جمہوریت کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟


ملک میں نواز شریف کی نااہلی اور ان پر بدعنوانی کے الزامات کے ہنگام میں جمہوریت موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی اہم ترین پوزیشن پر فائز شخص کے خلاف سپریم کورٹ کے دوٹوک فیصلہ کے بعد اس بات کی جے جے کار ہوتی کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ کون شخص کس عہدہ یا پوزیشن پرکام کررہا ہے، انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کسی بھی شخص کے خلاف ویسی ہی کارروائی ہوسکتی ہے جس کا مظاہرہ کسی عام شہری کی بداعتدالی پر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس نہ صرف ملک کے تجزیہ نگار اور مبصر بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے والے ادارے بھی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کے دوسرے دور میں اگرچہ دوسری حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ برطانوی ادارے دی اکانومسٹ کے تازہ ترین ڈیموکریٹک انڈیکس میں پاکستان میں جمہوریت کی پوزیشن زوال پذیر دکھائی گئی ہے۔

یوں تو پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے ماضی میں اپنے ہی ایک وزیر اعظم کو ’انصاف ‘ کا پرچم بلند رکھنے اور ’قانون کی بالادستی‘ کے لئے پھانسی دے دی تھی۔ اگرچہ بعد میں پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں اکثریت ملنے کے بعد اور ذوالفقار علی بھٹو کے جرم کے حوالے سامنے آنے والے نئے حقائق اور ابھرنے والی تفہیم کے بعد قومی اسمبلی نے ایک قرار داد کی صورت میں بھٹو کو دی جانے والی سزا کو عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ لیکن اس قرار داد کی حیثیت بھی ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمزور کسی تگڑے سے مار کھانے کے بعد اسے گالی دے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عملی طور سے ملک کے سب سے طاقتور ادارے کی اس قرار داد کے بعد سابقہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھٹو کیس پر نظر ثانی کی درخواست دائر ہونے کے باوجود ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو اپنے دامن پر لگے بدنامی اور شرمندگی کے اس داغ کو مٹانے ضرورت محسوس نہیں ہوئی یا پھر وہ نئے وزیر اعظموں کو ان کی اوقات یاد دلوانے میں اس قدر مصروف رہی کہ بھٹو کیس پر تاحال اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔

پہلے یوسف رضا گیلانی کو چلتا کیا گیا اور اب نواز شریف سپریم کورٹ کے انصاف کی کسوٹی پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے انصاف کی یکساں فراہمی کے اس طرز عمل کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کو کمزور اور رو بہ زوال قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کا ادارہ بننے کی بجائے اختیارات کا مرکز بننے کی کوشش کررہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان وکیلوں کی فوج کے ساتھ ان مسائل کو حل کرنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں جن سے نمٹنے کی ذمہ داری منتخب نمائیندوں پر عائد ہوتی ہے۔ ملک میں عام تاثر قائم ہے کہ عوام کے ووٹ لے کر منتخب ہوکر آنے والے اکثر نمائیندے اور ان کے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں بدعنوان اور مفاد پرست ہوتی ہیں۔ وہ ملک کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ تو کرتی ہیں لیکن عام شہریوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی عدلیہ کو بار بار چھوٹے چھوٹے معاملات میں مداخلت کرکے امور حکومت کی اصلاح کرنا پڑتی ہے۔

یہاں تک بھی معاملہ قابل فہم ہو سکتا ہے ۔ لیکن عدالتوں کو عوامی بہبود کے کاموں سے دور کرنے کی خواہش کرنے والے عناصر یہ شبہات پیدا کررہے ہیں کہ عدالتیں قانون یا آئین کی سربلندی کی بجائے، ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت یا آمریت ۔۔۔ اس ملک میں ستر برس تک معاملات کواپنے ڈھب پر چلانے والی قوتیں کسی ایسی جمہوری قوت کو ابھرتا دیکھنے کے لئے تیار نہیں جو براہ راست ان کے کنٹرول میں نہ ہو۔ اسی لئے جب تک نواز شریف جمہوریت کے نام پر درپردہ قوتوں کے آلہ کار کے طور پرکام کرتے رہے، انہیں دو تہائی اکثریت بھی ملتی رہی اور عزت و احترام بھی فراہم کیا گیا۔ لیکن جب انہوں نے رائے دینے اور فیصلے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کے پر کاٹنا ضروری سمجھا گیا۔ قانون کی بالادستی کے موجودہ دور میں سپریم کورٹ کے ذریعے یہ کام کرنا سہل بھی ہے اور اس پر انگلی اٹھانا بھی آسان نہیں ہوتا۔

لیکن قانونی اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق ایک بد عنوان وزیر اعظم یا پارٹی سربراہ سے لوگوں کی جان چھڑانے کا عظیم کارنامہ سرانجام دینے والے ججوں پر پھر بھی الزام تراشی کا سلسلہ کیوں جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری ادارے معذور اور بے اختیار ہیں اور غیر جمہوری ادارے پارلیمنٹ کے خلاف اپنی قوت آزما رہے ہیں۔ کبھی ڈان لیکس کے نام پر فوج قومی مفاد اور سلامتی کو لاحق خطرات پر پیچ و تاب کھاتی ہے، کبھی سپریم کورٹ اس بات پر ناراض ہوجاتی ہے کہ اپنے بیٹے کی کمپنی میں کام کا معاوضہ کیوں نہیں لیا۔ ایسے میں سوال ہے کہ اگر سپریم کورٹ چور کو چور کہتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ بات تو درست ہے بس اسے ثابت کرنا باقی ہے۔ سارا قضیہ دراصل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ کہ اگر کسی معاشرہ میں جمہوریت کو قبول کرنا ہے اور قانون کے مطابق قدم آگے بڑھانا ہے تو چور کے بارے میں خواہ کتنا ہی یقین کیوں نہ ہو جب تک کسی عدالت میں اسے ثابت نہیں کیا جائے گا اور اس چوری کے شواہد پیش نہیں کئے جائیں گے، اس وقت تک اس قسم کے کسی بھی فیصلہ کو جمہوریت پر حملہ اور قانون کی توہین قرار دیا جائے گا۔ تو کیا ملک کی سپریم کورٹ اس کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ ماضی کا تجربہ اس بارے میں شبہات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

جب سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کا مدعا ایک فرد کی غلطی پر اسے سزا دینا ہو لیکن اس کے نتیجے میں سینکڑوں منتخب نمائیندوں کا استحقاق مجروح ہو جیسا کی انتخابی ایکٹ مجریہ 2017 کے فیصلہ میں ہؤا ہے تو اس شبہ کو تقویت ملتی ہے۔ جب عدالت وزیر اعظم پر ہاتھ ڈالنے کی جلدی میں ہو لیکن ججوں کے خلاف بدعنوانی کے معاملات کا فیصلہ کرنے میں تساہل سے کام لینے پر مجبور ہو تو یہ شبہ یقین میں بدلنے لگتا ہے۔ جب قانون کا ایک اصول منتخب لیڈر کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے لیکن اسی قانون کا مضحکہ اڑا کر بیرون ملک بھاگ جانے والے فوجی آمر کے بارے میں قانون اور عدالت کی رسی دراز رہتی ہے تو الزام تراشی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک صوبے میں کی جانے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور دوسرے صوبے میں ایک پارٹی کے حصے بخرے کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ’آپریشن‘ سے قانون یا عام شہری کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا لیکن واجب الادا تنخواہ وصول نہ کرنے والا شخص جھوٹا اور خائن قرار پائے تو لگتا ہے کہ انصاف کا ترازو ڈول رہا ہے۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ جب عوام کو دھوکہ دے کر منتخب ہونے والے لوگ بد دیانت اور بے ایمان ہیں اور وردی پوش فوجیوں یا عبا پوش منصفوں کو بار بار ان بے ایمانوں کا راستہ روکنے کے لئے متحرک ہونا پڑتا ہے تو اس ملک میں جمہوریت کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ اس وقت دراصل اسی تفہیم کے لئے ملک میں گروہ بندی عروج پر ہے۔ ایک گروہ مانتا ہے کہ ایسی جمہوریت نہیں چاہئے جس میں منتخب لوگ صرف اقتدار اور مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ بار بار ووٹ دینے کے راستے پر چلنے سے کبھی نہ کبھی ان بدعنوانیوں کا راستہ روکا جاسکے گا۔ لیکن فیصلوں کا اختیار اگر ان بے چہرہ قوتوں کو حاصل رہا جو عوام کی رائے کا احترام غیر ضروری سمجھتی ہیں، تو سب شہریوں کو انصاف فراہم کرنے والے معاشرہ کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ انصاف اور بنیادی حقوق کی فراہمی عدالتی فیصلوں، درپردہ سازشوں اور قومی مفاد کی خود ساختہ تفہیم کی محتاج نہیں ہو سکتی۔ شہریوں کی برابری بنیادی انسانی حق ہے، جس کو حاصل کرنے کا واحد راستہ جمہوری اصولوں پر استوار نظام ہے۔

اس وقت ملک میں جاری جد و جہد اسی اصول کو تسلیم یا مسترد کرنے کے لئے ہو رہی ہے۔ سوال سیاست دانوں کی ایمانداری کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا فیصلوں کا اختیار چند طاقتور اداروں کو حاصل رہے گا یا یہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو منتقل ہو سکے گا۔ اس سوال کا جواب ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ لوگوں کے ووٹوں سے بننے والے اس نادر روزگار ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali