باکو میں خوبصورت عورتیں بھی نظر آئیں؟


واقعی خوش ہو کر ان دونوں خواتین کے ساتھ مسکراتے ہوئے سلفیاں بنا کے میں اسی مسکان کے ساتھ سات زینے چڑھ کر سڑک پر آیا اور ترنگ میں غالباً کسی اور طرف ہو لیا۔ سوچتا بھی گیا کہ اس راستے سے تو نہیں آیا تھا مگر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ شکر ہے کہ مجھے سڑک کا نام یاد تھا۔ کسی بھی شہر میں بسنے والوں کو اپنے شہر کے ہوٹلوں کے نام کہاں یاد ہوتے ہیں۔ ایک مرد سے عزیر حاجی بائیو سٹریٹ کا پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ ایک دو نوجوانوں سے پوچھا تو انہوں نے غیر ملکی جان کر مسکراتے ہوئے انگریزی میں نو ہی کہا۔ ایک معمر روسی جوڑا چہل قدمی کو نکلا ہوا تھا۔ خاتون نے استفسار پر انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ سمجھایا کہ آپ متوازی سڑک پر ہیں، دوسرے اشارے سے دائیں کو ہو لیں تو مطلوبہ سڑک پر پہنچ جائیں گے۔ سڑک پر لوگ کم ہو رہے تھے۔ ٹیکسیاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ تھوڑا سا گھبرایا بھی مگر اتنا نہیں جتنا حج تمام کرنے کے بعد منٰی سے پیدل چلتے ہوئے ہوٹل پہنچنے کی مہم جوئی میں گم ہو کر گھبرایا تھا اور رات کے پچھلے پہر تک خوار بھی۔ بس ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے کہا ٹیکسی والے سے پوچھ لیں۔ پوچھا کہاں ہے ٹیکسی تو اس نے سڑک پر کھڑی ٹیکسی کی جانب اشارہ کیا۔ اس میں بیٹھا ڈرائیور فون پر بات کر رہا تھا۔ میری ایک ہی دستک پر اس نے اپنے ہم کلام سے معذرت کرکے کھڑکی نیچے کی۔ روسی زبان سے تقریباً نابلد ہوتے ہوئے اس نے مجھے سمجھا دیا کہ دور نہیں بس آگے سے بائیں ہو لیں۔ کسی سے پوچھ لینا کیونکہ گنج علی پلازا ہوٹل سڑک سے ہٹ کر اندر کی جانب ہے۔ آگے مجھے وہ چھوٹا پارک دکھائی دیا جو ہوٹل سے بڑی سڑک پر نکلتے ہی تھوڑی دور تھا۔ ہوٹل پہنچ کر الیکٹرانک کنجی کارڈ لیا اور شلوار قمیض پہن کر بستر پر دراز ہو، فیس بک سے اٹھکھیلیاں شروع کر دیں۔
ماسکو اور یہاں کے وقت میں ایک گھنٹہ کا فرق تھا یعنی باکو میں ایک گھنٹہ زیادہ تھا۔ میں نے گھڑی پر وقت تبدیل نہیں کیا تھا کیونکہ موبائل پر خود بخود تبدیل ہو گیا تھا البتہ یہ کہ فون آن کرتے ہی مقامی اور ماسکو کا وقت دو گھنٹے کے فرق سے ظاہر ہوتا تھا جو غالبا” موسم گرما کا تھا۔


