سیاستدانوں کا شکار اور مولانا فضل الرحمان


مولانا فضل الرحمان صاحب آجکل اپنی تقاریر میں اشاروں کنایوں میں سیاستدانوں کو اتحاد واتفاق کی دعوت دے کر جمہوریت بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور تسلسل سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ یہاں سیاستدان کو بدنام کرنا ہو تو اس پر کرپشن کا الزام لگا دیا جاتا ہے جس کی حکومت ہو اسے دنیا کا سب سے بڑا چور اور ڈاکو قرار دیا جاتا ہے اور جو اپوزیشن میں ہو اسے پاک صاف اور صادق وامین کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ پی پی پی کی حکومت تھی تو زرداری صاحب سب سے بڑے کرپٹ قرار دیے جاتے اور نواز شریف صاحب کو پاک صاف قرار دیا جاتا اب نوز شریف صاحب کی حکومت ہے تو میاں صاحب چور اور ڈاکو جبکہ زرداری صاحب صادق اور امین۔ اس لئے سیاستدانوں کو باہم مل بیٹھ کر جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مولانا صاحب کو اپنے تئیں یہ کوششیں جاری رکھنی چاہیے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ایک آل پارٹیز کانفرنس کر کے سیاستدانوں کو باہم ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے جمہوریت کی بقاء کے لئے عملی جدوجہد کرنی چاہیے اور جس طریقے سے مذہبی طاقتوں کو انتہاء پسندی سے بچاکر آئین اور قانون کے دائرہ کار کا پابند بنایا اسی طرح جمہوریت کو بھی مارشل لاء سے بچائیں

تاہم ایک طاقت ہے جو ان سیاستدانوں کو متحد نہیں ہونے دیتی اور سیاستدانوں کو دیکھ کر شیر اور دو بیلوں کا قصہ یاد آجاتا ہے جو کسی زمانے میں پڑھا تھا اور وہی قصہ اس وقت سیاستدانوں کے روئے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک جنگل میں دو بیل رہتے تھے ایک کا رنگ لال اور دوسرے کا سفید تھا جن کی آپس میں گہری دوستی تھی ( یہاں سیاستدانوں کی گہری دوستی نہیں ) ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کے لئے بھی ایک ساتھ آنا جانا ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔ شیر نے ایک چال چلی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا۔

پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کے لئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔ سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا بہت آوازیں دیں پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایامگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہاوہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہو جاتا۔ تھوڑے دن گزرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).