اللہ میاں نے بد دعا پینڈنگ میں رکھ لی تھی


جیسے ہی میں نے پرائمری پاس کی میری اماں کو میرے بالوں کی فکر لگ گئی تھی۔ وہ گاؤں کی مسجد کے سامنے لگے نیم کے گھنے درخت کے نیچے گری نمبولیاں کسی بچے کو بھیج کے منگوا لیتی تھیں۔ ہر ہفتے ان نمبولیوں سے بیچ نکال کے ان کو پیس کر سرسوں کے تیل کے ساتھ بالوں میں لگاتیں سندھی چوٹیاں اتنا کس کے کرتیں کہ میری تو چیخیں نکل جاتی تھیں۔ یہ سارا عمل شام کے ٹائم پہ ہوتا جب اڑوس پڑوس سے خواتین آجائیں تو خوب باتیں بھی ہوتیں تھیں۔ خوب میرے بال تیزی سے بڑھنے لگے تھے۔ سال ڈیڑھ سال میں اچھا قد کاٹھ نکال لیا۔ اب تومیں مشکل میں پڑ گئی۔ بالوں کو سلجھانے کے لئے کسی اور کی مدد کی ضرورت رہتی۔ لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم۔

ایک دن اماں کہیں سے کپڑا ناپنے والا گز نکال کے لائیں اور میرے بال ناپے یہ ایک گز تک لمبے ہوچکے تھے وہ ناپ کے فاتحانہ انداز میں مسکرائیں۔ مجھے اپنے گھر میں رکھے اس گز کو دیکھ کے حیرت ہوتی تھی کہ یہ میں کپڑے کی دکانوں پر ہی دیکھا تھا۔ کبھی اماں سے سوال کیا بھی تو جواب تسلی بخش نہیں ملاتھا۔ ہمارے گھر کے اسٹور نما کمرے میں یہ گز بستروں کے نیچے چھپا رہتا۔ باقی کمرے میں لوہے اور لکڑی کی کئی پٹیاں تھیں۔ لکڑی کی دو پٹیوں میں بابا کی کتابیں رکھی تھیں جب میں وہ نیم کے پتے بھی ڈلواتے رہتے تھے۔ ایک لکڑی کی بڑی پیٹی سفید رنگ کے کپڑے سے بھری رہتی تھی۔ جس کو بھی میں غور سے دیکھتی کہ یہ ساری ایک ہی رنگ کے کپڑے سے کیوں بھری رکھی ہے۔

پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سحری کے وقت گھر میں کچھ ہلچل سی مچی ہوئی تھی میری بھی آنکھ کھل گئی تب دیکھا کہ اماں وہ سفید کپڑا گز اور قینچی بابا کے ہاتھ میں دے رہی ہیں۔ وہ لے کے باہر چلے گئے جہاں کچھ لوگ انتظار کررہے تھے پھر کچھ دیر میں ہی وہ تینوں چیزیں واپس لے کے آئے۔ اس دن مجھے پتا لگا کہ یہ کپڑا کفن کے لئے رکھا ہے کہ گاؤں میں رات آدھی رات کو کسی کا انتقال ہوتو پریشانی نہ ہو۔ ہاں تو بات بالوں کی چل رہی تھی میرے بال میرے لئے وبال بن گئے تھے۔ کنگھی لے کے کسی نہ کسی کے پیچھے پھرنا پڑتا کہ اتنے گھنے اور لمبے بال اتنی چھوٹی عمر میں سلجھانا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ میں اکثر اپنے بالوں کو بددعائیں دیتی کہ یہ جھڑ جائیں اکثر کہتی اللہ میاں مجھے گنجا کردے اللہ میاں سن ہی نہیں رہے تھے پر اماں سن لیتیں اور ڈانٹ دیتی تھیں۔ میں اور میری بہن جب کالج پہنچے تو ہم دونوں کے ہی بال لمبے تھے۔ بہن کے بالوں پر کم محنت کی وجہ سے وہ میری نسبت کچھ کم گھنے تھے۔ پر ہمیشہ ہر وقت ساتھ ساتھ رہنے سے سب لوگ ہماری چوٹیوں پر توجہ دیتے کہ یہ خاصی لمبی ہوتی تھیں۔ کئی لڑکیاں گروپ کی شکل میں آکر ہم سے دوستی رکھتی تھیں۔

کئی پھول لاکے دیتی تھیں ہمیں چوڑیاں فلمی پوسٹ کارڈ اور رومال گفٹ میں ملتے تھے۔ رومال اس لئے کہ تب ٹشو پیپر ان دنوں عام نہیں تھے۔ انسان کی نفسیات ہے کہ پہلی نظر میں تو چمکیلی چیز ہی پسند کرتا ہے پر دوسری میں وہ اس سے چاہت رکھتا ہے ان کے مفاد کو عزیز رکھے۔ میری عادت تھی کہ کوئی بھی لڑکی اپنا مسئلہ بتاتی تو میں اس کے ساتھ ہولیتی تھی جیسے نوٹس کے لئے پریشان لڑکی کے لئے ڈھونڈا، ڈھانڈی کرکے نوٹس حاصل کرنا یا کوئی پیسے لانا بھول گئی ہے۔ تو اپنی گارنٹی پہ کینٹین سے چاٹ سموسے دلانا کہ کل پیسے لاکے دے گی۔ جونیئر لڑکیاں کلرک کی آفیس یا پرنسپل کی آفیس میں جاتے گھبراتی تھیں تو میں ان کے ساتھ چلی جاتی تھی۔

لڑکیوں کی اکثریت چادر یا برقعہ لیتی تھی کہ گھر والوں کی ہدایات بھی ہوتی تھیں۔ ایک لڑکی کی چادر گم ہوگئی یا چوری ہوگئی تو وہ سیدھی میرے پاس آئی۔ مسئلے کا حل یہ نکالا کہ ہاسٹل کی کسی دوست سے چادر لے کے دوں کہ بغیر چادر کے اس کے بھائی پٹائی کرسکتے تھے۔ دوسرے دن وہ لڑکی چادر ہاسٹل میں دے کے آئی۔ کچھ لوگ اپنی لڑکیوں پر پردے کی پابندی نہیں لگاتے تھے۔ میں ہروقت ہی سرگرم رہتی جس کی وجہ سے سب ہی لوگ مجھے جانتے تھے۔ میری ایک پنجابی سہیلی نے حساب لگا کے بتایا کہ کالج میں 80% فیصد لڑکیاں تمہیں پسند کرتی ہیں 10% فیصد کالج آتی نہیں اس لئے تمہیں پہچانتی ہی نہیں باقی 10% فیصد تم سے جلتی ہیں۔ وہ مجھے مذاق میں 80% فیصد کہہ کر بلاتی تھی۔ اب بھی اپنے شہر جا کے کبھی بازار نکلتی ہوں تو کئی شناسا چہرے جن کے نام بھول چکی ہوں ملتے ہیں بہت خوش ہوتی ہوں پر ساتھ ہی دل کے قریب ایک بم گولا پھٹتا ہے کہ یہ جونیئر تھی یہ اتنی بڈھی دکھ رہی ہے تو میں یقینا نانی اماں نظر آتی ہوں گی۔

دو دن کی بہار پیارے دو دن کی بہار۔ آگے بڑھیں میں بالوں کی بات کررہی تھی کالج تک پہنچنے میری چوٹی ایک میٹر لمبی ہوگئی تھی۔ شہر میں کئی بیوٹی پارلر کھل گئے تھے اور لیڈی ڈیانا لڑکیوں کی آئیڈیل تھی۔ لڑکیاں لیڈی ڈیانا بننے کے لئے دھڑا دھڑ بال بواء کٹ کروا کے آرہی تھیں۔ میرے دل میں بھی خواہش کروٹ لینے لگی تھی کہ بال بوائے کٹ کرواکے لیڈی ڈیانا جیسی بن جاؤں۔ اماں نے سنا تو بہت ناراض ہوئیں ان کو میرے بالوں سے بہت محبت تھی۔ محنت بھی تو بہت کی تھی۔ انہوں نے پارلر جانے نہیں دیا میں نے غصے میں آکر خود ہی ایک بالش تک بال کاٹ دیے تھے۔ کافی سالوں بعد جب میری شادی بھی ہوچکی تھی مجھے لگا بلکہ اور لوگوں نے احساس دلایا کہ میں کم سنتی ہوں یا سنتی ہی نہیں ہوں۔ مستقل ڈاکٹروں کے چکر لگنے لگے جو ناک کان گلے والے ہیں۔ پر کچھ فرق نہ آیا آخر کو حیدرآباد مشہور ڈاکٹر خالد رشید بات کو سمجھے اور میری ایم آر آئی کروائی پتا چلا اچھی خاصی سائز میں میرے دماغ میں ایک گومڑا پل پوس رہا ہے۔ جس کو جلد از جلد کھلوانا ہے۔ اب مجھے کراچی کے نیورو فزیشن ڈاکٹر بھٹی جو بہت ہی ہوشیار اور تجربے کار تھے دکھایا گیا۔ وہ بہت ہی آہستہ آہستہ بات کررہے تھے۔

بعد میں پتا چلا کہ وہ جان بوجھ کے بہت آہستہ بولنے لگے تھے کہ بتارہے تھے آپریشن تو میں کردوں گا اگر بچ گئی تو پوری زندگی معذور رہے گی۔ انہوں نے ہی ہمیں نئی ٹیکنالوجی گا ماریز کے بارے میں بتایا کہ جاکر دکھائیں کہ اگر وہ مسئلہ حل کرسکتے ہوں تو کرلیں۔ میری خوش نصیبی تھی کہ پاکستان میں یہ ٹیکنالوجی آچکی تھی۔ ڈاکٹر عبدالستار میمن جاپان سے سیکھ کے آئے تھے کافی ڈاکٹروں کو ٹریننگ بھی دے دی تھی۔ یہ نیورو میڈیکل انسٹیٹیوشن تھا جہاں اب میں آئی دوسرے دن آٹھ بجے بلاکر مجھے ایک مشین میں آدھے گھنٹے کے لئے ڈالا گیا تھا اس دن بھی حسب معمول ٹپ ٹاپ تیار ہوکے گئی تھی مطلب کاجل اور سرخی سے ہے۔ آدھے گھنٹے میں ہی گاما ریز سے گومڑے کو جلادیا گیا تھا اور توقع کے مطابق دماغ میں پانی پیدا ہونے پر دوائیں دی گئی تھیں۔ دماغ کا پانی زیادہ تھا دواؤں سے خشک نہ ہوا نیچے کے خور پر سر میں سخت درد چکر آنے لگے اور تو اور میں گجنی کی طرح کسی کو پہچان ہی نہیں پا رہی پانی نکالنے کے لئے پھر بھٹی صاحب نے نقلی نس لگائی سر کے آدھے بال گنجے کیئے اور پانچ گھنے آپریشن کیا۔ ویسے بھی گاماریز سے میرے باقی بال بھی جھرنے لگے اور گنجی ہونے لگی۔ ہمیشہ سوچ سمجھ کے خدا سے مانگا جائے دعا یا بددعا اللہ میاں پینڈنگ میں رکھ لیتے ہیں تب پوری کرتے ہیں جب ہم دستبردار ہوچکے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).