ناس ماری بیرونی سازشیں اور ہمارے طبی مسائل


تقریباً کوئی ڈیڑھ سال قبل میری اہلیہ کے کسی لیب ٹیسٹ کے دوران ڈاکٹر صاحب نے ایک انکشاف کیا کہ یہ ہیپا ٹائٹس سی کی کیرئیر ہیں۔ لہٰذا یہ دو ٹیسٹ ضرور کروائے جائیں۔

وہ دو ٹیسٹ تقریباً پچیس ہزار مالیت کے تھے جو کہ ایک اچھی لیب سے کرا لیے گئے۔ بعد ازاں ہمیں ڈاکٹر محترم نے بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ وائرس تو ضرور ہے مگر خاموش ہے اور ایکٹو نہیں ہے۔ اور پندرہ سے بیس سال مزید بھی ایسا رہ سکتا ہے۔ لیکن آپ اگر چاہئیں تو اسے نیگیٹو بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دوائی کافی مہنگی ہے اور اس کے ری ایکشن بھی ہیں جس میں کمزوری اور پورے جسم میں درد نارمل ری ایکشن ہیں اور سب میں آتے ہیں۔

ہم نے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر تین ماہ کی تھوڑی سی تکلیف سے یہ نیگیٹو ہو جائے تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں۔ ڈاکٹر کے مطابق ننانوے فیصد مریض اس سے شفاء یاب ہو جاتے ہیں۔

مختصر یہ کہ ہم نے لگاتار تین ماہ وہ دوائی استمال کروائی۔ اس دوائی کا حصول کیسے ممکن ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ وہ دوائی ہمارے ازلی دشمن بھارت میں ایک خاص سازش کے تحت تیار ہوتی ہے۔ اور ایک خاص سازش کے تحت بھارت نے اس کی پاکستان میں در آمد پر پاکستان کے ہاتھوں ہی پابندی لگوائی ہوئی ہے۔ لیکن وہی دوائی جس کی قیمت غالبا تین ہزار روپے ہے۔ وہ پاکستان کے لوگوں کو سمگل ہوکر ملنے کی صورت میں آٹھ سے دس ہزار روپے کی ملتی ہے۔

وہ پاکستان کے تمام بڑے میڈیکل سٹورز پر انڈر ٹیبل بات کرنے پر مہیا کر دی جاتی ہے اور یہ بات ہر اس شخص کو معلوم ہے۔ جس کی فمیلی میں اس مرض کا کوئی مریض تشخیص ہوا ہو اور انہوں نے چھے ماہ والے ٹیکوں کے انتہائی مہنگے اور مشکل ترین تکلیف دہ علاج کو چھوڑ کر تین مہینے کے علاج کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہو۔

تین مہینے کے بعد بارہ ہزار کا ایک اور ٹیسٹ کروایا تو دوائی کا نتیجہ صفر۔ گئی بھینس پانی میں۔

ڈاکٹر نے مایوس ہوکر بتایا کہ سمجھ سے باہر ہے ایسی سٹیج پر اس دوائی کے اثرات بہت اچھے مرتب ہوتے ہیں اور تقریباً نناوے فیصد مریض صحت یاب ہوتے ہیں میرا پہلا مریض ہے جو صحت یاب نہیں ہوا۔ بہرحال آپ پریشان نہ ہوں اور آٹھ دس ماہ انتظار کریں کوئی نئی دوا اگر آتی ہے تو ہم آپ سے رابطہ کریں گے۔

قصہ مختصر حکومت پنجاب کے ایک نئے ہسپتال جس کو مخفف کرکے ؛ پی کے ایل آئی۔ یعنی پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹوٹ کے نام سے بیدیاں روڈ پر جگر کا جدید ترین ہسپتال بتایا گیا میں پہنچ گئے۔ ہسپتال کی او پی ڈی کی عمارت کا افتتاح کرکے اس کے کھول دیا گیا ہے۔ اور باقی پیچھے بارہ منزلہ بلڈنگ زیر تعمیر ہے۔

ہم ہسپتال پہنچے تو جمعہ نماز کا وقفہ تھا۔ دو بجے سٹاف نے واپس آنا تھا اور ہم نے رجسٹرڈ ہونا تھا۔ کمال کی بلڈنگ اتنی صاف ستھری خوبصورت اور آرگنائزڈ، ہسپتال کو ہم دیکھ کر ہی خوش اور مطمئن ہو گئے۔

میں نے گاڑی سے اترنے سے پہلے بسم اللہ پڑھی اور دل ہی دل میں دعا کی کہ اللہ تعالی ہمیں کوئی سیدھا راستہ دکھا دے۔ ہم سٹاف کے انتظار میں بیٹھے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ کہ اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔ اسلام علیکم سر۔

میں نے چونک کر دیکھا تو میرے ساتھ میرے آفس میں کام کرنے والا میرا ایک پرانا کولیگ کھڑا تھا۔
اوہ انیل۔ وعلیکم اسلام۔ کیسے ہو یار اور یہاں کہاں؟ پھر میری نظر اس کے بیج پر پڑی تو وہ اسی ہسپتال کا تھا اور اس نے بتایا کہ اس نے یہ ہسپتال جوائن کیا ہے اور ایڈمن میں ہے۔

اس نے مجھ سے فائل لی اور ہماری رجسٹریشن کا عمل شروع کروا دیا۔ ابھی ڈاکٹرز حضرات نہیں پہنچے تھے لہٰذا ہم سب نیچے کینٹین میں چلے گئے۔
ہر لمحہ سیناٹایزر کی بوتل بیگ میں اور کسی بھی کینٹین خاص طور پر کسی ہسپتال کی کینٹین سے کبھی کچھ نہ کھانے والی بیگم صاحبہ نے وہاں جوس پی لیا۔

بلکہ بچوں نے رول اور سموسے بھی وہاں سے کھائے اور وہ وہم کی پتلی خاموش بیٹھی رہی میں نے پوچھا آج تم نے بچوں کو کیسے اجازت دی یہاں سے کچھ کھانے پینے کی؟ تو فرمانے لگیں کہ یہاں کی صفائی دیکھ کر دل مطمئن ہے تو چپ ہوں۔

اللھ اللہ پاکستان کا ہسپتال اور وہم کی پتلی خاموش۔ ہم نے اور بچوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر اطمنان کی سانس لی اللہ کے بعد خادم اعلی کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کیا۔

ہم نے رجسٹریشن کروانے کے بعد ایک اور مرحلہ بھی طے کرنا تھا جس میں اسیسمنٹ کی جاتی ہے کہ آیا آپ اپنا علاج اپنے خرچے پر خود کروائیں گے یا ہسپتال کی طرف سے مریض کو سبسڈی ملے گی؟

اسی مرحلہ میں ایک بہت اہم رپورٹ نہیں مل رہی تھی اور میں کافی پریشان اور بدحواس تھا۔
بیگم کو ڈانٹ بھی نہں سکتا تھا کہ کہاں گم کردی (جو کہ بعد میں فائل میں سے ہی مل گئی ) اسی دوران ہم ایک کیبن میں لے جائے گئے اور پہلا سوال چھوٹتے ہی پوچھا گیا کہ پیشنٹ سے اپکا رشتہ کیا ہے؟

ہم چونکہ مسنگ رپورٹ میں غرق تھے اور دماغ کہیں زبان کہیں تو منہہ سے جواب کچھ ایسے پھسلا ۔ میں ان کی مسز ہوں۔
اچانک میری بیگم کی ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا اور ساتھ ہی وہ صاحب بھی جو ہماری اسیسمنٹ کر رہے تھے زیر لب مسکرانے سے زیادہ ہنستے رہے۔

میں نے دزیدہ نظروں سے بیگم کو گھورا تو انہوں نے کہا کہ بھائی جان ان کا مقصد تھا کہ یہ میری مسز ہیں۔ اب مجھے اچانک کلک ہوا کہ شاید زبان پھسل گئی ہے۔
ہم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا علاج مفت کیا جائے؟

میں نے کہا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یہ سوال بنتا نہیں ہے لیکن پاکستان ہے تو آپ پوچھ رہے ہیں اور میرا جواب ہے جی بالکل اگر ایسی سہولت موجود ہے تو ضرور۔

کیوں کہ یہ علاج اور اس کے ٹیسٹ کافی مہنگے ہیں۔ لیکن اگلی بات انہوں نے فرمائی کہ آپ کی سیلری کے حساب سے آپ کا علاج آپ کی جیب سے ہونا بنتا ہے میں نے اسے ا پنے خرچے بتائے بچوں کی تعداد، اسکول فیس اور بڑے والے کی کالج فیس بمع۔ کیلا ڈے، انگور ڈے، بندر ڈے وغیرہ وغیرہ کے نام پر بھتے اور میڈیسن وغیرہ۔ تو وہ میری سیلری سے زیادہ بلکہ پونے دگنے کے قریب نکلے۔ لیکن ان کی اگلی بات نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے کہ اگر آپ علاج پر چھوٹ لیں گے تو یہ رقم زکاات کی رقم ہوتی ہے جو مستحقین کے لیے ہوتی ہے۔

میں نے اسے کہا کہ بھائی جان سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ میں زکوات کی رقم سے علاج کرواؤں۔ میں مکمل علاج خود برداشت کروں گا۔ یہ سہولت صرف نادار مریضوں کے لیے ہونی چاہیے نہ کہ ہم جیسوں کے لیے۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا بہت کم لوگ یہ بات کرتے ہیں بہت اچھے اچھے لوگ ہم سے زبردستی کچھ پرسنٹ ضرور ایڈ کرواتے ہیں۔

لیکن میں آپ کی اسیسمنٹ رپورٹ میں ایک گنجائش ضرور رکھوں گا کہ کسی مرحلے پر بعض اوقات لاکھوں روپے کا خرچہ بھی آ جاتا ہے۔ جہاں آپ کے ہاتھ کھڑے ہو جائیں آپ ریکویسٹ ڈال سکتے ہیں تاکہ اگر علاج چل رہا ہے تو وہ متاثر نہ ہو۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔

بہرحال یہ کہ ہم آخر کار ڈاکٹر کلینک پر پہنچے ابھی ڈاکٹر صاحب ہم سے ڈسکس کر رہے تھے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ بیرونی سازش کے ایک حصے کے طور پر برطانیہ کے جگر کے ریسرچ انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر بیش باہر کھڑے ہیں اور اجازت مانگ رہے ہیں کہ اس وقت جو مریض اٹینڈ کیا جا رہا ہے میں وہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

ہمارے پروفیسر ڈاکٹر صاحب نے ہم سے پوچھا کہ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ چونکہ میں خود ان بیرونی سازشوں کو کسی اور نکتہ نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اپنی اسی سوچ کی وجہ سے اکثر محبان وطن کی طرف سے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہوں۔ لہٰذا میں نے فورا اپنی بیگم کی رضامندی سے اجازت دے دی۔

اب اس بیرونی آلہ کار نے ہم سے اور ہمیں اٹینڈ کرنے والے پروفیسر اور اس کے اسسٹنٹ سے سارا کیس سمجھنا شروع کردیا۔ اور ایک لمبی بحث اور رپورٹ دیکھنے کے دوران ہم سے سوالات بھی کیے اور کچھ مشورے دے کر آگے والے کلینک میں جا کر سازشوں میں مصروف ہوگئے۔

ہمارے پروفیسر صاحب نے بتایا کہ یہ برطانیہ میں جگر کے ریسرچ سینٹر پر ہوتے ہیں اور اپنی بے انتہا مصروف زندگی سے وقت نکال کر اس ہسپتال کے ڈاکٹروں کو اس سازش میں شریک کرنے آئے ہیں جو صدیوں سے ہمارے آبا و اجداد کے خلاف بالعموم اور پاکستان کے صالحین اور نظریہ کے خلاف بلخصوص کرتے آئے ہیں۔

میرے دماغ میں فورا ایک خیال آیا کہ

یہ اپنی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں نکلنے والے اچھے نتائج اور نئی ایجادات اور دواؤں کے بارے میں تین دن سے لیکچر دے رہے ہیں۔ اور اسی دوران ڈاکٹرز کی ٹریننگ بھی کروا رہے ہیں اور مریضوں کو بھی مل رہے ہیں اور ہر کیس کی کاپی یہاں سے لے کر جائیں گے اور اس پر اپنا وقت ضائع کریں گے۔

نہ خود چین لیتے ہیں اور نہ ہی ہمارے ڈاکٹرز کو آرام کرنے دیتے ہیں کہ یکسو ہو کر اپنا کام کر سکیں۔ لہٰذا جب یہ ڈاکٹر حضرات کی یکسوئی اور لگے بندھے طریقہ علاج میں رخنہ ڈال رہے ہیں تو یقیناً اس کے پیچھے وہی ازلی سازشی تھیوری کار فرما ہے۔ جس کا ذکر اس ملک کے پڑھے لکھے، نیم خواندہ اور ان پڑھ یک زبان کرتے ہیں۔

میں تو بسم اللہ پڑھ کر گاڑی سے اتر کر اندر گیا تھا باوجود اس کے صیہونی اور عیسائی سازشیوں نے گھیر لیا۔
مجھے رجسٹریشن کروانے سے لے کر قدم قدم پر رہنمائی کرنے کی اداکاری کرتا وہ میرا پرانا کرسچن کولیگ انیل جارج میرے ہسپتال داخلے پر ہی میرا منتظر تھا کہ مجھے گھیر لے،
پھر اس نے ہر مرحلہ پر میری بے لوث خدمت کرکے اپنا امیج بہتر بنایا اور اپنا اعتماد قائم کرنے کی کوشش کی اور تو اور آگے ایک گورا بھی انہی سازشوں میں مصروف نظر آیا۔

میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو دیکھا اور واپسی پر ان کو مخاطب ہوکر ہسپتال کے حوالے سے تبصرہ کرنے کو کہا تو سب نے بے انتہا تعریف کی۔ شکریہ خادم اعلی صاحب۔

ہسپتال کیا ہے بس اللہ کی ایک نعمت ہے جس میں ہم سب علاج کی جدید ترین سہولتوں سے فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک بہت عمدہ پروجیکٹ ہے۔ جس میں ابھی تک پاکستانی کلچر بہت کم اور کام ہوتا زیادہ نظر آتا ہے۔ جدید مشینیں اور لیب غریبوں امیروں اور متوسط طبقہ کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔

میں نے انھیں کہا کہ کچھ سمجھ آئی؟ جدید ترین مشینیں اور تربیت یافتہ عملہ، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے ڈاکٹر اور ہسپتال میں کام کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں دل لگی اور دل جمعی سے کام کرتے ہوئے ان کے آلہ کار۔ ہم سے ہمارے۔ ذلت آمیز، بدبودار، خرانٹ نرسوں اور قصائی ڈاکٹروں والے ہسپتال چھین کر ہماری عادتیں خراب کرنے اور نئی نئی تحقیقات کی آڑ میں ہم میں خاندانی منصوبہ بندی اور مختلف بیماریوں کے جراثیم کا منصوبہ لے کر گھس آئے ہیں۔

یہ بیرونی سازش ہے کیوں کہ ہم نیک اور وہ بد ہیں۔ یہ آفاقی فیصلہ ہے۔ میری بیگم اور بچے نہ جانے کیوں مسکرائے جا رہے تھے۔

نوٹ۔ اور ہاں سب سے اہم بات جو میں بتانا بھول گیا تھا۔ اس گورے ڈاکٹر نے ایک بات ہمارے ڈاکٹر سے یہ بھی ڈسکس کی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تین مہینے انڈیا والی دوائی کے باوجود یہ نیگیٹو نہیں ہوا؟

تو ہمارے ڈاکٹر نے اسے ایک ہی وجہ بتائی تھی کہ چونکہ یہ دوائی انڈیا کی ہے اور اسے ہم اپنی غیرت ایمانی کی وجہ سے لیگل امپورٹ نہیں کر سکتے لہٰذا کچھ مؤمنین نے غیرت ایمانی سے مغلوب ہوکر یہ دوائی یہیں کہیں گلیوں محلوں میں مکانات اور سٹور رومز کرایہ پر لے کر بنانا اور بیچنا شروع کر دی ہے۔ تاکہ آسانی سے دستیاب ہو اور اس کے سائیڈ افیکٹ بھی کم سے کم آئیں۔ اگر میڈیکل سٹور والا بھی اس محبت میں شامل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے جس میڈیکل سٹور سے میں نے یہ دوائی لی تھی۔ وہ تازہ تازہ ساتھ والی مسجد سے نماز پڑھ کر واپس آیا تھا۔ ٹوپی اتار کر مجھ سے پیسے لے کر دوسرے دن دوائی دینے کا کہا تھا۔ اور مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر غلط کہہ رہا تھا۔ بھلا پانچ وقت کا نمازی پرہیز گار ہو اور دوائی سمگلنگ کی بیچے؟ یا دو نمبر۔ ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس انگریز ڈاکٹر نے ہمارے ڈاکٹر کو شیشے میں اتار کر مجھے اس پرہیز گار انسان کے خلاف بھڑکانے کی سازش کی تھی۔ جو اللہ کے فضل سے میں نے ناکام بنا دی۔ اس میڈیکل سٹور والے کا کروڑوں کا کاروبار ہے سات برانچیں ہیں۔ اللہ کا کرم ہے۔ وہ کیوں ایسا کرے گا۔

ہماری قسمت ہی خراب تھی۔ ہمارے مقدر میں صحت یاب ہونا نہیں تھا۔
رات کو بچے انیل انکل انیل انکل کے گن گاتے پائے گئے۔ سازش کامیاب ہو رہی تھی۔

فخر اقبال خان بلوچ۔
بی کام۔ ایل ایل بی۔ کم نصیب کم بخت معاشرے کا کمبخت اور امید زدہ قلم کار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).