امن دنیا کی ضرورت ہے


ہندوستان میں یوں توبہت سے ادیب، شاعر اور دانشورہیں جوبرے زمانوں میں بھی امن کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیںجنھیںبندوستانی انتہاپسند’غدار‘ کہتے ہیںا ور جوپاکستانی ایجنٹ‘کہلاتے ہیں۔ اچاریہ دنابھاوے‘ نرملادیش پانڈے‘ منی شنکر آئیر ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔

اچاریہ ونابھاوے اور نرملادیش پانڈے اپناکام کرکے دنیا سے گزرچکے لیکن منی شنکر آئیر اب بھی یہ کہے جاتے ہیںکہ ان دونوں ملکوں کے بیچ جتنے گمبھیر مسئلے ہیں‘ جتنی غربت اور پسماندگی ہے‘ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ دونوںکے درمیان ہر مسئلے پرمکالمہ ہو۔ ہم اپنے بچوں کو اسی طرح ایک بہتر مستقبل دے سکتے ہیں۔

منی شنکر آئیر جو باتیں کرتے ہیں وہ ہندوستان کے حکمران طبقے میں پسند نہیں کی جاتیں۔ وہ کانگریس پارٹی سے وابستہ ہیں اور گاندھی وادی ہیں۔ امن کے حصول کے لیے کانگریس کے رہنماؤں سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اس کے باوجود ان کے دور حکومت میں امن قائم ہونے کا امکان رہتا تھا۔ سخت جملوں کے ساتھ ہی پس پر دہ امن مذاکرات ہوتے رہتے تھے اور اس ٹریک 2 ڈپلومیسی کاکچھ نہ کچھ نتیجہ بھی نکلتا تھا لیکن مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

یہ تو ہوئی ہندوستان کی بات‘ اب ہمیں اپنے رویوں کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جن کا ایجنڈا عسکریت پسندی ہے اور جوہر وقت امن دشمنی پر کمربستہ رہتے ہیں‘ ان کی نازبرداری ہم بہت کرچکے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت چکے۔ عوامی جمہوریہ چین جس کی ہر بات پر ہم آمناوصدقنا کہتے ہیں‘ اس کے اس رویے پرہم کیوں نظر نہیں رکھتے کہ ہانگ کانگ سے تعلقات کی شدید خرابی کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارت زور وشور سے جاری ہے اور اس تجارت کا چین کو بے پناہ فائدہ ہے۔ ہم نے شاید ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگایا ہے کہ ہندوستان سے دوطرفہ تجارت کی بندش اور سفری پابندیوں نے ہمیں معاشی طور پر کتنا نقصان پہنچایا ہے۔

میرئیڈ کوریگن میگوائرنے درست طور پر لکھا ہے کہ پرامن دینا ہر بچے کا پیدائشی حق ہے۔1976ء کا نوبیل امن انعام شمالی آئرلینڈ کی 2خواتین کو دیا گیا تھا۔ ان دونوں  میں سے بیٹی ولیمز نے نوبیل انعام کی تقریب میں تقریر کی تھی لیکن یہ کوریگن تھی جو اس موقعہ پر خاموش رہی تھی ۔بعد میںاس نے لکھا کہ ایک شیرخوار بچے کی مسکراہٹ سے بڑھ کرکوئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے دل کو سرشار کردے۔ بہت سی مائیں کہتی ہیں کہ جبب بچہ پہلی دفعہ مسکراتا ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ اسے فرشتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ بچے کی طلسمی مسکراہٹ ہم سب کے دل کو مسرت اور سکون سے بھردیتی ہے۔ ایک نوزائیدہ اور شیرخوار بچہ جب ہماری طرف ہمکتا ہے تو وہ ہم سے محبت کا طلب گار ہوتا ہے۔ وہ ہماری انگلی تھام کر چلنا سیکھتا ہے۔ پھولوں پر منڈلاتی ہوئی تتلیوں کا تعاقب کرتا ہے اور ایک ایسے ماحول میں بڑھنا، بولنا اور پڑھنا چاہتا ہے جہاں بارود کی بو اور خوفناک دھماکے نہ ہوں۔

