بے حس لوگوں اور جھوٹے حکمرانوں کے ملک کے بچے غرق ہو جاتے ہیں


میں بہت چھوٹی تھی جب میری کلاس فیلوز میں سے ایک سکول کے پرنسپل کی پوتی تھی۔ ہر روز وہ ہر ٹیچر کو بہت کیوٹ لگتی تھی۔ روز اس کی کسی نہ کسی بات پر سب کو پیار آتا تھا، کلاس کا ہر بچہ سوائے میرے اس کا بیسٹ فرینڈ بننا چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے بہت تگ و دو ہوتی تھی۔ یہ سارا کچھ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ آخر مجھ سمیت باقی بچوں میں کون سی کمی تھی، جو ہم ایسے مستقل لاڈ کے حق دار نہیں تھے۔ ٹیچرز تو پھر بھی، اچھے کام اور اچھے مینرز کی وجہ سے پیار کر لیتی تھیں، لیکن کلاس کے بچوں پر صرف ایک اس لڑکی کا بھوت تھا۔ بیس بچے ایک طرف اور وہ ایک کلاس فیلو ایک طرف۔ غالباً یہ بات کلاس ون کی ہے۔ میرا سکول بدلا گیا اور یوں میرا یہ سوال میرے ساتھ ہی رہا۔ آخر دادا ابو کی بیٹی میں ایسا کون سا گن تھا جو ہم میں سے کسی میں نہیں تھا، آخر بچے کیوں اس کو سب سے اعلی سمجھتے تھے، آخر میر ے ان سوالوں پر میرے کلاس فیلوز مجھے کیوں گھورتے تھے اور کچھ تو ناراض بھی ہوتے تھے کہ میں بہت ہی بد گمان ہوں۔ نہ تو ان کو میری بات سمجھ آئی نہ مجھے انکی، البتہ اس تمام مر حلے میں میں نے بھی زبردستی کی ایک کوشش کی، دادا ابو کی بیٹی سے دوستی کی اور پھر کوشش کامیاب ہونے کے باوجود مجھے کوئی خوشی نہ ہوئی۔ سوال البتہ وہیں ہے۔

آ ج جب ٹی۔ وی پر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے، کہ ساری قوم ہی میرے کلاس ون کے فرینڈز جیسی ہے۔ دادا ابو کی بیٹی کی خوشامدی۔ مریم نواز کا ریڑھی سے حلوہ پوری کھانا کیا واقعی بریکنگ نیوز ہے، کیا یہ بات اس قدر اہم ہے کہ اس خبر کو مختلف زاویوں سے بار بار چلایا جائے۔ ہم ہیں تو جمہور لیکن ہمیں، عادت غلامانہ مزاج کی ہے۔ دوپٹے کے رنگ سے لے کر، حلوہ پوری، پھر اس کے بعد، اس پر نہایت پڑھے لکھے تجزیہ کاروں کا تجزیہ کرنا۔ واٹس ایپ، پر مسقل چلنے والے لطیفے اور ٹی وی کی بریکنگ نیوز ہر طرف غلبہ۔ کیا واقعی ایک پیرنی اتنی اہم ہے ملک کے حالات کے لئے کہ لئے کہ رات دن صرف ایک ہی خبر ہے، مرید سے لے کر مرد بننے کا مرحلہ، مردانگی ( جو کہ ہمارے ہاں صرف دیواروں پر چھپے اشتہاروں کے مفہوم میں سمجھی جاتی ہے )۔ پھر اس خبر کے اوپر تمام ملک کے نہایت سنئیر صحافی تجزیہ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ماہر فلکیات بیٹھتے ہیں جو کہ اس کے اثرات بیان کرتے ہیں۔ تمام تر لطیفے، بیان بازی، تبصرے میں پیری اور مریدی غالب ہے۔ جمائمہ سے لے کر برقع کا سفر کیا اس کا کوئی، تعلق ہے بریکنگ نیوز سے!

بلاول کی تقریر پر جھومنے والوں سے پوچھو کہ صرف ایک لفظ بھٹو کی وجہ سے سنتے ہو۔ اللہ نے جائیداد میں وارثت کا حق رکھا ہے، لیکن پاکستانی قوم سیاست میں بھی وراثت کا اصول رکھتی ہے۔ کیا انسان پیدائشی طور سے دوسرے انسان سے بہتر ہے۔ اگر صرف سوال کی حد تک بات تو ہو تو جواب فوری نفی میں آئے، مگر عمل کچھ اور بتاتا ہے۔

لوئر دیر میں ایک انتہائی معصوم اور پیارے بچے زید کی جلی ہوئی اور مسخ لاش ملی، باپ ایک گونگا مزدور ہے، ماں ایک کمزور گھریلو عورت۔ خبر ضرور آئی مگر اس پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ ہر معاملہ ہم نے کورٹ کے سو موٹو کے ذمے ڈال دیا ہے۔ کیا وہ بچہ مریم کی حلوہ پوری جتنا بھی اہم نہ تھا۔

کیا اہم اس قدر بے حس ہیں، تھر کے بچوں پر میڈیا نے کس قدر شور مچایا مگر کیا کسی کے کان پر جوں بھی رینگی، آج پاکستان عورتوں کے حقوق کے حوالے سے دنیا میں تقریبا آخری نمبر پر ہے، نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح سب زیادہ ہماری ہے۔ بچوں پر ہونے والے جنسی جرائم انتہا پر، بوری میں بند زیادتی کا شکار ہونے والا مسخ شدہ بچہ اپنی ماں کا تو شہزادہ تھا۔ لیکن ہم اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔ خود تو ہم سٹریٹ چلڈرن کے لئے سکول قائم نہ کرسکے مگر فٹ پاتھ پر چلنے والا سکول کراچی میں ہٹایا گیا، لیکن اپنے بچوں کی سکول سے ایک دن کی چھٹی برداشت نہیں۔

بے آواز بچے کیا بچے نہیں؟ کیا گاڑی والا بچہ اور گاڑی صاف کرنے والا بچہ فرق مخلوق ہیں۔ کیا ہر بچہ اپنی ماں کا تارہ نہیں! کیا بچوں کے حقوق بھی عہدے اور سٹیٹس کے حساب سے ہیں!

میں نے بہت عرصہ پہلے پائیڈ پائیپر کی کہانی پڑھی تھی۔ پائیڈ پائیپر ایک ایسے شہر میں جاتا ہے جہاں کہ لوگ اور حاکم لاتعداد چوہوں کی افتاد سے بہت تنگ تھے۔ پائیڈ پائیپر انعام کی شرط پر، ان لوگوں کو چوہوں سے چھٹکارا دلا دیتا ہے۔ لیکن انعام دینے کے وقت، شہر کا حاکم مکر جاتا ہے اور شہر کے تمام لوگ اس کا خوب مذاق اڑاتے ہیں۔ غصے میں آکر، وہ ایسی دھن بجاتا ہے کہ تمام بچے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور کبھی واپس نہیں آتے، وہ بھی شاید چوہوں کی طرح سمندر غرق ہوجاتے ہیں۔ لالچی حکمران اور بے حس شہریوں کا خمیازہ، اس شہر کے بچوں نے کیوں بھگتا، میں سمجھ نہ سکی۔ پر اب سمجھ آگیا کہ جس شہر اور ملک کے یہ حالات ہوں، وہاں کے بچے غرق ہوجاتے ہیں اور کبھی واپس نہیں آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).