چالیسواں (2)


تو چالیسواں ہونے جارہا تھا! اس میں حرج کیا تھا؟ پھول رمضان کے روزے رکھتی تھی، پورے نہیں خاص خاص، جن کا ثواب زیادہ تھا۔ نماز نہیں پڑھتی تھی۔ کسی نے سکھائی ہوتی تو وہ بھی پڑھتی__ عربی شبدوں پر زبان چاہے لوٹتی نہ لوٹتی۔ ہر اتوار کو نہ سہی بڑے دن پر صبح کی پوجا میں وہ گرجا گھر ضرور جاتی تھی۔ رہی دیوالی، وہ تو سب گھروں میں منائی جاتی تھی۔ اس کے گھر کی منڈیر پر بھی دیئے جلتے تھے۔ اور ہولی کیوں نہ منائی جاتی؟ اگر کوئی دوسری ذات والا ٹوکتا کہ ’تم تو کرسٹان ہو، تم رنگ کیوں کھیلتے ہو؟‘ تو پھول کی جات والی کوئی بڑی عمر کی عورت بلبلا کر کہتی: ’ہولی ہے سو ہولی ہے۔ کِس بھڑوے کی چوری ہے‘ اور اعتراض کرنے والی کی بولتی بند کر دیتی۔

جاڑے سے پہلے آسِن میں ٹِلو، چھوٹے اور ان کے ساتھ کے لڑکے سینکوں اور کھپچیوں کا ٹیسُو راجا کا سر بنا کر اسے کھپچیوں کے ڈولے میں بٹھائے اپنے کمانے کے گھروں میں لئے لئے پھرتے، وہ کون تھا اس سے غرض نہیں تھی۔ جس گھر جاتے وہاں اعلان کرتے ٹیسُو گانے آئے ہیں۔ ایک جلتی تیلی مانگ کر اپنی جُگت میں دیا جلاتے__ دیا سلائی کی ڈبی نہ کوئی مانگتا تھا نہ ملتی۔ ان کی چھوئی ہوئی ڈبیا کو پھر کون چھوتا__ دیا جلا اور وہ اپنی تک بندی شروع کر دیتے جس کا ٹیپ کا بند ہوتا ’’اس میں سے نکلے ٹیسُو پُوت‘‘

بعد میں چھوٹی لڑکیاں جن میں بوندی بھی شریک ہوتی تھی گاتیں۔ ’’اس ساس نے ، اس ساس نے دو دانت دکھائے ری جھالریا‘‘ ان کے گیت میں بار بار آتا۔

گیت ختم ہونے پر پیسے ملتے اور لڑکے وہیں کھڑے کھڑے فیصلہ کرتے اب کس کے گھر جانا ہے۔

دسہرے سے کام نہ پھول کی جات والوں کو تھا نہ ان گھر والوں کو جہاں وہ کمانے جاتی تھیں۔ سب تیوہاروں کی طرح بلاناغہ، یہ خوشی کا موقع بھی ہر سال آتا ہے__ جب ڈھاک کے پھولوں سے بن رَچتا ہے۔

پھول نے کبھی اپنی زندگی پر غور نہیں کیا تھا۔ جو کام وہ کرتے ہیں جو اس سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ پھول اپنی زندگی کی ہر سمت سے مطمئن تھی، کم سے کم اس دن تک جب متھرا گھر چل کر نہیں آیا تھا__ اٹھا کر لایا گیا تھا۔

پھول کو نیند آتی جارہی تھی۔ متھرا کے ہرن کے روپ میں پُنر جنم کا خوف کہ جو سنے گا، دل سے مانے نہ مانے، مُنھ سے مان لے گا، پھر جو جو کام سے آتا جائے گا اُسے اور اس کے بچوں کو بدھائی دینے کو آن موجود ہوگا۔ گھر میں بِھیڑ لگ جائے گی۔ وہ خوف خود بخود حسرت میں بدلا اور اس پر نشہ سا لاکر چھن بھر میں مٹ گیا۔ جیسے چاند پرے کالا بادل دم بھر کو ہٹا تھا اور پھر چھا گیا۔