بعض بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ پیدائش کے لمحے سے انھیں یہ سکون مہیا ہوتا ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا کے لاتعداد بلکہ بیشتر بچوں کو تنہائی، تکلیف اور تشدد کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ انھیں چند برسوں میںہی اس تلخ حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے کہ جو دنیا انھوں نے ورثے میں پائی ہے‘ وہ پُر امن دنیا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کی بنیاد میں ظلم‘ غربت‘ تشدد‘ نسل کشی اور جنگ ہے ۔ ناانصافی‘ دکھ اور تنہائی کی اس دنیا میں امن کی تلاش بہت مشکل ہے۔ ایک ایسی تیسری دنیا جو قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے یہاں بچوں پر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں بچے بھوک کے ہاتھوں خاموشی سے مرجاتے ہیں۔

آج ہی یونیسیف نے5 برس کی عمر تک کے بچوں کی شرح اموات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن میں پاکستان کی صورت حال اندوہ ناک ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا میں ہو رہا ہے جہاںSIPRIکے مطابق حکومتیں فوج پر 1686 کھرب ڈالر سالانہ خرچ کررہی ہیں جب کہ ان کے اپنے کروڑوں شہریوںکی غربت اور ناداری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

فرانز اسٹافن گاڈے کا کہنا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج کی ترجیح میںنئے لڑاکا طیارے‘ آبدوزیں‘ جنگی بحری جہاز اور مختلف میزائیل پروگرام شامل ہیں۔ اسلام آباد کے بعض تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ اسلام آبادنے زیادہ بہترایٹمی ہتھیاروںکے لیے ایک ارب ڈالرمختص کیے ہیں۔

امن صرف ہمارا نہیں دنیا کے بیشتر ملکوں میں رہنے والوں کا خواب ہے۔ ان ملکوں میں متعدد ایسی تنظیمیں اور افراد موجود ہیں جو امن کے متلاشی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نفرت اور تشدد کا شکار ہوئے‘ جنھوں نے امن سے نفرت کرنے والے دیوانوں کے ہاتھوں اپنے پیارے کھودیے۔ ان میں سے کچھ نے جانے والوں کا غم تنہائی میں منایا اور کچھ ایسے بھی تھے جو عسکریت پسندوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ انھوں نے نفرت کرنے والوں کا مقابلہ نفرت سے نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم زمین میں ببول بو کر پھو ل نہیں اگا سکتے۔

پاکستان اور ہندوستان جس انتہاپسندی اور متشدد بیانیے کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ اس سے نکلنے اور نکالنے کے لیے لازم ہے کہ ہم عقلی سطح پر لوگوں کو بتائیںکہ ہماری تمام اذیتوں اور عذابوں کا سبب انتہا پسندی‘ عدم برداشت اور انسان دشمنی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایسی متعدد تنظیمیں اور افراد ہیں جو اپنی بساط کے مطابق متاثرہ لوگوں کے زخموںپر مرہم رکھتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ نفرت مزید نفرت کو جنم دیتی ہے اور امن شمنی ہماری نسلوں کو کچھ اور پسماندہ، کچھ اور غریب کردیتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں یہ خیال پروان چڑھایا گیا ہے کہ ہمارے پاس جس قدر خوفناک ہتھیاروں کے ذخائر ہوں گے‘ ہم اتنے ہی طاقت ورہوں گے۔یہ بات ذرا کم ہی لوگ سوچتے ہیں کہ مفلس، ناخواندہ اور بھوکے لوگوں کی کروڑوں پر مشتمل آبادی بھلا کس طرح کسی ملک کی ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔

امن کے حوالے سے شمالی آئرلینڈ کی میرئیڈ کوریگن میگوار نے اپنی ایک تحریر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ہم جائزہ لیں کہ تشدد کی سیاست اور ٹیکنالوجی نے ہمیں آج دیا کیا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیںکہ ہم آج ایک احمق زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں پر اربوںڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ ان کا استعمال اگر ساری زمین کو نہیں تو کروڑوں لوگوں کو ملیامیٹ کر سکتا ہے۔

یہ اخراجات اس وقت ہورہے ہیں جب دنیا میں ہر سال لاکھوں بچے بیماریوں اور فاقوں سے مرجاتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میںہر سال 56لاکھ بچے ناکافی غذا کی وجہ سے مرجاتے ہیں حالانکہ دنیا کی اکثر حکومتوں کے پاس اس فاقہ زدگی اور مصائب کے خاتمے کے لیے وسائل اور صلاحیت موجود ہے۔ کیا یہ بے عقلی نہیں ہے کہ بعض ملکوں کی حکومتوں کو سز ا دینے کے لیے ان  پر پابندیاں عائد کردی جائیں جب کہ ان پابندیوں کا نتیجہ صرف بے سہارا لوگوں، غریبوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھگتنا پڑتا  ہے۔ کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی عراق پر پابندیوں کے نتیجے میں عراق کے اندر ایک مہینے میں 4500 بچے مرجاتے تھے۔کیا یہ دیوانگی نہیں کہ تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو غذا‘ دوائیں اور زندگی کی دیگر ضروریات مہیا کرنے کی بجائے انھیںتباہ کن ہتھیار مہیاکیے جاتے ہیں۔ کیایہ حماقت نہیںہے کہ امریکا اور یورپی برادری جس میں برطانیہ بھی شامل ہے‘ غریب ملکوں کو اسلحے کا70 فیصد مہیا کررہے ہیں۔

ان غریب ملکوں میں سے کچھ اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں اپنے آپ کو دیوالیہ کرلیتے ہیں اور پھر یہ اسلحہ فوجی حکومتیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ ہندوستان کی حکومت فوجی ضرورتوں پر بے تحاشہ سرمایہ خرچ کررہی ہے جب کہ اس کے کتنے ہی لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ کیا اسے خودکشی نہیںکہا جائے گاکہ ہوا میں آلودگی بڑھائی جارہی ہے‘ سمندرکو زہریلا کیا جارہا ہے‘ تابکاری مادوںکا ذخیرہ کیا جارہا ہے اور اوزون کے غلاف کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اپناکھانا چنتے ہوئے بچے کسی انسانی شرف اور امید سے محروم ہیں۔ ایک ایسی دنیا جس میں برساتی جنگلات اور پانی کے ذخیروں جیسے قدرتی وسائل کو ہم بے تحاشا استعمال اور تباہ کرتے ہیں اور ایک ایسی دنیا جو ہوسکتا ہے مستقبل میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے قطعاً ناقابل رہائش ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جو غیر منصفانہ اور متشدد ڈھانچے پر تعمیر کی گئی ہے اور جہاں انسانی حقوق نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں لاتعداد بچے تشدد سے پیدا شدہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں وہاں پر امن بستیوں کا خواب بھلاکس طرح دیکھا جا سکتا ہے۔

چند دنوں پہلے ہم نے ایک امریکی اسکول میں ہونے والے قتل و غارت کے مناظر دیکھے ہیں۔ وہ نوجوان جوکسی قصور کے بغیر مارے گئے ان کی لاش دیکھ کر دل ٹکڑے ہوتا ہے‘ اسی طرح وہ نوجوان جس نے اندھا دھند گولیاں چلا کراپنے ہی ساتھیوںکوموت کے گھاٹ اتارا‘ اس کا چہرہ بھی امریکی سماج سے اور تمام دنیا کے جنگ پسندوں سے سوال کرتا ہے کہ تم لوگوں کی سفاکی اور تشدد پر اکسانے کے رویے نے جیتے جی مجھے کس جہنم میں دھکیل دیا؟ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی ہویا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی جنگ کی آگ نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور محبت کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کردیا ہے۔

ہم پیدا ہوئے ہیں پرامن بستیوں اور بازاروں میں ہم اس دنیا کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں انصاف امن اور جمہوریت ہو‘ جہاں ہم اور ہمارے بچے سکون  سے رہ سکیں‘ جہاں ہمارے بچوں کی انگلیاں رائفل کی لبلبی نہ دبائیں‘ وہ موت کا پروانہ بانٹنے کی بجائے ان انگلیوں سے مصوری کریں۔ کہانیاں لکھیں اور دنیا جو ہزاروں برس سے ہمارا گھر رہی ہے ہم اسے ایک خوبصورت جگہ بنانے کے سفر پر نکلیں۔ وہ سفر جو ہمیں ایک پُرامن اورپُرسکون دنیا کا راستہ دکھاتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).