چالیسواں (3)


تھوڑی دیر کے لیے کنارے سے یہ کارنامہ ہوتا دیکھنے والوں اور وشنو کے درمیان ایک اٹک اٹک کر بہتا ہوا پیڑ حائل ہوگیا۔ لگتا تھا اُسے ندی کا یہ ظالمانہ سلوک، جو کل تک اس کی پڑوسن تھی، سخت ناگوار ہے اور جہاں بھی پانی اتھلا تھا مٹی کو پکڑنا چاہتا ہے۔ لوگ اِدھر اُدھر ہوکر وشنو کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر جب پیڑ بہائو میں آکر آگے نکل گیا تو اس کے پیچھے جو نظر آیا اس میں وشنو کے سر کا کہیں پتہ نہ تھا۔ لہریں تھیں کہ بے گنتی چیزیں بہائے لئے جارہی تھیں۔ سب کے پریشان چہرے، لوگوں کا اچک اچک کر دور تک دریا کی سطح کو دیکھنا، ’کہاں گیا؟‘ __ ’کہاں گیا؟‘ کی آوازوں سے خطرے کو بھانپ کر پھول کی ایک چیخ نکلی ’باپو،‘ کچھ دیر کو اس کی سانس رُکی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

پھر کوئی چلّایا: ’ارے چپ کرو۔ وشنو کنارے پہنچ گیا۔ مجھے اس کا کُھپاڑ دی کھا ہے۔‘

پھول بھی رونا بھول کر پار کے کنارے میں آنکھیں گڑھو کر اپنے باپ کو ڈھونڈنے لگی۔

تھوڑا اوپر چڑھ کر وشنو نے تیز دھوپ میں سب کو ہاتھ ہلائے۔ ایک ہاتھ خالی تھا دوسرے میں کچھ پکڑے تھا۔

پھر وہ کنارے پر بیٹھ گیا۔ پھول نے اُسے آواز دی اور رہ رہ کر اتنی دیر دیتی رہی جتنی دیر وہ بیٹھا رہا۔ پھر وہ کنارے پر سے ڈھال پر چڑھا اور نظروں سے غائب ہوگیا۔

لوگوں میں باتیں جاری تھیں: ’ماس اور چرسا لائے گا کیسے ایک ساتھ؟‘ کوئی نائو میں گیا ہے کہ اس میں لاد کر لے آئے گا۔ ’تندرست گھوڑا تھا۔ گوشت اور کھال من بھر سے کم کیا ہوں گے۔‘ ’باندھ لے گا اپنے تن سے۔‘

’اتنی رسی لے کر گیا ہے؟‘ ’وہاں بیلیں تھوڑی ہیں۔ رسی کم پڑے گی اور بنا لے گا۔‘

ایک سمجھ دار آدمی نے کہا: ’تن سے کیوں باندھنے لگا، ماس کو کھال میں لپیٹے گا۔ اسے ایک رسی سے باندھے گا، دوسری سے اُسے کھیتا ہوا لائے گا۔‘

نچئیا نے مسخرے پن سے کہا: ’اور رسی کو دانتوں میں داب لے گا۔‘

’اور بھوک کی کیا کرے گا؟‘

’وہاں جنگل میں تھوڑا ہے پیٹ بھرنے کو‘

پھول جو بھوک کے سوال پر ٹھٹک گئی تھی، جواب پر کِھل اٹھی۔ لیکن اب بھوک خود اُسے ستانے لگی۔ گھر جانا چاہتی تھی مگر بغیر باپو کے جانے کو تیار بھی نہیں تھی۔

پاس کے گائووں اور شہر سے لوگ یہ سن کر کہ ایک پاگل چڑھے دریا کو پار کرکے مرے ہوئے گھوڑے کے گوشت پوست کاٹ کر لانے گیا ہے جہاں تک نظر جائے امڈ پڑے تھے۔ شاید ہی کسی کو اس پاگل کے زندہ سلامت لوٹ کر آنے کی امید تھی پر تماشے کا انجام دیکھے بغیر ناٹک گھر سے کوئی ٹلنے کو تیار نہیں تھا۔

ایک دم شور اٹھا: ’وہ رہا وشنو‘۔ ’وہ رہا‘ کسی نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا۔ پھول کی تیز نظروں نے دور کے کنارے کی ایک ایک چیز کو چھان مارا اور وہاں سے لہروں کو گنتی ہوئی وہ واپس اس کنارے تک آگئیں جس پر وہ شَل ٹانگوں سے کھڑی تھی۔

پھر شو اٹھا: ’وہ رہا۔‘

اب وہ جسم میں دگنا لگ رہا تھا۔ اس کا ہیولا ہلکی ہوتی ہوئی روشنی میں آہستہ آہستہ ڈھال اتر کر کنارے تک پہنچا۔ وہاں کھڑے ہوکر ایک بار پھر اس نے وہ ہاتھ ہوا میں بلند کرکے ہلایا جس میں چَھرا پکڑے تھا اور پانی میں اتر گیا۔ اب لوگوں کو وہاں کھڑا ہونا بھاری نہیں پڑرہا تھا۔ ہوا اور پانی دونوں دھیمی چال چل رہے تھے اور پانی کی سطح اُجالی ہوئی چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ پچھم کے آسمان میں نارنجی رنگ گُھلا تھا۔

کبھی وشنو نظر آتا، کبھی غائب ہو جاتا۔ پھول کی سمجھ میں جو باتیں آرہی تھیں ان سے یہ پھوٹ پڑرہا تھا کہ کتنا جی وار ہے! پورا پاٹ تیر کے گیا۔ وہ بھی چڑھی ہوئی ندی کا۔ پیچ میں کوئی ٹاپو بھی نہیں تھا جس پر دم لے لیتا۔ جانور کی کھال اتاری ہوگی۔ اپنے لئے ماس کا ٹا ہوگا اور اب بڑھتا چلا آرہا ہے۔ آدمی ہے یا بھوت۔۔۔

اس کا باپو اتنا طاقتور ہے آج پھول کو پتہ چلا۔

 آدھے سے بھی کم سفر رہ گیا تھا کہ لوگوں کو لگا وشنو کے ہونٹ چل رہے ہیں۔ کچھ کہہ رہا ہے۔ پھر ہر طرف کی خاموشی میں اس کی ’’بچائو‘‘۔ ’بچائو‘‘ صاف سنائی دینے لگی۔ لگتا تھا وہ کسی بلا سے لڑرہا ہے جو اُسے آگے بڑھنے نہیں دے رہی ہے، کسی طرف کھینچ کر لے جارہی ہے۔ پھول نے خود سے کہا: ’میرے باپو کو بھونرا کاٹنا آتا ہے، اور مطمئن ہوگئی۔‘

’ارے رام پاتریں لگ گئیں۔ پاتریں۔‘

’تجھے؟‘

’نہیں ماس کو‘

’تو ماس کو الگ کر‘ کئی نے ایک ساتھ کہا

’کیسے الگ کروں۔ پیٹھ سے بندھا ہے۔ دونوں ہاتھوں بنا گٹھا کُھلے گی کیسے؟‘

سب کے سامنے وشنو کو وہ ان دیکھی بلا، پاتریں، دوبارہ کھینچ کرندی کے بیچ لے جارہی تھیں۔ اس نے تھپیڑوں میں آئی ہوئی گٹھری کی طرح کتنی ہی قلابازیاں کھائیں۔ پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

 سب کی ایک ہی رائے تھی: ’ماس سے جو خون نکلا ہوگا اس کی باس پاتروں کو بہاں کھینچ لائی ورنہ زندہ جاندار سے پاتروں کو کیا کام! ماس اور چرسا کھول دیتا تو بچ جاتا۔‘

’ڈوبتا ہوا آدمی ہاتھ روک کر کچھ اور کرنے لگ جائے تو مِلٹ بھر میں تلی میں پہنچ جائے گا۔‘

پورا کنارہ خاموشی میں ڈوب گیا۔ اب روشنی تھی لیکن سورج کی ترچھی کرنیں غائب ہوچکی تھیں۔ ہوا دھیمی رفتار سے چل رہی تھی اور لہریں اپنے میں مگن، جیسے ان سے زیادہ نش کپٹ دھرتی پے اور کوئی نہ ہو۔

تھوڑی دیر کے سکتے کے بعد جب پھول اپنے آپ میں آئی تو اُسے پتہ چلا دریا کا کنارہ اب سونا پڑا ہے__ بس وہ ہے، چاچا اور جات والے جنھیں وہ پہچانتی تھی۔ ذرا ہٹ کر ایک گری ہوئی دیوار سے ٹیک لگا کر ایک نائو کھیوٹ جو وہیں رہتا تھا بیٹھا چلم پی رہا تھا۔ لاش کو ڈھونڈنے کے لیے کوئی پانی میں نہیں اترا تھا۔ نائو چلانے والے نے کہا: ’کب تک یہاں کھڑے رہو گے؟ اب وہ لوٹ کر آئے گا! گھر جائو۔ لڑکی بھوکی ہوگی۔‘‘

اس کے ساتھی نے کہا: ’کھاتِر جما رکھو، اس کی لھاش مل جائے گی، وہ پاتروں کے کس کام کی ہے! پر ملے گی کل، ندی میں کوس بھر نیچے۔‘

پھول نے اُن دونوں کو نفرت سے دیکھا اور اُن لہروں کو جنھیں اپنے کام سے کام تھا۔ ’کھا گئیں میرے باپو کو۔‘

اس دن سے پھول کو اپنی رمنگا سے نفرت ہوگئی۔ ’کتنی ہولناک ندی ہے‘ اور کبھی اس کے پاس نہیں پھٹکی۔

 لیکن پھول کا صدمہ ایسا نہیں تھا جو اگلی صبح اٹھ کر مینھ کی طرح تھم جاتا، یا اس سے اگلی صبح، اور اگلی۔ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ کبھی کہتی: ’میرا باپو بھوکا ہوگا۔‘ کبھی کہتی: ’میرا باپو مرا نہیں ہے۔ اسے بھونرا کاٹنا آتا ہے۔ اسے کوئی نہیں مار سکتا۔ وہیں پانی میں چھپا ہے۔‘

اپنے چاچا کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی کہ باپ پانی میں سے چلّا رہا تھا ’’پاتریں، پاتریں چپٹ گئی ہیں‘‘ اور وہ اس کی مدد کو نہیں گیا۔

’تیرا باپو کہیں نہیں گیا ہے۔ وہیں ہے۔ اُدھر ندی کے پار جو گائوں ہے اس میں آرام کررہا ہے۔ تھک گیا ہے۔ کل آجائے گا، تو روٹی تو کھا۔ نہیں تو تیرا باپ نہیں آئے گا کہ تو گھر والوں کو تنگ کررہی ہے‘ سارے دلاسے بے کار تھے۔ نہ پیار بھری دھمکیاں کارگر ہوئیں۔

دوسرے یا تیسرے دن اس کی ساس نے ایک لفافہ لاکر پھول کی ماں کو دیا اور اونچی آواز میں بولی: ’ارے یہ تو دیکھ وشنو کا پتر۔‘ پھر لفافے میں سے ایک کاغذ نکال کر، اس یقین کے ساتھ کہ پھول دیکھ رہی ہے، اس نے سب کو دکھایا اور بولی: ’اس میں لکھا ہے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس ابھی گھر نہیں آسکتا۔ پھول کو بتانا: میں دو دن میں آئوں گا۔ ابھی یہاں کام بہت ہے۔ وہ پیٹ بھر کے کھانا کھائے۔ (پھول نے دیکھا ماں پیٹھ پھیرے خاموشی سے رو رہی ہے) اپنی موسی کے گھر چلی جائے۔ روئے گی نہیں، پیٹ بھر کر چاول، روٹی اور حلوہ کھائے گی تو اس کا سُسرا اُسے مجھ سے ملانے لائے گا۔ میں سکھی ہوں۔ خوب کھاتا پیتا ہوں۔‘

پھول کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ بولی: ’موسی تم بھی ساتھ چلنا۔ ہم اسے گھر لے کر آئیں گے۔‘

موسی نے جو ساس بھی تھی سٹپٹا کر کہا: ’نہیں وہ تجھ سے بولے گا نہیں۔ بس تو دور سے دیکھے گی۔‘

’گھر میں نہیں آئے گا میرے ساتھ؟‘

’نہیں ابھی نہیں۔‘

اگلے دن پھول جو ساس سے چپٹ کر سوئی تھی سویرے سویرے جاگ اٹھی اور دونوں ہاتھوں سے سوئے ہوئے سُسر کے کندھے ہلا ہلاکر اُسے جگانے لگی: ’مَاما اٹھو۔ باپو پاس لے کے چلو۔ وہ میری راہ دیکھ رہا ہوگا۔ اس دن سے اس نے کچھ کھایا بھی نہیں ہوگا۔ میں اُسے اپنے ہاتھ سے روٹی کھلائوں گی۔‘ اورحقیقت میں اس نے رات سے جو آدھی روٹی چھپا رکھی تھی اس وقت اس کی اوڑھنی میں بندھی تھی۔

جس جگہ دریا کنارے مسلمانوں کا قبرستان ہے، ایک آدمی جو واقعی وشنو لگتا تھا صبح کی روشنی میں پانی کی طرف مُنھ کئے ایک الٹی ہوئی کشتی پر کھڑا تھا۔ اس نے ایک ملگجی سی نیلی پتلون پہن رکھی تھی اور سَر پر انگریزوں کا سا ہیٹ لگائے تھا۔ جیسے گرجا سے آیا ہو۔

پھول نے ماما کے ہاتھ سے انگلی چھڑا کر اس ہیٹ والے کی طرف بھاگنا چاہا لیکن ماما نے زور لگا کر روک لیا: ’نہیں دھورے سے نہیں، یہیں سے دیکھ،

جذبات سے بھڑکی ہوئی پھول نے پوری آواز سے دو، تین بار پکارا’، باپو، باپو‘ ساتھ ہی ماما کے ہاتھ میں کاٹ لیا۔

اس کی چیخ پر ہیٹ والے نے بے اختیاری سے ذرا سا گھوم کر پھول کو دیکھا۔ اس کی رنگت کافی پختہ تھی اور وہ سیاہ چشمہ لگائے تھا۔ اگلے ہی لمحے پھول کی ماما کے ہاتھوں سے زور آوری ختم ہوگئی اور اس نے غصّے سے کہا:

’یہ تو نکٹا ہے، کالو۔ یہ میرا باپو نہیں ہے‘ اور زمین پر گر کر سسک سسک کر رونے لگی۔

 ’کیا رات ٹِلّو کا باپ آیا تھا موسی؟‘ ایک کلی کی عمر کا لڑکا برآمدے کے پاس کھڑا اس سے پوچھا رہا تھا۔

پھول گہری نیند میں تھی جس میں نہ کوئی سپنا تھا، نہ چنتا۔ یہ کئی بار کیا ہوا سوال آخر کار اُسے جگانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ جمائی لیتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ ایک بار لڑکے نے پھر سوال کیا: ’ہیں موسی رات ٹلو کا باپو آیا تھا؟‘ اس نے جسم کی ٹوٹ پھوٹ کو دور کرتے ہوئے مری سی مسکراہٹ سے کہا: ’ہاں، آیا تھا۔‘

اس سیریز کے دیگر حصےچالیسواں (2)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).