وزیر اعظم کون بنے گا…. ریحام خان، عائشہ گلالئی یا پرویز مشرف؟


برادر عزیز حامد میر نے ماہ رواں کے پہلے ہفتے میں ایک دلچسپ کالم لکھا۔ 1947ءکی کشمیر لڑائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک مزے کا نکتہ نکالا کہ اگر قبائلی لشکر کے راہنما خورشید انور عین لڑائی کے دوران پشاور کی ایک خاتون سے عقد نہ فرماتے اور اس رشتے کے بشری تقاضے پورے کرنے کے لیے مہینہ بھر غائب نہ رہتے تو پاکستان نے پورا کشمیر حاصل کر لیا ہوتا۔ حامد میر کی تحقیق میں شک کرنا کفر ہے۔ تاریخ کی تفہیم کے اس ڈھنگ پر البتہ انگشت نمائی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں قومی تاریخ کے اہم ترین واقعات کو غیر متعلقہ تفصیلات کی تنگنائے میں سمیٹ کر حقیقی سوالات سے گریز کی روش عام ہے۔ کچھ مثالیں دیکھیے۔ ایوب خان اپنے بیٹوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ دیتے تو پاکستان محیر العقول رفتار سے ترقی کرتا رہتا۔ گویا حقیقی سوال ایوب خان کا اقتدار غصب کرنا نہیں تھا جس سے ملک کے دونوں حصوں میں سیاسی عمل معطل ہو کر رہ گیا بلکہ گوہر ایوب اور ان کے برادر خورد کی بے اعتدالیاں ہمیں لے ڈوبیں۔ 1971ءمیں ملک کا دولخت ہونا ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ ہم نے اس سانحے کو یحیی خان کے بستر کی شکن اور بادہ ناب کے ایک جام میں سمیٹ لیا۔ کمرہ عدالت میں ناانصافی کی بدترین مثال ملک کے منتخب وزیر اعظم بھٹو کا عدالتی قتل تھا۔ ہم نے موشگافیاں کیں کہ اگر یحییٰ بختیار مرحوم مقدمہ قتل کو سیاسی رنگ میں ڈھال کر طول نہ دیتے تو بھٹو صاحب کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ محسن قوم جناب پرویز مشرف ایک سے زیادہ مرتبہ فرما چکے ہیں کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو بلٹ پروف گاڑی کی چھت سے سر نکال کر کارکنوں کے نعروں کا جواب نہ دیتیں تو ان کی جان بچ سکتی تھی۔ اور یہ تو سامنے کی بات ہے کہ اگر نواز شریف پانامہ کا قصہ شروع ہوتے ہی سنجیدگی سے قانونی پہلوؤں پر توجہ دیتے تو آج بھی ایوان وزیر اعظم میں رونق دے رہے ہوتے۔

ستر برس پہ پھیلی ہوئی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ آزادی کے بعد عوام کا حق اقتدار چھین لیا گیا۔ اس دوران میں فیصلہ سازوں کی کئی نسلیں گزر گئیں۔ ایسے بھی تھے کہ جن پر ایک پیسے کی بدعنوانی کا الزام نہیں تھا مگر قوم کی لٹیا ڈبو گئے۔ ایسے نام بھی غیر معروف نہیں جو دھن کی بہتی گنگا میں اشنان کرتے رہے اور آج بھی راج ہنس کی طرح خدا کی زمین پر اٹھلاتے ہیں۔ قوم کی یہ ناکامی کسی کی شخصی کمزوری، کسی وقتی غفلت یا فلک کج رفتار کی چیرہ دستی کا نتیجہ نہیں۔ یہ ہماری اجتماعی ناکامی کا تسلسل ہے۔ اس میں گورنر جنرل غلام محمد ہوں یا چیف جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت ہو یا مجلس شوری کو رونق دینے والے چہرے، انتخابات کی بساط پر مہرے آگے پیچھے کرنے والے نادیدہ ہاتھ ہوں یا من گھڑت خبروں سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے والے صحافی ہوں، ہماری قومی ناکامی یہ ہے کہ ہم سیاست، معیشت اور معاشرت کی شاہ راہیں تعمیر کرنے کی بجائے پگڈنڈیوں میں الجھ جاتے ہیں۔ آج کل بھی کچھ ایسا ہی موسم ہے۔ ایک فریق دریائے کبیر کے کنارے کھڑا کسی اور زمانے کا خواب دیکھ رہا ہے اور ایک لشکر فرات کے گھاٹ پہ پہرا لگائے بیٹھا ہے۔

ایک ترکیب کی بازگشت ان دنوں سننے میں آ رہی ہے، اداروں میں تصادم۔ ایک تو یہ کہ ہم ادارے کی اصطلاح کا آئینی اور سیاسی مفہوم ہی نہیں سمجھتے۔ ہماری روایت تو یہ ہے کہ ہر باون گزا اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے۔ ہمارا ہر ممدوح خود کو ادارہ کہتا ہے اور ہر منصب دار کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اسے پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کی فلاح پر مبعوث فرمایا ہے۔ ایک صاحب فرمایا کرتے تھے کہ وہ محض ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ نہیں ہیں، انہیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی کرنا ہے۔ ایک پیر فرتوت نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک بیوہ کے اس الزام کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہوں کہ اس کے شوہر کو قتل کیا گیا، یہ وہی پیر تسمہ پا تھے جن کے داماد پر بہو بیٹیوں کی آبرو ریزی کا الزام لگایا جاتا تھا تو فرماتے تھے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ دوسروں کے داماد کیا کر رہے ہیں۔ پھر ایک ’دل مسلم کی زندہ تمنا‘ ہم پر نازل ہوئی، انہیں عدالتی اختیارات کے ذریعے سب معاملات ٹھیک کرنے کا شوق تھا۔ پارلیمینٹ کی منظور کردہ آئینی ترمیم میں مداخلت کر کے ایسی روایت قائم کر گئے جو عشروں تک آئینی بندوبست پر سوالیہ نشان بنی رہے گی۔ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو توہین عدالت کے موہوم جرم میں گھر بھیج کر ایک شرمناک روایت قائم کی۔ یہ کارنامہ البتہ موصوف کا سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا کہ ایک اداکارہ کے بیگ سے برآمد ہونے والی مائع طرب انگیز کی دو شیشیوں پر ترنت نوٹس لیا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری مسلح افواج سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ فوج کے ترجمان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ آرمی چیف جمہوریت پسند ہیں۔ گویا برسوں سے ملک جس ہیجان میں مبتلا ہے اس میں عساکر پاکستان کو کوئی دخل نہیں۔ آئین میں تین ادارے درج ہیں۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ عوام کی حکمرانی کا سادہ اصول یہ ہے کہ ملکی نصب العین کا تعین، عوام کی بہبود کی نگہبانی اور قومی مفاد کی حتمی ذمہ داری عوام کے منتخب نمائندوں کی امانت ہے۔ آئین کی شق 8 میں واضح طور پہ بتا دیا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کے منافی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ شق 239 کے مطابق آئین میں ترمیم کا پارلیمانی اختیار غیر مشروط ہے۔ پارلیمینٹ میں نمائندگی کی شرائط بیان کرنے والی شقوں 61 اور 62 میں تحریف ایک آمر نے کی تھی اور آٹھویں ترمیم کو پارلیمینٹ کا بازو مروڑ کر منظور کروایا تھا۔ آئین کے بنانے والوں نے آئین کی 280 شقوں میں کسی بنیادی ڈھانچے کا ذکر نہیں کیا۔ بھائی فاروق عادل کی نئی کتاب “جو صورت نظر آئی” میں جماعت اسلامی کے سابق امیر مولوی طفیل محمد مرحوم کا ایک قول درج ہے کہ 1985 میں ’ہمارے سامنے سوال تھا کہ آٹھویں آئینی ترمیم کا راستہ روک کر ہم آئینی بحران پیدا کریں یا (آمر کا) ساتھ دے کر قراردادمقاصد کو آئین کا قابل نفاذ حصہ بنوا دیں، ہم ساتھ نہ دیتے تو ممکن ہے قرارداد (مقاصد) کو آئین میں شامل کرانے کا موقع پھر کبھی نہ ملتا۔ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا‘۔ قرارداد مقاصد آئین کی شق 2 الف میں شامل کی گئی ہے اور ان مہربانوں کی کمی نہیں جو اس قرارداد کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیتے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ آئین بنانے والے بنیادی ڈھانچے سے واقف نہیں تھے اور اقتدار پر غاصب شخص آئین کے بنیادی ڈھانچے پر سودے بازی کر رہا تھا۔ یہ اداروں میں تصادم کا قصہ نہیں یہ جمہور کے حق حکمرانی اور طالع آزماؤں کے سازشی عزائم میں ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔ یہ بیس کروڑ لوگوں کی قسمت کا سوال ہے۔ ہمارا مطالبہ ووٹ کا احترام اور آئین کی بالادستی ہے۔ کسی فرد کی نیک نیتی، اہلیت اور بلند نگاہی سے ہمیں غرض نہیں۔

کالم نگاروں کا ایک منصب پیش گوئی کرنا بھی بتایا جاتا ہے۔ تو صاحبان ذی وقار، درویش پرتقصیر کی پیش گوئی یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں وزارت عظمی کے ہما کا دائرہ انتخاب تین افراد تک محدود ہو گیا ہے۔ محترمہ عائشہ گلالئی جو مسلم لیگ کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بی لودھراں کا ضمنی انتخاب جتوانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ محترمہ ریحام خان جنہیں معلوم ہو گیا ہے کہ عوام ان سے سیاست میں آنے کا تقاضا کر رہے ہیں اور ہمارے قدیمی مہربان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف جو کمر درد سے صحت یاب ہو چکے ہیں اور بنفس نفیس پاکستان تشریف لا کر انتخابی مہم کی قیادت فرمائیں گے۔ یقین رکھنا چاہئیے کہ کسی کا اشتہاری ملزم ہونا آئین کی دفعہ باسٹھ الف سے ہرگز متصادم نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).