بیوروکریسی کا میڈیا ٹرائل


پاکستان کے ایک نامور مشہور ٹی وی اینکر ایسے بھی ہین جنہوں نے ماضی میں سول سروس کا امتحان پاس کر رکھا ہے۔ آج مجھے ان مشہور ٹی وی اینکر کا پروگرام دیکھ کر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ شعر یاد آگیا۔

وہ شیفتہ کہ دھوم تھی حضرت کے زہد کی

اب کیا بتاؤں، رات مجھے کس کے گھر ملے

اور پھر کچھ رک کر مرزا غالب کا شعر یاد آیا۔ ۔ ۔

کہاں مہ خانے کا دروازہ غالب ! اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

ہمارے اینکر صاحب کا خیال ہے کہ پنجاب کی احتجاج کرتی بیورو کریسی کو تو بالکل مس کنڈکٹ لگا کر فارغ کر دیں۔ وقت آ گیا کہ اب ان کو سبق سکھا دینا چاہیے۔ مجھے شبہ ہے کہ ان باتوں میں ان کا وہ روگ بول رہا ہے جو ڈی ایم جی گروپ نہ ملنے کی وجہ سے برسوں پہلے لگا تھا۔ موصوف سول سروس اکیڈمی میں مستقبل کے افسران کو لیکچر دیتے رہے ہیں تب انہیں بیوروکریسی سے کوئی اخلاقی اختلاف نظر نہیں آیا۔ خیر پورا ایک دن اس صوبہ چلانے والے قبیلے نے ہڑتال کر دی، سول سیکریٹریٹ بند کر دیا۔ سزا تو بنتی ہے۔ ہڑتال کی وجہ ایک ساتھی افسر کی نیب کی جانب سے گرفتاری ہے۔ موقف یہ ہے کہ گرفتاری کے لیئے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ افسران کو ہراساں کیا جا رھا ہے۔ ہڑتال تو بہت سرکاری افسر کرتے ہیں، ینگ ڈاکٹر بھی کرتے ہیں، گورنمنٹ کے اندر اور باھر کے سیاستدان بھی کرتے لیکن اتنا سخت رد عمل نہیں آتا۔

جانے کتنے سال ہو گئے یہ سنتے کہ ماضی کا ڈی ایم جی اور آج کی پاکستان ایڈمنسٹریوسروس بالکل بیکار ہے، اس کو بند ہی کر دیں۔ ساتھ میں یہ بھی سنتے ہیں کہ اس کے افسران بہت ہی فرعون نما ہیں۔ یہ فرعون آپ کو دن رات پنجاب میں کام کرتے دکھائی دیں گے جس کے باعث پنجاب پاکستان کا بہترین انتظامی صوبہ ہے۔  پنجاب کا صوبہ جس کی انتظامیہ کی دنیا مثال دیتی ہے وہاں کے ہڈ حرام ہفتہ اور اتوار برباد کر دینے والے افسر اگر فرعون دکھتے ہیں تو دیکھنے والوں کی نظر اور عقل کو چشمے درکار ہیں۔

سول سروس تاج برطانیہ کا دیا ہوا وہ تحفہ ہے جس کو کافی حد تک 2001 کے بعد سولائزڈ کر لیا گیا۔ افسر شاہی کی طاقت کم کر دی گئی۔ اس سے کیا فوائد ہوئے، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ پولیس کو مضبوط بنایا گیا تو وہ بھی سیاسی فائدے کے مد نظر۔ بہرحال پاکستان میں ہر ادارے کے کمزور کئے جانے پر بڑے شادیانے بجتے ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس پر تو بڑے الزام ہیں۔ بالکل امریکہ کی طرح جسے گالیاں سارا پاکستان دیتا ہے مگر گرین کارڈ بھی سب کو چاہیے۔ ایسے ہی یہ گروپ سول سروس کا امتحان دینے والے اسی فیصد افراد کی پہلی خواہش ہوتا ہے۔ اتنی جانفشانی کے بعد سروس میں آنے والے لوگ کم از کم کارکردگی میں بہتر ضرور ہوتے ہیں ان میں سے بہت اپنی قابلیت کے سر پر دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے تعلیم لے کر آئے ہیں۔ یہی صوبوں میں سرکاری ذمہ داری کے طور پر انتظامیہ چلاتے ہیں۔ انھی کو سیاستدانوں کے ساتھ کام کرنا ہے، انھی سے الیکشن کمیشن الیکشن کرواتا ہے۔ انھی لوگوں کو آپ پنجاب سے صوبے میں پرائیوٹ سیکٹر سے کم از کم 70 فیصد کم تنخواہ دیتے ہیں۔ جہاں پولیس اور دیگر کئی گروپس دگنی تنخواہ لے رہے ہیں۔

سول سروس کے سر سے کئی دھائیوں سے آئینی حفاظتی چادر بھی ہٹ چکی ہے۔ بہت سے افسران کے لئے اک عزت سادات ہی بچی ہے۔ اس صورت حال میں ان افسران سے امید رکھی جاتی ہے کہ یہ ایک یوٹوپیائی مخلوق کے طور پر کام کریں۔ سیاسی نظام کو شفاف بنائے بغیر بیوریوکریسی کو طاقت کا منبع بنا کر دکھا دینا، معاملے کو بہت ہی آسان معنی دکھانا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کر لینا بہت آسان ہے۔ جس نے جرم کیا ہو، اسے سزا بھی ملنی چاہیے مگر ہر کوئی الزام کے ثابت ہونے تک معصوم ہے۔ اسی طرح سول سروس کے ایک گروپ کا میڈیا ٹرائیل کرنا اور سزائیں تجویز کرنا کسی کی ذاتی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر سنجیدہ جرنلزم نہیں۔

قرۃ العین فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

قرۃ العین فاطمہ

قرۃ العین فاطمہ آکسفورڈ سے پبلک پالیسی میں گریجویٹ، سابق ایئر فورس افسراور سول سرونٹ ہیں۔

quratulain-fatima has 16 posts and counting.See all posts by quratulain-fatima