پاکستانی بھولے کا اسلام۔ حصہءاول


یہ سنہ 1986 کی بات ہے، میں گورنمنٹ ایم بی ہائی سکول ملکوال میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ عیدِ میلاد النبی ﷺ بالکل قریب تھی اور اسی حوالے سے ہمارے سکول میں بھی تیاریاں جاری تھیں۔ ان تیاریوں میں اک تیاری بارہ ربیع الاول کے دن اک تقریری مقابلہ کی بھی تھی اور یہ میرے بچپن کے دنوں سے ہی ملکوال کے قصباتی مزاج میں خوشی منانے کی تقریبات کا حصہ تھا۔ تقریری مقابلوں میں، میرے اک تعلیمی مقابل، جناب زبیر شاہ صاحب بھی مقرر تھے، میں کبھی بھی مقرر نہ رہا تھا۔

زبیر شاہ صاحب نے عظمت رسولﷺ بیان کرنا تھی اور تقریبا ہر اک تقریر کی طرح یہ ثابت کرنا تھا کہ میرے آقا محمد العربیﷺ کے لائے ہوئے دین سے پہلے کی دنیا میں ہرطرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی اور عالمِ انسانی کے حالات بہت دگرگوں تھے۔ یہ اس وقت تک پاکستانی ریاست اور معاشرتی مزاج کا حصہ بن چکا تھا کہ دینِ اسلام کو اک اجتماعی معاشرتی اکائی کی حیثیت سے دیکھنے کی بجائے ازخود اک الگ پہچان کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ عقلمند لوگوں نے یہ سوچا ہی نہ کہ یہ سلسلہ پھر کہیں رک نہ پائے گا اور عجب کہ عین 1986 سے ہی پاکستان میں شیعہ اور دیوبندی لڑائی کا اک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس میں طرفین نے اپنی اپنی بساط مطابق اک دوسرے کے لیڈرز تو ”پھڑکائے“ ہی، مساجد و امام بارگاہوں کو بھی نہ بخشا۔

خیر اس دن زبیر شاہ صاحب نے ہائی سکول ملکوال کے ہاکی گراؤنڈ میں اپنی تقریر کا آغاز روایتی طور پر سٹیج پر بیٹھے حضرات کی مدح سرائی کے بعد کچھ ایسے کیا کہ ”دنیا میں حضرت محمد ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی تھی اور انسان جہالت کے گھٹا ٹوپ۔ ۔ ۔“ اور عین اس لمحے شاہ صاحب Stage Fright کا ایسا شکار ہوئے کہ ”گھٹا ٹوپ“ کی ”گ“ پر اٹک گئے۔ انہوں نے کئی مرتبہ سرتوڑ کوشش کی کہ اپنے سامنے بیٹھے سینکڑوں کے مجمعے کو اگنور کرتے ہوئے بات آگے بڑھائیں، مگر جیسا کہ پنجاب کے دیہاتی ماحول کا خاصہ ہے کہ یہ کسی کی کمزوری کو نہیں چھوڑتا اور اس کا عموما مزاح بناتا ہے، ان کی دوسری تیسری کوشش پر ہی میدان میں سے ”اوئے اوئے“ ،”رہ گیا ای اوئے“ اور ”ہاہاہاہا“ کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ شاہ صاحب نے بے بسی اور بےچارگی کے عالم میں اپنے بائیں جانب ہم سب کے کیمسٹری کے استاد، جناب رحم دین مرحوم کی طرف دیکھا تو انہوں نے کچھ غضبناکی کو چھپاتے ہوئے انہیں روسٹرم سے ہٹنے کی اجازت دے دی۔

تقریر تو مکمل نہ ہوئی، مگر میرے ان کلاس فیلو کا نام ”باوا ٹوپے شاہ“ پڑ گیا جو بےشک میں اور دیگر ہم جماعت ان کے سامنے بھی کبھی کبھی کہہ کر اک تخریبی مزہ لیا کرتے تھے۔

کیا دنیا اسلام سے قبل بالکل تاریکی اور جہالت کا شکار تھی؟ یہ وہ خیال و سوال ہے کہ جس پر میں اپنی زندگی کے اک لمبا عرصہ تک نہ کچھ سننے کو تیار ہوتا تھا اور نہ ہی کچھ پڑھنے کو۔ میرے نزدیک یہ اک ایسا سچ تھا جو گویا مسلمان ہونے کے بنیادی فرائض میں شامل تھا اور دنیا کو اسلام سے قبل تاریکی اور جہالت میں ڈونا ہوا نہ سمجھنے والا بہتر مسلمان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ شان بلند ہو خدا اور اس کے پہلے حکم ”اقراء“ کی کہ مطالعہ اور پڑھنے کی عادت نے ایسی ایسی نعمتیں عطا کر دکھائیں کہ جن کا مجھ جیسے رند گناہگار کے لیے شمار ہی ممکن نہیں۔

آج اپنی عمر کے بڑے حصے کے گزر جانے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر مذہب اور اس کے ماننے والے کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے ہی مذہب اور اپنے ہی عقیدے کو سچ تسلیم کرے۔ مگر اک سوال یہ ہے کہ اپنے عقیدے کو سچ تسلیم کرنے کے اس بنیادی حق میں یہ کہاں شامل ہے کہ دوسرے عقیدے کو نرا جھوٹ اور باطل تصور کیا جائے؟ آپ اسی سوال کو خود پاکستانی اسلامی تشریحات میں موجود فرقوں کی بحث میں دیکھیں تو یہ خیال کچھ مزید نکھر کر سامنے آئے گا۔

میرا خیال یہ بھی ہے کہ دنیا کا ہر مذہب اپنے ماننے والوں سے اک جذباتی عقیدت اور وابستگی کا اظہار بھی چاہتا ہے اور یہ اس مذہب اور اس کے ماننے والوں کا باہمی حق ہے جس کا احترام خود اس مذہب میں موجود گروہوں اور دیگر مذاہب کو لازما کرنا چاہیے تاکہ اک بقائے باہمی کی صورت پیدا ہوتی ہو۔ ایسا مگر بدقسمتی سے نہیں ہو پاتا اور جدید تاریخ اور زمانہءحال میں، مذاہب اور ان میں پائے جانے والے فرقے، اک دوسرے کی ضد میں ہی زندہ رہنے پر مصر ہیں، اور یہ افسوسناک صورتحال ہے، جو میری بقایا زندگی میں تو بدلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

میرے عزیز دوست، جمشید اقبال نے ہم سب پر ہی اپنے اک مضمون میں ”پاکستانی بھولے“ کی ٹرم تخلیق کی جو اپنے ملک کے علاوہ دنیا کو تسلیم نہیں کرتا، اپنے خطے کی تاریخ سنہء 712 میں محمد ابنِ قاسم کی فتح سے دیکھتا ہے، اپنے ملک کی ارتقائی تاریخ 1947 سے شروع کرتا ہے، اپنے مذہب کو دنیا کے تمام دیگر مذاہب کے رد میں دیکھتے ہوئے اپنے فرقے کو دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے برتر مانتا ہے۔ یہ پاکستانی بھولا، اتنا بھولا بھی نہیں۔ یہ خیال کا بھولا بھلے ہو، گفتار اور کردار کا بھولا نہیں۔ یہ سٹیج پر گالیاں بھی فرماتا ہے اور توڑ پھوڑ بھی کرتا ہے۔ یہ جلاتا ہے، مارتا بھی ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر اپنی گروہی اکثریت کے زعم میں کبھی پاک سیکریٹیریٹ کا گھیراؤ کرتا ہے تو کبھی فیض آباد میں آن دھمکتا ہے۔ یہ بھولا، صرف اس وقت تک بھولا ہے جب تک آپ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے چلے جاتے ہیں۔ جتنا بھی مہذب سہی، کچھ اختلاف تو کیجیے، تو ”تیری پین دی سری“ سے کام شروع ہوتا ہے اور خونریزی پر جا ختم ہوتا ہے۔

تو پاکستانی بھولے سے ڈرتے ڈرتے عرض کرنا ہے کہ اس کا دین، جو کہ میرا دین بھی ہے اپنی اک الگ مذہبی شناخت رکھتا ہے، مگر انسانیت کے اس عظیم سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لیے آیا جو میرے آقاﷺ کی پیدائش کے وقت اور اس کے بعد پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا اور اس سلسلہ کی اپنی اپنی سچائیاں تھیں، ہیں اور رہیں گی۔

انسان، میرے خوشنما دین، اسلام، کے آنے سے قبل بھی اس زمان و مکان میں موجود اپنے لیے ہزاروں سماجی، سیاسی، معاشرتی اور سائنسی کوششوں میں تھا، بہت کچھ حاصل کر چکا تھا اور بہت کچھ حاصل کرنے کی سعی میں تھا۔ بہت سے معاملات میں ناکام ہو چکنے کے باوجود، کامیابی کے لیے ڈٹا ہوا تھا۔ اس وقت اور آج بھی، دنیا میں موجود تمام مذاہب نے اپنی اپنی طرز کے معاشرے قائم کیے تھے اور ان تمام مذاہب کے آنے سے قبل بھی انسان اس جدوجہد میں تھا، جس میں ان مذاہب، بشمول اسلام، کے آ جانے کے بعد رہا۔

پسِ تحریر: یہ دو کالم کی سیریز ہے۔ اگلے حصے میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ دنیا، اسلام کے آنے سے قبل بھی اپنی تہذیب کو اپنے اپنے معاشروں کے یونیک سماجی حالات کے تحت آگے بڑھا رہی تھی اور یہ کہ اسلام اور دیگر ادیان، مکرر، انسانیت کے اس عظیم سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لیے سماجی و معاشرتی حقیقتیں بنے جو ازل سے موجود ہے، تا ابد موجود رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).