بارشوں کے دن تھے۔ ساون کی آٹھ دن کی جھڑی دو، ایک ہی دن ہوئے رکی تھی۔ لیکن بادل بجائے اپنے گھر جانے کے آسمان پر اِدھر اُدھر ٹہل ٹہل کر جن کے گھر کچے تھے انھیں ڈرایا کرتے کہ کتنے دن یہ چھت اور گھروندے تمہیں بچائیں گے۔ رام گنگا کناروں سے اتنے اوپر تک چڑھ آئی تھی کہ ڈر تھا کہیں باڑھ نہ آجائے اور شہر کو ڈبو دے۔ شہر کے دوسرے سرے پر رمنگا کی چھوٹی بہن گانگن بھی پورے بہائو میں تھی۔ دونوں کو شہ دینے والے بارش سے لدے بادل تھے۔ لوگ دن میں کئی کئی بار دیکھنے کو جاتے کہ ریل کے پل کے گولوں پر پانی کہاں تک چڑھ آیا ہے۔ تھم نظر آتے ہیں یا ڈوب گئے۔ یہ خطرہ بس بڑی بہن سے تھا، دوسری سے ہو گا تو اس کے کنارے پر بَسے ہوئے گائووں کو۔

پھول بھی ایک روز باپ کے ساتھ دن چڑھے پانی دیکھنے گئی۔ بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹی تھی اور باپ کو پیاری۔ وہ لاڈ دکھانے کو کہتا تھا: ’’اسے تو کہیں کی رانی ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اس پر ماں کہتی تھی: ’’اور تو اس کے لیے کوئی راج کمار ڈھونڈ کر لاتا!‘‘

کہیں دور نہانے کے گھاٹ پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور بھیگی ہوا میں دوسرا کنارہ صاف نظر نہیں آرہا تھا۔ وشنو پھول کو کندھے پر بٹھائے دوسرے کنارے کی پہچانی ہوئی جگہیں بتا رہا تھا۔ ’’وہاں سے رستہ بیرپور کو جاتا ہے۔ وہاں سے مکھانے کو، وہ سڑک رہی دلپت پور جانے والی، وہاں سے۔۔۔‘‘ اور وہ کہتی جارہی تھی۔ ’’اچھا باپو۔‘‘ ’’اچھا باپو‘‘ جیسے سچ مچ اُن سب سے واقف ہو۔

قطب کی لاٹ کی طرح پانی سے ابھرا ہوا کنواں کبھی کنارے پر ہوگا۔ جب سے وشنو نے دیکھا تھا دریا کے پاٹ کے بیچوں بیچ کھڑا تھا__ بس اپنی اینٹوں کی دیوار کے بل پر جسے مٹی چھوڑ کر کب کی آگے جا چکی تھی، اور وہ ننگارہ گیا تھا۔

پھول اپنے باپ سے پوچھ رہی تھی: ’’باپو کبھی تم نے اس میں جھانک کر دیکھا ہے؟‘‘

وشنو نے جھوٹ بولا: ’ہاں‘

’اس میں پانی ہے؟‘

’ہے‘

’تم نے اس کا پانی پیا ہے؟‘

وشنو نے چڑ کر کہا: ’کوئی اس تک نہیں جاسکتا۔ وہاں بہت بڑا بھنور ہے۔ جو اس میں جائے گا پھنس جائے گا۔‘

’اور؟‘ پھول کی آوازمیں خوف آگیا۔

’بس وہ اسے گھماتا جائے گا‘

’کنوئیں میں؟‘

’نہیں کنوئیں کے باہر اور نیچے کو کھینچ کر لے جائےگا۔‘

پھول دم بخود رہ گئی۔ ’سب کوئی کو؟‘ وہ سننا چاہتی تھی گھومتا ہوا پانی اس کے باپ سے شہ زور نہیں ہوسکتا۔

وشنو نے جواب دیا: ’جِسے بھنور توڑ کر نکلنا آتا ہے بس اُسے نہیں۔‘ پھول کا سوالوں کا خزانہ خالی ہوچکا تھا۔

’تیرا باپو بھی ایک بار بھنور میں پھنسا تھا۔‘

پھول بھونرا تو جانتی تھی کیا ہوتا ہے، بھنور کو نہیں۔ ڈرتی ہوئی بولی: ’پھر؟‘

’چُکر توڑ کر نکل آیا۔‘

پھول کے چہرے پر رنگ واپس آگیا۔ جیسے وہ خود بھی بھنور اور چڑھے ہوئے دریا سے نہ ڈرتی ہو۔ ’ہمارا کنواں تو ایسا نہیں ہے نا باپو؟‘

باپو نے ہاں میں سرہلایا۔

تھوڑے فاصلے پر کھڑے کچھ لوگ ایک گھوڑے کی بات کر رہے تھے، کسی انگریز افسر کا گھوڑا جو رات کنارے سے کچھ دور ٹیلے پر سے نیچے باندھ  پر گرا اور ٹانگیں توڑ بیٹھا تھا۔ پتہ نہیں کیسے کھل گیا تھا۔ اس کی کھوج میں عملے والے آئے، جب ان کے اٹھائے نہیں اٹھا تو وہ سپاہیوں کو لے کر آئے۔ انہوں نے سارے جتن کئے، پانی پلانے کی کوشش کی، تختے نیچے دے کر رسیوں سے اٹھانا چاہا پر اس نے آخر دم توڑ دیا۔ جو اچھا ہوا ورنہ صاحب خود آکر گولی مار دیتا۔ نسل دار گھوڑا تھا۔ وہیں پڑا ہے۔

ریل کا پل نزدیک ہوتا تو کب کے لوگ اس تک پہنچ چکے ہوتے۔ ابھی تازہ ہے۔ ٹھنڈا ہوگا تو سیار، گدھ اور کوئوں کی اس پر دعوت ہوگی۔ کل تک بس ہڈیاں پڑی ہوںگی۔

وشنو کی جات والوں میں سے کئی ایک کے مُنھ میں پانی آگیا۔

’ادھر ہوتا تو ماس تو کھانے کو ملتا‘ ایک شرابی نے کہا۔

پھول نے ایک بوڑھے کو جس کے چہرے پر کھچڑی مونچھیں بچھو کے ڈنگ کی طرح کھڑی تھیں کہتے سُنا: ’بس ماس؟ اس کا چرسا ہوگا لاکھ ٹکے کا‘

’سو تو ہے‘ ایک آدمی نے کہا جو ذات کا چمار تھا، ’بس سمجھ لو ادھر دولت پڑی ہے اور کوئی رکھوالا بھی نہیں۔ پُل پاس ہوتا تو میں کب کا پہنچ چکا ہوتا۔ یا نائو ہی چل رہی ہوتی، لو گ اس کی بات دلچسپی سے سن رہے تھے جسے اس نے یہ کہہ کر ختم کیا: چُھرا رسّی بے کار ہی لے کر آیا۔‘

پھول کے کئی سوال وشنو نے نہیں سُنے۔ اس کا دھیان کہیں اور تھا۔ وہ باپ کا سر ہلا کر پوچھ رہی تھی:

’باپو گھوڑا کیسے مر گیا؟ کس کا تھا؟ اب وہیں پڑا رہے گا؟ اپنے گھر نہیں جائے گا؟‘

وشنو نے سر کو جھٹکا دیا اور بیٹی کو زمین پر اتار کر بولا: ’تو یہیں کھڑی رہ، میں گھوڑے کی خبر لے کر آتا ہوں پھر تجھے بتائوں گا۔‘

چُھرے والے نے کہا: ’تم جائو گے؟‘

وشنو نے سر اوپر نیچے زور زور سے ہلایا اور سینہ تن کر کھڑا ہوگیا۔ پھر کہنے کو ہوا: ’پر۔۔۔‘

’ہتھیار ساتھ نہیں لائے۔‘

پھر اپنا چُھرا اور رسی وشنو کو تھماتے ہوئے اس نے بات پوری کی: ’اگر کوئی نائو مل جاتی سوچ کر آیا تھا چَیں ٹیاں لگنے سے پہلے میں پہنچ جائوں گا۔ پر یہاں تو۔۔۔‘

وشنو نے کہا: ایسی بپھری ندی میں کون اپنی نائو پانی میں ڈالے گا! پر تم فکر مت کرو، ماس اور چر سے دونوں میں تمھارا حصّہ ہوگا۔ پھر رسی کو لمبان میں جانچتے ہوئے بولا: ’پر رسی چھوٹی ہے۔‘

باپ کو پانی کی طرف بڑھتے دیکھ کر پھول رونے لگی۔ وشنو نے دلاسا دیا: ’تیرے پاس تیرا چاچا کھڑا ہے ڈرتی کیوں ہے۔ میں اُدھر دیر تھوڑی لگائوں گا۔ آکے تجھے بتائوں گا گھوڑا مر کیسے گیا۔‘

کچھ جات والے اُسے روکنے لگے: ’وشنو مت جا۔ ندی بڑی کھترناک ہورہی ہے۔ بَلی مانگتی ہے۔ تو بَلی مت بَن۔

’مجھ سے جاستی کھترناک ہے؟’ وشنو نے پگ کو لنگوٹی کی جگہ باندھتے ہوئے کہا۔ پھر کرتا اتار کراس نے اپنے بھائی کو پکڑایا۔ اُس کی آنکھوں میں نئی روشنی سی امڈ آئی تھی۔‘‘

پھول نے ہُمکتے ہوئے کہا:’ باپو کنوئیں پاس مت جائیو۔‘

وشنو پانی میں اترا جو کنارے پر ہی ڈُبائو تھا۔ دو چار ہاتھ مار کر اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔ پھول اب رو نہیں رہی تھی۔ دوسروں کی طرح وہ بھی اس تماشے کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔

تین نوجوان جو ایک دوسرے کو تِکتِکا کر پانی میں اترے تھے جب انھیں پیروں کے نیچے مٹی کی جگہ ریت میں پھنسی ہوئی لکڑیاں اور انگڑ کھنگڑ محسوس ہوا تو کھسیا کر لوٹ آئے۔ تینوں نے ایک ہی بات کہی: ’’ندی بہت تیز ہے، گہرے کی بات نہیں ہے۔ دوسرے کنارے پر پہنچنے نہیں دے گی، اِدھر ہی کوس بھر نیچے پہنچا دے گی۔‘‘

’یا پرلوک‘ ایک نچئیا بولا۔ وہ اپنے ٹھٹھوں کے لیے مشہور تھا۔

وشنو کا سر دور ہوتا جارہا تھا۔ ہاتھ نظر نہیں آرہے تھے جو چپو کی طرح چلتے نظر آتے۔ پھول کو لگ رہا تھا پانی پر کوئی الٹی ہانڈی بہتی جارہی ہے۔

سب کو لگ رہا تھا جہاں بھی جا کر کنارے پر نکلا شاید ہی یہاں سے نظر آئے۔ رہی گھوڑے والی جگہ تو اس تک پہنچنے کے لیے اسے اپنے پیر توڑنے پڑیں گے۔ یعنی اگر اتنا دم اس میں بچا تو۔

وشنو کے ساتھ ساتھ کنارے والے بھی بہائو کے ساتھ چلتے جا رہے تھے۔

(جاری ہے)

اس سیریز کے دیگر حصےچالیسواں (1)چالیسواں (3)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).