جنسی تنوع، مسائل اور ہماری لاعلمی


\"fahadمحترم سلیم جاوید صاحب نے محترمہ لبنیٰ مرزا صاحبہ کے خالصتاََ سائنسی و معلوماتی مضمون کے جواب میں ایک مضمون لکھا اور یہ ساری خامہ فرسائی جنسی تنوع کے لیے عوامی اور خاصی حد تک بازاری اصلاحات کا بےمحابا استعمال کرتے ہوئے \”مخنث، لوطی اور تصوف\” کے نام سے موضوع باندھ کر کی گئی۔ اگر تمام تر خوش گفتاری اور موضوع سے لا علمی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقی معلومات کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اگرچہ صاحب مضمون ہم جنسی میلانات کو قابل تعزیر نہیں مانتے لیکن اس کے علاج میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیرمعمولی جنسی میلانات کسی بھی شخص کو \”نفسیاتی معذور\” نہیں بناتے۔

جدید نفسیاتی تحقیق اور امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے نفسیاتی امراض کے تشخیص و شماریاتی مجلے (Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders of the American Psychiatric Association) کے مطابق ہم جنس پرستی کو مرض شمار نہیں کیا جاتا۔ مزید یہ کہ جنسی میلانات ایک تسلسل کی طرح ہیں اور کسی بھی میلان کو صرف سیاہ و سفید کی طرح بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے کچھ لوگ اپنی جنسی  شناخت کو کسی ایک لفظ میں  مقید نہیں کرتے۔ جیلوں اور دوسرے مذکورہ حالات میں ایسا رویہ صرف اس لیے دیکھنے کو ملتا ہے کیوںکہ جنسی آسودگی کے دوسرے ذرایع موجود نہیں ہوتے اور ایسے افراد معاشرے کا حصّہ بننے کے بعد مروجہ جنسی میلانات کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ جنسی تنوع فطری مظہر ہے اور انسانی طبع اس معاملے میں آزاد ہے، کبھی بھی کوئی اپنی رائے یا علاج سے جنسی میلان کو تبدیل نہیں کر سکتا اور ایسا نہ سمجھنا صرف لا علمی کا نتیجہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں جنسی تعلیم کو ٹھیک نہیں سمجھا جاتا جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کنوار پن کا صرف عورتوں کے لیے طے کردہ معیار ہے۔ جدید سائنسی تحقیق اس بات پر زور دیتی ہے کہ پردہ بکارت جنسی فعل کے بغیر بھی ضائع ہو سکتا ہے۔ اس بات کا تذکرہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حال ہی میں جیکب آباد میں ایک 17 سالہ دوشیزہ کو شادی کی پہلی ہی رات میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایسا کرنا صرف لا علمی کا ہی نتیجہ ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مشقتی کام اس نازک عضو کے زائل ہو جانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس بیکار عضو کا کوئی خاص کام نہیں ہے اور اس کا پیداشی یا حادثاتی طور پر نہ ہونا ایک عفیفہ کی زندگی کو اجیرن بنا سکتا ہے یا پھر اسکی زندگی کے خاتمے پر منتج ہو سکتا ہے۔ سائیکل، موٹر سائکل چلانا، گھوڑے کی سواری یا پھر اتھلیٹک کھیلوں میں حصہ لینا بھی اس کے زائل ہونے کا سبب بن سکتا ہے، غرضیکہ ہر نئی بات جان کر بجائے سیخ پا ہونے کے حقیقت کا ساتھ دینا چاہئیے اور اپنی لاعلمی کے اظہار کا کوئی اور بہتر طریقہ ڈھونڈھنا چاہئیے۔

اس موضوع پر مندرجہ ذیل سائنسی ماخذ سے مزید معلومات لی جا سکتی ہیں اور اس مضمون کے لیے بھی انہی ماخذ سے مدد لی گئی ہے۔

American Psychiatric Association۔ (2013)۔ Diagnostic and statistical manual of mental disorders (5th ed۔)۔ Washington, D۔C۔: Author۔

Cohen, K۔ M۔ (Feb 2002)۔ Relationships among childhood sex-atypical behavior, spatial ability, handedness, and sexual orientation in men۔ Archives of Sexual Behavior 31۔1: 129-43۔

Diamond, L۔ M۔, (2008)۔ Female bisexuality from adolescence to adulthood: Results from a 10-year longitudinal study۔ Developmental Psychology, (44), 1, pp۔ 5–14۔

Lisa M۔ James, W۔ H۔ (2005)۔ Biological and psycho-social determinants of male and female human sexual orientation۔ Journal of Bio-sociological Science۔ (37, 555-567)۔

Ridley, M۔ (2003)۔ Nature via nurture: Genes, experience, & what makes us human۔ (pages 103, 159-63, 243, 280)

Wright, R۔ (1994)۔ The moral animal: Why we are the way we are: The new science of Evolutionary Psychology۔ (pages 384-365)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments