تیرہ منٹ کا محسن


اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے بے یقینی سے میری جانب دیکھا اور دھیمی آواز میں سوری کہا اور پھراٹھ کر باہر نکل گیا۔ مارے غصے کے میرا برا حال ہو گیا۔ میرے قیمتی تیرہ منٹ ضائع ہو چکے تھے۔

تیرہ منٹ پہلے میرے دفتر میں وہ نوجوان داخل ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی مجھےاندازہ ہو گیا کہ وہ شدید کشمکش کا شکار ہے۔ میں جلدی جلدی اپنا کام سمیٹنے میں مصروف تھا۔ میں نے اپنا موبائل فون آف کر رکھا تھا اور دفتر کا فون بھی اٹھا کر سائیڈ پر رکھا ہوا تھا۔ میں کام کے دوران مداخلت پسندنہیں کرتا۔ پھر بھی اپنا کام روک کر میں نے اس کا استقبال کیا اور اس کو کرسی پیش کی۔ وہ یوں کرسی میں گرا جیسے میلوں پیدل چل کر آیا تھا۔ میں نے اس کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا۔ اس نے ایک ہی سانس میں آدھا گھونٹ بھر کر گلاس مجھے واپس کر دیا۔ میں نے پانی کا گلاس لے کر سائیڈ پر رکھا اور اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگاساتھ ہی ساتھ میں نے اس کا جائزہ لیا۔ اس کے ماتھے پر پیسنے کے قطرے تھے۔ بال بے ترتیب ہو رہے تھے۔ جوتوں کا حال برا تھا اور ان پر مٹی کی تہ جمی ہوئی تھی۔ لباس سے بہت زیادہ خوش حال معلوم نہیں ہوتاتھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے کسی قسم کی مدد کا سوال کرے گا۔ میں اس کے بولنے کا منتظر تھا مگر وہ جیسے بولنا بھول چکا تھا۔ خاموشی سے میز کی سطح کو گھورے جا رہا تھا۔ مجھے بے چینی ہونے لگی۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ میں اپنے وقت کا ایک ایک منٹ سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہوں۔ میرے نزدیک دنیا میں وقت سے زیادہ ضائع ہونے والی چیز اور کوئی نہیں ہے۔ لوگ بے دردی سے وقت برباد کرتے ہیں۔ وہ نوجوان بھی میرا وقت برباد کر رہا تھا۔ مجھ پر جھنجھلاہٹ طاری ہونے لگی تھی مگر میں نے خود پر کنٹرول رکھا اور کوئی سخت بات کہنے سے گریز کیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ نوجوان کچھ بولے۔ اپنا مدعا بیان کرے تاکہ میں سمجھ سکوں کہ وہ میرے پاس کیوں آیا ہے۔ مگر وہ مسلسل میرے صبر کا امتحان لینے پر تلا ہوا تھا۔ جب سات منٹ تک وہ کچھ نہ بولا تو میں نے کھنکار کر اس کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ میں نے نرم آواز میں اس سے سوال کیا کہ بیٹا آپ کون ہیں اور مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ نوجوان کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ میری بات کو سمجھ نہیں پایا۔ وہ لاتعلق انداز میں میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں وہ کوئی نفسیاتی مریض نہ ہو۔ ایسے لوگ کبھی کبھار خطرناک بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر نوجوان کے انداز سے جارحانہ پن ظاہر نہیں ہو رہا تھا بلکہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ذہنی طور پر یہاں موجود ہی نہ ہو۔بالآخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اور میں نے قدرے سخت لہجے میں اس سے سوال کیا کہ وہ کون ہے اور کس لیے یہاں آیا ہے۔ نوجوان کی آنکھوں میں خوف ابھر آیا۔ مجھے اپنے روئیے پر افسوس ہوا مگر آپ خود سوچیئے کہ یوں اچانک اگر کوئی آپ کے سامنے آ کر بیٹھ جائے اور مسلسل آپ کے صبر کا امتحان لینا شروع کر دے تو آپ کتنی دیر تک صبر سے کام لیں گے؟

صبر کے گھونٹ پیتے ہوئے میں نے حوصلہ افزا انداز میں اس کی جانب دیکھا۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے سختی پر مجبور ہونے سے پہلے ہی اپنا مدعا بیان کر دے تاکہ اگر میں اس کے کسی کام آ سکتا ہوں تو آ جاؤں ورنہ معذرت کر کے اپنے کام سے لگوں۔ مگر وہ بھی اپنی نوعیت کا ایک ہی انسان لگ رہا تھا۔ میرے اندر جاری کشمکش سے قطعی طور پر لاعلم وہ نوجوان اب خوف زدہ نظروں سے مجھے گھورے جا رہا تھا ۔ جیسے میں نے اس سے کوئی ایسی بات کر دی ہو جس سے اس کو اپنی جان کا خوف پیدا ہو گیا ہو۔ مجھے اپنی بیوی کا خیال آ گیا۔ آج میری بیوی نے صبح مجھے گھر جلدی واپس آنے کی تاکید کی تھی۔ آج شام کو گھر پر میرے والدین آ رہے تھے۔ وہ ایک دوسرےشہر میں رہتے تھے۔ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی ملازمت کی وجہ سے علیحدہ رہتا تھا۔ میری نظر گھڑی پر پڑی۔ پانچ بجنے والے تھے۔ مجھے اپنا کام سمیٹ کر گھر کے لیے روانہ ہونا تھا۔ مگر میرے راستے میں ایک رکاوٹ کی طرح وہ نوجوان موجود تھا جو پچھلے آٹھ منٹ سے ایک بھی لفظ بولے بغیر میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اور پھر مجھے شدید غصہ آ گیا۔ میں نے لحاظ کو بالائے طاق رکھا اور نوجوان کو کھری کھری سنانی شروع کر دیں۔ جو میرے منہ میں آیا میں بولتا چلا گیا۔ میں نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ مجھے اپنے والدین سے ساتھ وقت گذارنا ہے جو میرے گھر پہنچنے والے ہیں اور وہ میرے سامنے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا میرا وقت ضائع کر رہا ہے۔ تقریباً پانچ منٹ تک میں بولتا چلا گیا۔جب میں خاموش ہوا تو اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے دھیمی آواز میں سوری کہا اور اٹھ کر باہر نکل گیا۔ مارے غصے کے میرا برا حال ہو گیا۔ میرے قیمتی تیرہ منٹ ضائع ہو چکے تھے۔

میں ایک پرائیویٹ اسپتال کا ایڈمنسٹریٹر ہوں اگرچہ ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میری اجازت کے بغیر اس اسپتال میں کچھ نہیں ہوتا۔ میں شدید اشتعال کے عالم میں اٹھ کر کمرے سے نکلا تو میرا اسسٹنٹ گم صم بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس سے نوجوان کے بارے میں پوچھا تو اسسٹنٹ نے بتایا کہ وہ چلا گیا ہے۔ اسی وقت میری نظر دو اسٹریچروں پر پڑی۔ دونوں پر سفید چادر سے ڈھکے ہوئے بےجان جسم موجود تھے۔ اسسٹنٹ کے ضبط کے بندھن گویا ٹوٹ گئے اور اس نے روتی ہوئی آواز اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مجھے بتایا کہ ہائی وے پر میرے والدین کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور دونوں موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے۔ وہ نوجوان ان دونوں کی میتیں اسپتال لے کر آیا تھا۔ اور جاتے جاتے میرے تیرہ منٹ احسان کی صورت میرے منہ پر مار گیا تھا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad