ہوتاہے۔ ہلکی پھلکی موسیقی کے شائقین کی وجہ سے امانت علی فتح علی کو سننے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیاتھا۔ دونوں بھائی چونکہ خوش شکل، خوش لباس اور خوش گفتار تھے اس لئے جس کسی نے بھی انہیں دیکھا اور سنا وہ ان کا دیوانہ ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب ٹیلی وژن پاکستان میں عام ہورہاتھا، نیشنل میڈیا پر امانت علی فتح علی کی بھرپور پروموشن ہوئی اور یہ جوڑی میوزک لورز کی فیورٹ ہوگئی۔

74ء میں امانت علی خاں کا انتقال ہواتو فتح علی خاں ایک عرصہ تک اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے۔ وہ جہاں کہیں پرفارم کرنے لگتے اپنے بھائی امانت علی خاں کو یاد کرکے زاروقطار رونے لگتے۔ وقت سب سے بڑا مرہم بھی ہوتاہے، ایک وقت گزرنے کے بعد استاد فتح علی خاں نے اپنے چھوٹے بھائی استاد حامد علی خاں کے ساتھ جوڑی کی صورت میں گایا، اسی طرح وہ اپنے بیٹوں سلطاں فتح علی خاں اور رستم فتح علی خاں کے ساتھ بھی گاتے ہوئے شائقین موسیقی کو لبھاتے رہے۔ خاں صاحب سے میری ملاقاتیں رہیں وہ کمال کے بذلہ سنج، حاضر جواب اور جملہ باز تھے۔ لگ بھگ 20سال قبل جب میں اورمیرے ساتھی محسن جعفر نے شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی خاں کو ”جنگ فورم ‘‘ میں ٹربیوٹ پیش کیا۔ تمام اساتذہ موسیقی اس تقریب میں تشریف لائے استاد فتح علی خاں نے اس نشست میں حاضرین کو ہنسایابھی اور رُلایا بھی تھا۔ بڑے خاں صاحب بڑے دل والے بھی تھے اس تقریب میں انہوں نے استاد سلامت علی خاں کو کھل کر خراج عقیدت پیش کیا۔ وگرنہ اس زمانے میں شام چوراسی اور پٹیالہ گھرانے سے متعلق تاثر ایسے ہی تھا جیسے یہ موسیقی کے پی ٹی آئی اورنون لیگ گھرانے ہوں۔

استاد فتح علی خاں نے کہاکہ حکومتوں کے نزدیک کرکٹ کاکھیل اور کرکٹرزہی وی آئی پی ہیں جو زیادہ ہارتے اورجیتتے کم ہیں۔ استاد کا کہناتھاکہ ہم پاکستان کی وہ ٹیم ہیں جو کبھی ہارتی نہیں ہے، ہمیں بھارت سرکار نے اپنی شہریت کی پیشکش بھی کی لیکن ہم نے یہ آفر ٹھکرادی اورکہا اب ہم اس مٹی میں ہی دفن ہوں گے۔ استاد جی نے جوکہاتھاوہ کردکھایاگزشتہ روز انہیں ان کے بھائی استاد امانت علی خاں کے ساتھ مومن پورہ قبرستان میں دفن کردیاگیا۔

شبانہ اعظمی نے ٹوئٹ کیاہے کہ ممبئی کے کوپر اسپتال میں اوم پوری کا پوسٹ مارٹم ہونے کے بعد ان کی آخری رسومات اداکردی جائیں گی۔ اوم پوری جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب حرکت ِقلب بند ہونے کے باعث موت کا شکار ہوئے لیکن ان کی موت کو حادثہ یا سازش بھی تصورکیاجارہاہے۔ دنیا میں ابھی تک ایسی کوئی تکنیک متعارف نہیں ہوئی جس کے تحت پوسٹ مارٹم رپورٹ میں روح اور احساس پر لگائے گئے زخم دیکھے جاسکتے ہوں۔ اوم پوری کی موت کے پیچھے کیامحرکات ہیں مجھے اس کاعلم ہے۔

اوم پوری ایک ذہین اور حساس انسان تھے، ان کا تعلق برصغیر میں بسنے والے اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے پروگریسو انسانوں سے تھا۔ بھارتی لائم لائٹ میں ان کا تعارف متوازی سینماسے ہوا۔ نصیر الدین شاہ ان کے بہترین دوستوں میں سے تھے جبکہ شبانہ اعظمیٰ، جاوید اختر، اشوک پنڈت، کلبھوشن کھربندا، مہیش بھٹ اور دوسرے روشن خیال بھی ان کے دوستوں میں شامل تھے۔ اوم پوری کا تعلق بھارتی پنجاب کے شہر انبالہ سے تھا ان کے والد ریلوے اور فوج میں ملازم رہے تھے۔ ایک فوجی کا بیٹا ہونے کے باوجود اوم پوری ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ لگ بھگ ڈھائی سال قبل میں نے ٹیلی فون پر اوم پوری کا انٹرویو کیاجس میں انہوں نے کہاکہ ”مرنے سے قبل وہ لاہور دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔

میرے لئے یہ عجیب بات تھی کہ ایک ایسا شخص جس کے آباؤ اجداد کا تعلق لاہور سے نہیں ہے، ، وہ اس دھرتی سے اس قدر عقیدت کیوں رکھتاہے؟ اوم پوری نے کہاکہ ان کا ایمان ہے کہ جب تک بھارت اور پاکستان میں دوستی کا رشتہ استوار نہیں ہوگا دونوں اطراف کے کروڑوں غریب عوام کامقدر نہیں بدلے گا۔ اوم پوری بنیادی طور پر تھیٹر کے اداکار بھی تھے اس لئے میں یہ چاہتاتھاکہ وہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ایک نمائشی اسٹیج ڈرامہ کریں۔ انہیں میرا آئیڈیا بہت پسند آیا لیکن انہوں نے کہاکہ پہلے وہ جاوید صدیقی کا لکھا ڈرامہ ”تیری امریتا‘‘ کریں گے اس کے بعد اگلے پروجیکٹ کے طورپر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ پرفارم کریں گے۔ ”تیری امریتا‘‘ لاہور میں کرانے کا اعزاز میرے دوست بدر خان کو نصیب ہوا۔ اوم پوری 6دن کے لئے لاہور آئے اور بھارت واپس جاتے ہوئے اپنے ساتھ 6جنموں کا پیار لے گئے۔

لاہور اوربعدازاں کراچی سے ملنے والی بے پناہ محبت ہی دراصل ان کی موت کاسبب بنی۔ بھارت میں پٹھان کوٹ کا واقعہ رونما ہوا تو اوم پوری نے کہاکہ ثبوت کے بغیر پاکستان کی طرف انگلی نہ اٹھائیں۔ بھارتی میڈیا نے اوم پوری کے پاکستان کے لئے اس بیان کو ان کے لئےDEATH SENTENCE بنا دیا۔ وہ آخری دم تک اپنی بات پر قائم رہے، وہ کہتے رہے کہ پاکستان سے جنگ نہیں صلح اوربھائی چارہ قائم ہوگالیکن اس کوشش میں انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین اس نفرت نے ایک اور قیمتی جان لے لی ہے، دونوں اطراف یہ سلسلہ رکناچاہیے۔ اوم پوری کے ساتھ میری بہت سی یادیں ہیں جو آئندہ شیئر کروں گا۔
JANUARY 07, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).