ماہواری کے توہمات اور فلم پیڈ مین پر پابندی


حالیہ برسوں میں بالی ووڈ میں کئی ایسی فلمیں بنیں جن میں معاشرے میں رائج غلط رسومات اور عقائد کو چیلنج کیا گیا۔ پی کے، لپ اسٹک انڈر مائی برقع، دنگل، پِنک، ٹوائلٹ ایک پریم کتھا، ان فلموں میں سے چند ہیں۔ ان فلموں کو دیکھنے کے بعد انسان بے اختیار سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ اکشے کمار کی پیڈمین بھی انہی فلموں کی کڑی کا ایک حصہ ہے۔ یہ فلم دوہفتے پہلے ریلیز ہوئی اور پاکستان میں دیکھے بغیر ہی بین کر دی گئی جو کہ کافی مضحکہ خیز فیصلہ لگتا ہے۔ اس فیصلے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سینسر بورڈ کو پاکستانی معاشرے سے متعلق انتہائی درجے کی غلط فہمیاں لاحق ہیں۔ شاید سینسر بورڈ کو لگتا ہے کہ پاکستانی خواتین کو حیض نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو پاکستانیوں کو حیض سے متعلق مکمل آگاہی دی جاتی ہے جس کے بعد پیڈمین جیسی آگاہی فلموں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

پیڈمین کے ذریعے بھارت میں رائج ماہواری سے متعلقہ توہمات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کے کچھ علاقوں میں خواتین ماہواری کے دوران ایک ہی کپڑا بار بار دھو کر استعمال کرتی ہیں، کچھ علاقوں میں خواتین ماہواری کے دوران راکھ کا بھی استعمال کرتی ہیں اور کچھ علاقوں میں ماہواری کے دوران عورت کا بستر ہی الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس فلم کا دوسرا مقصد اروناچلم موروگاننتھم نامی شخص کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا جس نے سستے سینیٹری پیڈز بنائے تاکہ لوگ سینیٹری پیڈز کا استعمال کر سکیں۔

اس فلم کو دیکھنے کے بعد دو باتیں واضح ہو جاتی ہیں، اول یہ کہ بھارت اپنے مسائل سے نظریں نہیں چرا رہا بلکہ ان پر بات کر رہا ہے تاکہ ان کا حل نکالا جا سکے۔ دوسرا یہ کہ بھارت اپنے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جو معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی دونوں کام نہیں ہو رہے۔

ماہواری کا موضوع ہمیشہ سے ہی ممنوع سمجھا جاتا رہا ہے۔ پیڈمین کی ریلیز کے بعد اس فلم پر بہت سے بلاگز اور آرٹیکل لکھے گئے۔ ان میں سے ایک مجھے اچھا لگا اور میں نے اسے اپنی ٹائم لائن پر شئیر کیا۔ دو منٹ بعد مجھے میرے آفس میں کام کرنے والے ایک صاحب کا پرسنل میسج آگیا، کہہ رہے تھے کہ آپ ہر چیز ٹائم لائن پر شئیر کر دیتی ہیں، کچھ دھیان رکھا کریں، ہر چیز شئیر کرنے والی نہیں ہوتی۔ میں ان کا اشارہ تو سمجھ گئی تھی مگر پھر بھی میں نے پوچھا کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے تو وہ کہنے لگے میں یہ بتا بھی نہیں سکتا۔

ماہواری کے متعلق بات نہ کرنے کے علاوہ اس کے بارے میں اور بھی کئی توہمات ہیں جن میں سے بیشتر خواتین کے ہی ایجاد کردہ ہیں۔ اس بلاگ کے لیے میں نے کچھ خواتین سے بھی بات کی تاکہ ان توہمات پر تفصیلاً لکھا جا سکے۔ میری اس بات چیت کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

جن خواتین سے میں نے اس حوالے سے بات کی، ان میں سے بیشتر نے کہا کہ ماہواری کے دوران نہانا نہیں چاہیے ورنہ کسی نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ ایک تئیس سالہ طالبہ نے بتایا کہ اسے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ماہواری کے دوران نہ نہائے کیونکہ ان دنوں میں عورت کا جسم بہت کمزور ہو جاتا ہے اور نہانے سے اس کی ہڈیوں میں ٹھنڈ بیٹھ سکتی ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ انہیں ماہواری کے دوران ناخن اور بال کاٹنے سے منع کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ماہواری کے دوران بال یا ناخن کاٹنے کی وجہ سے ان کی بڑھوتری کم ہو سکتی ہے۔

کچھ خواتین نے بتایا کہ ان کے گھر جب اچار بنایا جاتا ہے تو گھر کی جس خاتون کو حیض ہوئے ہوں اسے اچار کے مرتبان کو ہاتھ لگانے سے بھی منع کر دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ مانا جاتا ہے کہ اگر حیض کے دوران اچار بنانے کے عمل میں ہاتھ بٹایا جائے تو اچار خراب ہو سکتا ہے۔

ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے خاندان میں ماہواری کے دوران خواتین کو سر پر مہندی لگانے سے منع کیا جاتا ہے۔ ان کے خاندان کی کسی عورت نے ماہواری کے دوران مہندی لگا لی تھی جس کے بعد اس کو بخار ہو گیا جو کافی دنوں تک رہا۔ اس واقعے کے بعد اس خاندان کی خواتین ماہواری کے دوران سر کے بالوں میں مہندی یا کسی بھی قسم کا رنگ لگانے سے احترازکرتی ہیں۔

کچھ خواتین نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ماہواری کے دوران پودوں کو پانی دینے سے منع کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے یہ عقیدہ رائج ہے کہ اگر حیض کی حالت میں عورت پودے کو پانی دے تو پودا سوکھ سکتا ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ حیض کی حالت میں باغات میں نہ جائیں ورنہ ان پر کسی جن کا سایہ ہو سکتا ہے۔

ایک خاتون نے بتایا کہ شادی کے بعد جب ان کے ہاں کچھ سال تک اولاد نہیں ہوئی تو ان کی ساس نے کہا کہ یہ ماہواری کے دوران رفع حاجت کے بعد طہارت کرتی ہے اس لیے بانجھ ہو گئی ہے۔
فیس بک کے مختلف گروپس میں بھی میں نے اس حوالے سے خواتین کی رائے جاننے کی کوشش کی مگر وہاں میرا سوال دیکھ کر ایک خاتون نے کمنٹ کیا کہ یہ تو نقلی پروفائل لگتی ہے۔ شاید انہیں ایسا لگا کہ اگر کوئی اس حوالے سے بات کر رہا ہے تو وہ کسی زنانہ پروفائل کے پیچھے چھپا مرد ہی ہو سکتا ہے۔

ماہواری کا موضوع ٹیبو سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے اس کے متعلق عام عوام میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے ان تمام غلط فہمیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں اس میڈیم کو معاشرے میں بہتری لانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ ایسے میں اگر پڑوسی ممالک میں کچھ ایسی فلمیں بن رہی ہیں جو ہمارے معاشرے میں بھی ایک مثبت تبدیلی لا سکتی ہیں اور کسی خاص موضوع کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کر سکتی ہیں تو ایسی فلموں کو سنیما گھروں کی سکرین تک ضرور لایا جانا چاہئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).