نئی جگہ پر پہلی شب خوابی میں نیند اکثر نہیں آتی۔ چنانچہ تین چار گھنٹے سونے کے بعد ہی اٹھ بیٹھا۔ فجر کی نماز پڑھی۔ موبائل پر پاکستانی اخبارات دیکھے۔ ہم سب ڈاٹ کام پر کچھ مضامین پڑھے۔ ناشتے کے لیے ریستوران تو آٹھ بجے سے دس بجے تک کھلنے سے متعلق بتایا تھا ریسیپشن والوں نے مگر مجھے بیڈ ٹی لینے کی بہت پرانی عادت ہے چنانچہ ساڑھے سات بجے فون کرکے چائے کی پیالی منگوا لی۔ آذربائیجان چائے پیدا کرنے والا ملک ہے۔ بہت عرصے بعد چائے میں چائے کی پتی کا حقیقی ذائقہ محسوس ہوا۔ نہا دھو کر شلوار قمیص میں ہی، قریب نو بجے ناشتہ کرنے ریستوران میں گیا۔ کئی طرح کے پنیر، گوشت کے انواع و اقسام کے سرد پارچے، کٹے ہوئے تازہ کھیرے اور ٹماٹر، بھنے آلو کے قتلے، دودھ سے تیار کردہ مختلف چیزیں اور دلیہ ناشتے میں تھے، ساتھ میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے، چائے اور کافی کے علاوہ دو تین طرح کے جوس بھی۔ جانور کی باقیات کو تو میں ناشتے میں چھوتا تک نہیں ہوں چنانچہ ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، پنیر کی دو اقسام اور کٹے ہوئے کھیرے ٹماٹر نوش جان کر کے چائے پی اور پھر سے کمرے میں چلا گیا۔


میں نے رات کو ہی واٹس ایپ پر دبئی میں سونی کے اہلکار محمد ولید کو پیغام دے دیا تھا کہ وہ پہنچیں تو مجھے اسی میڈیم پر مطلع کریں۔ کمرے میں بیٹھا بیٹھا اکتا گیا چنانچہ پتلون کوٹ پہن کر نیچے اترا اور پوچھا ماریوت ( میریٹ ) کہاں ہے۔ ولید اور سونی کے جاپانی ڈائریکٹر کا قیام اسی ہوٹل میں طے تھا۔ ریسیپژن پر بیٹھی خوش اخلاق اور خوش گل خاتون نے بتایا کہ بالکل نزدیک ہے، دروازے سے نکلتے ہی بائیں کو ہو لیں اور عمارت کے آخر میں پھر بائیں کو مڑ جائیں۔ آپ کو دکھائی دے جائے گا۔ ارے میں تو چار منٹ میں میریٹ کے عقبی دروازے سے داخل ہو چکا تھا، خیر پورا لاؤنج عبور کرکے ریسیپشن پر پہنچا جہاں “حسین” کی نیم پلیٹ والے ایک وجیہہ نوجوان ریسیپشنسٹ سے ولید کا پوچھا۔ اس نے کمپیوٹر سے تصدیق کرکے بتایا کہ ان کی بکنگ تو ہمارے ہاں ہی ہے مگر ابھی پہنچے نہیں۔ میں انتظار کرنے کی خاطر لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا۔ پھر کچھ سوچ کر حسین سے وائی فائی کا پوچھا تو اس نے کہا فون مجھے دیجیے۔ فون دیا تو اس نے وائی فائی آن کر دیا۔ میں نے ولید کو میسیج دیا کہ میں میریٹ کے لاؤنج میں ریسیپشن کے سامنے بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ کوئی پونے بارہ بجے ولید کا میسیج ملا کہ وہ ابھی طیارے سے باہر آئے ہیں اور کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ پھر بھی آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ میری نگاہیں شیشے کے پار باہر ہی کی جانب تھیں۔ ایک ٹیکسی سے ایک جاپانی اترا اور سوٹ کیس لے کر دروازے کی جانب چل پڑا۔ دوسرا شخص ٹیکسی کو ادائیگی کرکے جاپانی کے ساتھ آ ملا۔ میں بھی اٹھ کر انہیں ملنے کے لیے آگے بڑھا۔ ولید سے ہاتھ ملا کر کہا، میں تو سمجھا تھا کوئی ادھیڑ عمر ہوگا، تم تو جوان نکلے۔ وہ بس مسکرایا اور جاپانی نے اپنا نام لے کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور دونوں ریسیپشن کی جانب چل پڑے۔ میں نے کہا کہ آپ آرام سے اپنا کام کریں۔ کمروں میں جا کر فریش ہو کر آ جائیں۔ ولید بولا بس پانچ منٹ سر۔ البتہ سات منٹ بعد پہلے جاپانی پہنچا اور اپنا کارڈ دیا۔ اس کا نام ساتوشی نیگورو تھا اور وہ مڈل ایسٹ اور افریقہ کے لیے سونی کمپنی کے ریکارڈنگ میڈیا اور انرجی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ تھا۔ دبئی میں متعین ہے، اس سے پہلے چار برس پیرس میں رہا تھا۔ بیالیس بر کا یہ یہ بلند قامت، مستعد اور بظاہر سادہ شخص عملیت پسند تھا۔ اس نے سب سے پہلے مجھ سے میرے متعلق سب پوچھا۔ مجھے جواد نے بتا دیا تھا کہ آپ نے خود کو محض شاعر ادیب ظاہر نہیں کرنا۔ میں نے احتیاط برتی۔ اتنے میں ولید بھی پہنچ گیا اور کہا کہ تین بجے ہماری ایک میٹنگ ہے اور اس کے بعد ہم آپ کے ہمراہ مارکیٹ دیکھیں گے۔


میں ان کی آمد کے انتظار کے دوران باکو گائیڈ دیکھتا رہا تھا اور میں نے حسین سے پوچھ کر وہ لے بھی لی تھی چنانچہ فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کام تمام کرنے کے بعد کچھ مقامات دیکھ لیں گے۔ ولید نے کہا ابھی  ہمارے پاس وقت ہے تو میں نے کہا چلو اس دوران قدیم شہر دیکھ لیتے ہیں۔ باہر انہیں مخصوص ٹیکسیوں کی ایک قطار تھی۔ پہلی ٹیکسی والے نے کرایہ پانچ منات بتایا یعنی تقریباً تین سو روپے اور جا کر پرانے شہر کی فصیل کے ایک ٹکڑے میں بنے دروازے کے باہر جا اتارا۔
ساتوشی تو فوراً دروازے کے اندر جا کر موبائل سے تصویریں بنانے لگا، میں نے باہر دروازے پر ولید کی تصویر لی اور ولید نے دوسری تصویریں۔ اندر داخل ہو کر میں نے تجویز کیا کہ ایک گلی میں داخل ہو کر دوسری گلی سے نکل آئیں گے۔ سیاہ پتھر کے فرش کے چوک اور وہاں سے ویسے ہی فرش والی گلی میں داخل ہو گئے۔ بھئی کیا شہر تھا۔  لکڑی یا سفید سیمنٹ ایسے مادے کی بڑی بڑی بالکونیاں۔ چڑھتی اترتی شفاف کریم رنگ کی گلیاں۔ اس شہر میں لوگ رہتے ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران بھی ہیں۔ ایک دو بلیاں بھی بیٹھی دکھائی دیں۔ دو چار جوان جوڑے اور ایک آدھ مرد بھی دیکھنے کو ملے مگر یوں لگا جیسے یہ شہر نہیں میوزیم ہے جسے دیکھنے والوں کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہو۔ قدیم شہر تھا۔ نالیاں نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ یقیناً زیر زمین ہونگی۔ کسی گھر سے کوئی پائپ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ کئی جگہ پر چڑھنے کے لیے چھوٹے یا بڑے زینے یا ڈھلوان۔ ہر جگہ ایسی صاف جسے کہتے ہیں کہ ابلے ہوئے چاول گرا کے کھائے جا سکتے ہوں۔ میں اور ساتوشی دھڑا دھڑ تصویریں بناتے رہے۔ ایک جگہ ایک راہی سے پوچھنا پڑا اور دوسری جگہ سکول یا کالج کی ایک لڑکی سے جو اپنے گھر میں داخل ہوا چاہتی تھی۔ دونوں نے اپنائیت، تعلق اور مہمان پروری کے انداز میں رہنمائی کی۔ پرانے شہر نے آنکھوں کی پتلیوں سے داخل ہو کر دل میں جگہ بنا لی۔ طے کر لیا کہ دوسری بار اسی کے اندر کے کسی ہوٹل میں قیام کروں گا۔ مجھے قدیم شہر بہت اچھے لگتے ہیں۔  اگر رہنے کے بارے میں پوچھا جائے تو میرے انتخاب میں صرف دو شہر تھے اور دونوں اطالیہ کے یعنی فلورنس اور وینس اب باکو بھی ایسا ایک شہر انتخاب بن چکا ہے میرے لیے۔ قدیم شہر سے نکلنے سے پہلے ہم نے چند سیڑھیاں اتر کے واقع ایک اطالیائی نام والے ریستوران میں ظہرانہ تناول کرنے کا طے کیا۔ نیچے اتر کے پہلے ویٹر سے پوچھا کہ تمہارے ہاں پکوان اطالوی ہوتے ہیں۔ اسے روسی نہیں آتی تھی، فوراً، ایک اور لپکا۔ اس نے بتایا کہ مقامی بھی اور اطالوی بھی۔ سیاحوں کا سیزن نہیں تھا چنانچہ ہم تینوں ایک طرف کے آئینوں سے مزین ہال میں بیٹھ گئے۔ میرے ساتھی جلدی میں تھے۔ انہوں نے پیزا کھانے کی خواہش کی، میں نے اور ساتوشی نے مارگریتا اور ولید نے چکن پیزا کی فرمائش کی۔ بیس منٹ بعد بڑی بڑی قابوں میں آٹھ آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم شدہ پیزا پہنچ گئے۔ انتہائی لذیذ گرم گرم پیزا اتنا زیادہ تھا کہ پانچویں ٹکڑے کے بعد چھٹا زبردستی کھایا۔ دو دو ٹکڑے بچ رہے جو میں نے پیک کروا لیے۔ اگرچہ بعد میں وہ ٹکڑے میرے لیے عذاب بن گئے تھے کیونکہ ہم رات تک باہر رہے۔ چائے سمیت تین پیزا کی قیمت صرف 23 منات تھی۔ میں نے 25 منات دیے یعنی تقریبا” پندرہ سو پاکستانی روپے۔ زبردست۔


ولید اپنا لیپ ٹاپ ریسیپشن پر رکھ آیا تھا۔ باہر سے ویسی ہی ایک ٹیکسی لی، کہا پہلے ہوٹل میریوت اور پھر بیناگدی ہائی وے جانا ہے۔ ڈرائیور کو لگتا تھا بیناگدی ہائی وے کا معلوم نہیں تھا چنانچہ ولید نے کسی خاتون کو فون کرکے انگریزی میں کہا کہ ڈرائیور کو سمجھا دے۔ اب ڈرائیور کو سمجھ آ گئی کیونکہ خاتون نے کہا تھا کہ ” باکو الیکٹرونکس ” پر لے آؤ۔ یہ جگہ خاصی دور تھی، میں نے ڈرائیور کو بیس منات دیے اور وہ خوش ہو گیا۔ باکو الیکٹرونکس ایک بہت بڑی دکان تھی۔ جس کے اوپر دفاتر واقع تھے۔ کئی منٹ انتظار کرنے کے بعد سیکیورٹی والے نے فون وغیرہ کرکے اوپر جانے دیا۔ وہاں میٹنگ ہوئی، اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو گروپ بحث کر رہا تھا، سبھی لوگ بہت اچھے تھے۔ ولید کا پریزنٹیشن کا انداز مجھے بہت اچھا لگا۔ بعد میں اس کمپنی کے ایک ڈائریکٹر عزیز اور دوسرے کمرشل ڈائریکٹر رینات نے ہمیں دکان گھمائی اور اپنی ایک کار میں رخصت کیا۔ انہوں نے ساتوشی کے استفسار پر مشورہ دیا تھا کہ دو شاپنگ مال میں جا کر مارکیٹ دیکھ لیں۔
ان کی گاڑی ہمیں ” گنجلک مال ” پر اتار گئی تھی۔ یہ بہت بڑا اور بہت جدید شاپنگ مال ہے۔ اس میں گھومے۔ اس کے اندر اچھے خاصے لوگ تھے۔ باہر نکلے تو واحد فقیر عورت دیکھی جو رو رو کر مانگ رہی تھی۔ میں نے جیب میں موجود سکے اسے دے دیے۔ ٹیکسی پکڑ کر 28 مال نام کے شاپنگ سنٹر پہنچے۔ وہاں میں نے کوشش کی کہ پیک کروائے پیزا کے ٹکڑے کسی ورکر کو دے دوں، ایک کو کہا اس نے نہ لیا تو میں نے اسے ایک کاونٹر پر چھوڑ دیا۔ باہر نکلے تو میرے ساتھیوں نے کہا ” فائر فلیم ” دیکھنے چلیں۔ میں یاندر دگ نام کی جگہ سے متعلق ٹریول گائیڈ میں دیکھ چکا تھا۔ ایک ڈرائیور ہمیں لے جانے پر تیار ہو گیا۔ اب جو گاڑی چلنا شروع ہوئی، شہر سے باہر نکلتے بھی آدھ گھنٹہ لگ گیا۔ اوپر سے ڈرائیور مسلسل باتیں کر رہا تھا۔ راستے میں ولید نے کہا کہا کہ لوٹ چلتے ہیں مگر میں نے انکار کر دیا کہ اب اتنی دور آ گئے ہیں تو دیکھ کر ہی جاتے ہیں۔


آذر بائیجان میں ہزاروں سالوں سے جگہ جگہ پر قدرتی آگ بھڑکتی رہی ہے۔ اسی لیے اسے “آگ کی سرزمین” یعنی آذربائیجان نام دیا گیا تھا اور بعد میں یہ آتش پرستوں کے لیے مقدس مقام رہا۔ ایسی ہی ایک آگ باکو سے 25 کلومیٹر باہر، ایک چرواہے کے جلتی سگریٹ پھینکنے سے بھڑک اٹھی تھی۔ 1950 سے اب تک جل رہی ہے جسے بارش اور ہوا نہیں بجھا پاتے۔ چنانچہ یہ ایک قابل دید مقام شمار ہوتا ہے۔ مسیر نام کے اس ادھیڑ عمر ڈرائیور نے ہماری رہنمائی کی۔ ڈرائیور کو ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ سیاحوں کو لے کر آتے ہیں۔ ہم نے دو دو منات کے ٹکٹ لیے اور آگ دیکھی بھی اور سینکی بھی۔ یہاں پاکستانی پنجابی بولنے والے تین نوجوان بھی آپس میں ٹخ ٹلیاں کرتے پائے گئے۔ آگ کی حرارت سے راستے بھر کی تکان اور کوفت دور ہو گئی۔
میں راستے میں چائے کا ذکر کر چکا تھا۔ آذربائیجان میں چائے اگائی اور بنائی جاتی ہے جو “آذر چائی” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ڈرائیور مسیر کہنے لگا کہ میں آپ کو ایک خاص دکان پر لے جاؤں گا، جہاں سے آپ جو چیز چاہیں مناسب قیمت پر اور معیاری خرید سکتے ہیں۔ میں نے ساتھیوں کی تھکاوٹ کے سبب کہا، ” نہیں کل لے لیں گے”۔ مسیر سمجھ گیا اور بولا،” دنیا بھر میں اگر ٹیکسی والا کوئی پیشکش کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ کچھ اینٹھنے کے چکر میں ہے۔ مگر یقین کریں، آپ میرے مہمان ہیں، میں آپ کی ہر طرح سے مدد کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ آپ کو معلومات نہیں ہیں”۔ میں نے اسے تسلی دی کہ میں اسے غلط نہیں سمجھ رہا، وہ واقعی سوویت زمانے کا ایک بے غرض انسان دوست شخص تھا۔ جلتی پہاڑی یعنی یاندر دگ سے فارغ ہو کر ساتھیوں نے “فائر فلیم” دیکھنے کی خواہش کی جس پر مسیر نے کہا، آپ کا مطلب ہے “فیئر مونٹ”۔ جب میں نے یاندر دگ جانے کو کہا تھا تو یہ دونوں اسے فائر فلیم ہی سمجھے تھے۔ فیر مونٹ نام کے اس بلند، مہنگے، جدید اور منفرد طرز کی حامل عمارت والے ہوٹل کو ہی فائر فلیم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ہر منزل پر قمقموں کی مسلسل قطار بار بار رنگ تبدیل کرتی ہے۔ فائر فلیم کی جانب جاتے ہوئے مسیر کی مجوزہ دکان بھی راستے میں تھی جہاں سے میرے علاوہ باقی دونوں ساتھوین نے بھی چائے کی پتی بطور سوغات خرید کی۔ فائر فلیم کے نیچے تصاویر بنانے کے بعد ہم ہوٹل کو چل دیے۔ مسیر نے کہا، کل آپ نے جہاں جانا ہو میں اپ کو لے جاؤں گا۔ ولید کے کہنے پر میں نے اسے کل صبح ساڑھے نو بجے ہوٹل پہنچنے کو کہا۔ میریت کے سامنے اتر کر اسے میں نے چالیس منات دیے، اس نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور کل آنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ لابی میں جا کر میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ایک گھنٹہ آرام کر لیں، پھر یہیں ملتے ہیں۔ کل میں نے قریب ہی ” تندیر ” ( تندور ) نام کا ایک چھوٹا سا ریستوران دیکھا ہے، وہاں ہم روایتی آذری کھانا کھائیں گے۔


جب میں ایک گھنٹے بعد وہاں پہنچا تو صرف ولید ملا۔ ساتوشی اپنی بے تحاشا ای میلز کی وجہ سے نہیں آیا تھا۔ میں اور ولید تندیر پہنچے تو وہ بند ہو چکا تھا۔ کرسیاں الٹی کرکے میزوں پر رکھی جا چکی تھیں۔ دروازہ البتہ کھلا تھا۔ ایک آذری نوجوان موجود تھا جو روسی زبان سے نابلد ہونے کے سبب میرے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہا کہ نزدیک کوئی اور ریستوران ہو تو بتاؤ۔ ہم دونوں کباب ہاؤس نام کے ایک اور ریستوران میں گھس گئے اور لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ خاصے لوگ تھے جن یں عرب اور روسی بھی تھے۔ ہم سڑک کی جانب شیشوں کے پاس چار نشستوں والی ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ یہ ترک ریستوران تھا۔ آرڈر لے کر بیرا پہلے کٹے ہوئے ٹماٹر، کھیرے، سلاد کے پتے اور ہرا دھنیا لے کر آیا پھر لکڑی کے ایک پھٹے پر بڑی سی تلوں والی تندوری روٹی جو اندر سے کئی مقام پر حدت سے پھولی ہوئی تھی۔ ابھی ہم روٹی کے لقمے ٹماٹر سے کھا رہے تھے کہ وہ ایک اور لکڑی کی طشت پر میرے لیے لیمب تکے، چاول اور مختلف سلاد اور ولید کے لیے اسی طرح چکن تکے لے آیا۔ مناسب مقدار میں اس قدر لذیذ اور ہلکا پھلکا کھانا ہم چند منٹوں میں چٹ کر گئے۔ چائے کا کہہ کر میں ہاتھ دھونے نیچے گیا تو ایک شخص جھک کر سلام کرتے ہوئے بولا “رجب”۔ میں نے روسی میں ہیلو ہائی کرنے کی کوشش کی تو اس نے انگریزی میں کہا کہ اسے روسی زبان نہیں اتی۔ وہ ریستوران کا ترک مالک تھا جو بہت اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ چائے سمیت کھانا محض 27 منات کا تھا۔ میرا اب بھی وہاں کھانا کھانے کو جی کر رہا ہے۔ جب جانے لگے تو میں نے اسے خدا حافظ کہا وہ “مجاہد خدا حافظ” کہنے کے لیے باہر تک آیا۔ اس سے پہلے وہ بیٹھی ہوئی ایک حور سے بات کر رہا تھا۔ جو بھی تھی فی الواقعی بہت حسین تھی۔ رجب نے پیچھے سے کہا، میں آپ کا پھر انتظار کروں گا۔ میں نے ولید سے کیا، مجاہد تو ایسے کہہ رہا تھا جیسے بچپن میں اکٹھے کھیلے ہوں ہم۔ ولید کا گھومنے کو جی تھا لیکن میں نے کہا، آرام کرتے ہیں بھائی۔
چونکہ ولید اور ساتوشی نے مجھے سوا نو بجے صبح میریٹ لابی میں پہنچنے کی درخواست کی تھی اس لیے اگرچہ جلد بجلی بجھا دی مگر تین بار آنکھ کھلی کہ کہیں تاخیر نہ ہو جائے۔ وعدہ کرکے نہ پورا کرنا میرے دستور میں نہیں ہے۔ سوا نو بجے پہنچ گیا۔ ولید ابھی ناشتہ کر رہا تھا۔ ساڑھے نو بجے مسیر پہنچ گیا تھا۔ آج دھند بہت زیادہ تھی۔ گذری کل ہم نے کئی بار بحیرہ کیسپین کو سڑک سے دیکھا تھا۔ ارادہ تھا کہ آج دیکھیں گے مگر دھند کے باعث ممکن نہیں رہا تھا۔ ساتوشی کی ہدایت پر مسیر کو “صدرک بازار” چلنے کو کہا۔ یہ شہر سے بہت باہر وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھوک مال کی بہت بڑی منڈی ہے۔ مسیر نے مدد کی یوں ہم جلد ان دکانوں تک پہنچ گئے جو الیکٹرونک ایکسیسریز کا تھوک بزنس کرتی ہیں۔ جس شخص سے معاملات طے کرنے کو مناسب جانا اس نے اپنا نام “دومود” بتایا چونکہ ایران، تاجکستان اور سلطنت ایران کی سابق باجگزار آذر بائیجان میں الف کو واؤ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب تھا “داماد”۔ میں نے پوچھا، وہی جو کسی کی بیٹی کا شوہر ہوتا ہے تو بولا جی میرا پورا نام دومود فتح الائیو ہے۔ میں نے کہا کہ میں تمہیں فتح الائیو ہی بلاؤں گا۔ بات چیت میں اتنی دیر ہو گئی کہ مزید کہیں جانے کا وقت نہیں تھا۔ مسیر کو ہوٹل میریٹ چلنے کو کہا۔ وہاں پہنچ کر اسے کہا کہ وہ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائے اور ہمیں ایرپورٹ لے جائے۔


میں ہوٹل سے نکلتے ہوئے “چیک آؤٹ ” کر آیا تھا، اگرچہ بیگ اپنے ہوٹل کی ریسیپشن پر رہنے دیا تھا کہ شاید بارہ بجے کے بعد آؤں۔ ولید مجھے اپنے ساتھ پندرھویں فلور پر اپنے کمرے میں لے گیا۔ سامنے نیچے تک شفاف شیشہ ہی بطور دیوار تھا۔ مجھے اونچائی سے خوف آتا ہے۔ میں کچھ دور کھڑے ہو کر نظارہ کر رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی اتفاقاً شیشے سے ٹکرا جائے تو، ولید سے کہا تو وہ بولا ، سر یہ بہت مضبوط شیشہ ہے۔ ظاہر ہے 27000 ہزار روپے رات لے کر مہمان کو اتفاقی طور پر مرنے سے تو بچائیں گے ہی۔
ان دونوں کی پرواز سوا تین بجے سہ پہر تھی اور میری ساڑھے پانچ بجے شام۔ میں نے سوچا تھا کہ انہیں رخصت کرکے کچھ دیر مزید شہر گھوموں گا مگر دھند نے ایسا نہ کرنے دیا۔ ایر پورٹ پر پہنچ گئے تو دسیوں قطریوں کو اپنے جبوں، چپلوں اور پگڑیوں کے ساتھ ہاتھوں پر باز بٹھائے گھومتے پایا۔ میرے دونوں ساتھی چلے گئے۔ میں بہت دیر ان لوگوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا یہاں اس نایاب پرندے کو اس طرح سرعام لے جائے جانے کی اجازت ہے کیا؟ جب میں بورڈنگ کارڈ لے رہا تھا تو قطر ایر لائن کے کاؤنٹر کے سامنے کھڑا شیخ اپنے فون پر کسی کو ایسے ڈانٹ رہا تھا جیسے وہ قطر میں ہی کھڑا ہو۔ ڈیپارچر لاؤنج میں بہت وقت بسر کرنا پڑا۔ ان بدووں کے علاوہ ایرپورٹ کے مختلف شعبوں کی طناز ، خوش شکل اور خوش بدن لڑکیوں کو بھی مختلف طرح کی یونیفارموں میں ملبوس سنجیدہ اور پرتدبر انداز میں گھومتے پھرتے پایا۔ دختران آذری فی الواقعی کوہ قاف کی پریوں کی مانند تھیں۔ حیف کہ آتش جوان نہیں رہا اوپر سے حاجی بھی ہو چکا۔
واپسی پر ایس سیون ایر لائن کا ہی طیارہ تھا اور اس بار میرے پہلو میں شہر تمبوو کی بہت ہی منحنی لڑکی تھی جو آرکیٹیکچر کی طالبہ تھی۔ سنا ہے تمبوو میں لڑکے لڑکیوں کا تناسب 3: 9 کا ہے یعنی لڑکیاں دوگنی زیادہ۔ ہلکی ہلکی بو آ رہی تھی جو بہت ناگوار نہ سہی مگر خوشگوار بھی نہیں تھی۔ بڑی سونگھ کے بعد معلوم ہوا کہ تمبوو کی لڑکیاں نہانے سے بدکتی ہونگی۔ یہ حسینہ کے بدن پر جمے پسینے کی بو تھی۔ شکر ہے زیادہ نہیں تھی۔ سفر مناسب رہا مگر طیارہ پتہ نہیں کہاں اتار دیا۔ اس کے باہر آ کر کھڑی بس میں سوار ہو کر سفر کرتے ہوئے ایسے لگا جیسے شاہدرہ سے گجومتا جا رہے ہوں۔ لوٹ تو آیا لیکن جاؤں گا ضرور اور ہو سکا تو بار بار۔ باکو باکو ہے بھئی۔
پس نوشت: باز فروشی کے ماہر دوست امتیاز چانڈیو نے بتایا کہ قطری پرندے خرید کر نہیں بلکہ اپنے لائسنس یافتہ پرندے لے کر آذربائیجان میں واپس جاتے ہوئے ہوبارڈ بسٹرز یعنی تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ ظالم قطری پرندوں کو گھر جاتے ہوئے بھی مار دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).