مَردوں کی جنت میں ریگستان کا سفر


\"humairaاحمد سے کچھ دن پہلے ہی اس کی جان پہچان ہوئی تھی۔ وہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر اس کی زندگی میں آیا تھا.\”میڈم ! آپ بالکل کسی بات کی فکر نہ کریں، اب میں آپ کے ساتھ ہوں۔\” احمد کی باتیں اسے مسحور کر جاتیں اور وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین عورت سمجھتی. اس نے کئی سال بیوگی اور تنہائی میں سلگ سلگ کر کاٹے تھے. جیسے خوشیوں پر اس کا تو حق ہی نہیں تھا. اپنے دو بچوں کی ماں بھی وہی تھی اور باپ بھی. وہ ان کو پال رہی تھی، اپنے ارمانوں کو پل پل کہیں دفن کر کے آگے بڑھ رہی تھی، زندگی کو چلا رہی تھی. احمد کو پا کر وہ خود کو کتنی معتبر اور مضبوط سمجھ رہی تھی. ایک طمانیت کا احساس اس کی ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ مربوط ہو گیا تھا. اس کے من میں خواہشوں اور تمناؤں نے انگڑائیاں لینی شروع کر دیں. اس کی آنکھوں میں خواب رہ رہ کر سجنے لگے تھے۔ اس نے سجنا سنورنا اوڑھنا شروع کر دیا تھا. زندگی اب زندگی لگنے لگی تھی. وہ احمد کو پا کر اتنی خوش تھی کہ اس کے ساتھ آنے والی زندگی کے خواب بُن لیے ۔۔۔۔۔ اور آج — آج تو اسے احمد نے کسی خاص جگہ پر کوئی خاص بات کرنے کے لیے بلایا تھا. اس کے من میں جذبات کا سمندر رہ رہ کر ٹھاٹھیں مار رہا تھا. کیا میں اس قابل ہوں کہ کوئی مجھ سے محبت کرے مجھے چاہے،مجھے سراہے …. وہ بے قابو ہو رہی تھی. آخر ملاقات کا وقت آ ہی گیا ۔۔۔۔۔

\”میڈم! میں تم سے آصفہ کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں، میں اسے پسند کرتا ہوں. دیکھو اس کی زندگی بنا دوں گا. اسے سنوار دوں گا تم فکر نہیں کرنا۔\” احمد گویا ہوا….. وہ چاروں طرف سے برف میں لگ چکی تھی۔ اسے کسی نے جھنجوڑ کر اس سہانے خواب سے جگا دیا تھا۔ وہ تو پہلے ہی یہ خواب دیکھنا نہیں چاہتی تھی. اس کا سر چکرا گیا. ایک لمحے کو اسے لگا کہ ساری کائنات ختم ہو رہی ھے. وہ یہ سہانے خواب سجانے پر بڑی شرمسار تھی. اسے لگا جیسے اس کے زخم کھلے کے کھلے بِن مرہم ہی رہ گئے ہیں. جیون ساتھی کا پیار اس کی زندگی میں اس کے مقدر میں ہے ہی نہیں. اسے اب کسی نے نہیں سنوارنا. وہ اب بالکل بکھر چکی تھی. وہ تو خود ایک ایسا شانہ چاہ رہی تھی جس پر سر رکھ کر رو سکے. دکھ بھول کر جی سکے. اسے لگا کہ وہ بالکل خالی ھاتھ ہے بلکہ اس کے ہاتھ ہی کٹ گئے ہیں… آصفہ اس کی تیرہ سالہ بیٹی تھی. اس نے ایک نظر اس شخص پر ڈالی جس کی اپنی بیٹی سے بھی آصفہ چھوٹی تھی. اسے آج احمد کی آنکھوں میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا سوائے ایک مرد کی ہوس کے …

وہ کچھ کہہ رہا تھا جو اس کو سنائی نہیں دے رہا تھا. احمد کے پاس خود کو اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے ہزاروں دلیلیں تھیں. دلیلیں بھی کتنی عجیب چیز ہیں. انسان دوسروں کے جذبات کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے اپنے فلسفے اور نظریے کو جواز اور دلیل بنا کر پہلے خود کو مطمئن کرتا ہے پھر دوسروں سے اس کی قبولیت کی توقع رکھتا ہے. وہ \”نہ\” نہیں سن سکتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں بس وہی ٹھیک اور بہتر علم والا ہے. وہ مبہوت کھڑی سوچ رہی تھی. اسے خود پر ندامت ہو رہی تھی. اپنے جذبوں پر شرمسار تھی کہ یہ کیوں جگائے. وہ خود کو کسی قابل سمجھے جانے کی غلط فہمیوں سے باہر آ چکی تھی. اسے ایک عورت کی اوقات صاف نظر آ رہی تھی. دل میں کئی سوال اور کئی جواب اور کئی دلیلیں لیے وہ واپس آ گئی. اب اسے مَردوں کی جنت میں ریگستان کا سفر کرنا تھا!

حمیرا جبیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حمیرا جبیں

حمیرا اردو پنجابی اور ایجوکیشن میں ماسٹر ڈگریز رکھتی ہیں اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں. عورتوں کے مسائل اور دیگر سوشل ایشوز پر ہلکے پھلکے منفرد افسانوی انداز میں لکھتی ہیں، تلخ سے تلخ بات بھی گھن گرج کے ساتھ نہیں کہتیں اور زبان کا دھیما پن برقرار رکھتی ہیں

humaira-jabeen has 3 posts and counting.See all posts by humaira-jabeen

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments