وسعت مطالعہ اور بے یقینی کی مشقت
جب ہمارا مطالعہ وسیع ہو جاتا ہے اور ہم تمام مکاتب فکر کی آراء سے واقف ہو جاتے ہیں تو سب سے بڑی کشمکش جس کا ذہن سامنا کرتا ہے وہ ہے ان نظریات یا آراء میں سے کسی ایک کو حتمی قرار دینا ….
جتنا مطالعہ وسیع ہو گا اتنی شدید ذہنی کشمکش ہو گی اور نتیجے میں آدمی اتنا غیر یقینیت کا سامنا کرے گا- میری ذاتی رائے میں وسعت مطالعہ شدت پسندی کا تریاق ہے – وسعت مطالعہ بے یقینی پیدا کرتا ہے، یوں آپ میں اپنی رائے کی ضد اور بے جا اصرار ختم ہو جاتا ہے – یہ آپ کو ذہنی طور پر لبرل یعنی آزاد خیال بناتا ہے چاہے آپ کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہے –
عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ شدت پسند چاہے ان کا تعلق مذہب سے ہو یا وہ غیر مذہبی ہوں، ان میں دوسروں کی آراء کی سمجھ کا شدید فقدان پایا جاتا ہے- ایک تحقیق کے مطابق مذہبی شدت پسند تنظیموں میں پڑھے لکھے افراد میں سے نوے فیصد افراد کا تعلق ریاضی، انجینرنگ، اور نیچرل سائنسز سے تھا کیونکہ یہ وہ علوم ہیں جن میں خیالات کے تنوع (جو سوشل سائنس کا خاصہ ہے) کے بجائے \”دو جمع دو چار\” کی یقینی کیفیت پائی جاتی ہے، اور یقین پر یہی اصرار مذہبی فکر میں بھی ان کی نفسیات کا حصہ بنا-
حصول علم میں سب سے بڑی مشکل بے یقینی ہے، ایسے میں تصوف کا غوطہ بعض تھکے ہارے اذہان کو ذہنی سکون دینا ہے جس میں آپ سب ذہنی مشقت چھوڑ کر کسی اشلوک اور شبد کا ورد یا جاپ شروع کر دیتے ہیں یا ہر قابل مشاہدہ کو وہم قرار دے کر لا شعور کی وادی میں مست سو جاتے ہو- واضح رہے کہ میں نے تصوف کے رد کی کوشش نہیں کی بلکہ بعض ذہین ترین افراد کے ذاتی رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے –
مگر یہ بھی سنا ہے کہ وہ لوگ جو غیر یقینیت کی مشکل سے گزر گئے انہوں نے سوشل سائنسز، فلسفہ، اور دیگر تمام علوم میں بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں- میری رائے میں، ہر نظریہ کے باشعور رد کے بعد کسی ایک نظریہ کی تشریح میں ساری زندگی بسر کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے-
خاکسار تو ابھی تک غیر یقینیت یعنی بے یقینی کے انگاروں پر لوٹ رہا ہے، اور نہیں معلوم کہ کبھی یقین کی منزل حاصل بھی ہو گی یا تصوف کے کسی گوشے میں تھکا ہارا جا گروں گا –
ہاں ایک چیز پر یقین قائم ہوا ہے وہ بقول ڈیکارٹ یہ ہے کہ \”میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں\”- اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ تمام انسان اپنی انفرادیت میں یقینا جی رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں- یہی وہ واحد سبق یا سمجھ ہے جو مجھے اچھا یا برا لبرل بناتی ہے کیونکہ اس سے میرے اندر ہر فرد کی آزادی کی خواہش پیدا ہوتی ہے –
جہاں تک بطور لکھاری اپنے کردار کا تعلق ہے، اس میں میں نے استاد محترم وجاہت مسعود کی بات پلے باندھ لی ہے کہ صرف اپنا فہم دانشورانہ مکالمہ میں پیش کرو ، مؤقف کی ضد پر نہ بیٹھو، اور پڑھنے والے کو صحیح یا غلط کا فیصلہ کرنے میں آزاد چھوڑ دو\” بس یہی وہ منطق ہے جو مجھے اپنا فہم پیش کرنے کے قابل بناتی ہے- ممکن ہے آج جسے میرا فہم صحیح کہہ رہا ہے کل کو وہ فریب ذہن و نظر قرار پائے مگر مکالمہ میں شامل رہنا سچائی کی کھوج میں رہنے کے مترادف ہے –
- حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات - 19/05/2021
- مولانا طارق جمیل سے اختلاف کس بات کا ہے؟ - 03/05/2021
- کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟ - 28/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).