وٹے سٹے میں ٹھرک


وٹے سٹے کی شادی، ونی، بازو کے بدلے بازو، (بازو پنجاب میں عورت کو کہتے ہیں۔) بدلے کی شادی۔ یہ ذکر تو آپ نے سنے ہوں گے۔ ایک اور ٹرم بھی ہے۔ وہ ہے ٹھرک میں وٹہ سٹہ۔ اس وٹے سٹے کی نذر زیادہ تر جو خواتین ہوتی ہیں وہ سالیاں ہوتی ہیں۔ آسان ترین دلجوئی کا سامان۔ پتہ نہیں کس نے یہ محاورہ ایجاد کیا تھا کہ سالی آدھے گھر والی۔ یوں تو کسی نے نہ کہا کہ دیور آدھے گھر والا۔ قافیہ ردیف نہیں ملتا شاید اس لئے۔ میں کون ہوتی ہوں یہ کہنے والی اور مردوں کو بدنام کرنے والی کہ بھائی وہ تو حاکم ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی ایسا بے ہودہ محاورہ جوڑے توبہ توبہ۔ یہ اور بات ہے کہ بدنام ہونے کے لئے پہلے نام چاہیے۔ خیر چھوڑیں میں تو پہلے ہی بہت منہ پھٹ ہوں۔ کچھ بھی کہ جاتی ہوں۔ پر میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ یہ مشہور جملہ کہ کر اپنی جان بچا جاؤں تو بہتر ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی ٹھرک میں وٹے سٹے کی۔ تو ہوتا کچھ یوں ہے کہ بہنوئی اپنے سسرال میں چاہا یا ان چاہا مائی باپ ہوتا ہے۔ سرائیکی کا محاورہ ہے کہ “جنہاں دتے وال انہاں دی کی مجال”۔ مطلب لڑکی دے کر ہم نے تو اپنے بال داماد کی مٹھی میں پکڑا دیے ہیں۔ جب چاہے وہ انھیں نوچے۔ ہمارے یہاں یہ مہلک جراثیم بہنوئی بری طرح گھریلو بیماریاں پھیلا رہا ہے۔ سارے نہیں تو آدھے ضرور۔ سالی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ان کا پسندیدہ شغل ہے جو بیوی سمیت سب برداشت کرتے ہیں۔ رہی بات وٹے سٹے کی تو دونوں ہم زلف بڑا لطف لیتے ہیں۔ ایک نے سالی پر ٹھرک جھاڑی تو دوسرے کو بھی جیسے گرین سگنل مل گیا کہ بھیا تم نے میری بیوی کے ساتھ ٹھرک بازی کی اب میں تمہاری بیوی پر حق رکھتا ہوں۔ بجائے اس کے کہ شوہر حضرات اپنی اپنی بیویوں کا تحفظ کریں۔ وہ لطف لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ہنسی مذاق ہی تو ہے۔ جبکہ دونوں بہنیں اچھی طرح جانتی ہوتی ہیں کہ بہنوئی کی نیّت میں کھوٹ ہے۔ سالی اگر خود اسٹینڈ لے تو اس کی بہن کو خاوند کے عتاب کا سامنا ہوتا ہے۔ دونوں آپس میں جل کڑھ کر چپ ہو جاتی ہیں۔

یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ صرف سالیوں تک ہی بات محدود نہیں بلکہ قریبی عزیزوں اور رشتے داروں میں بھی یہ لیں دین چلتا ہے۔ میرا پیارا شوہر اپنے چچا کی بیٹی کے ساتھ دلگی کیا کرتا تھا۔ اس خاتون کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر اس کا بیٹا اس بات سے بچپن سے ہی خائف تھا۔ ایک دن میں کچن میں کھڑی تھی کہ اچانک ان خاتون کے بیٹے نے جو کہ اب جوان ہو چکا تھا مجھے پیچھے سے پکڑ لیا۔ میں نے ڈانٹا تو جواب ملا کہ تمہارا شوہر میری ماں کے ساتھ ایسا مذاق کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنے سے دس سال چھوٹے لڑکے کو سمجھایا کہ تمہیں اس بات پر میرے شوہر سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے یا اپنی ماں سے۔ میرا کیا جرم ہے؟ تو وہ بچہ بولا مذاق ہی تو کیا ہے۔ کون سا میں نے آپ کی بے عزتی کی ہے۔ اس لڑکے نے بھی اصل مجرم کو چھوڑ کر ٹھرک میں وٹہ سٹہ کر لیا۔ اور میں اپنی بدنامی کے خوف سے چپ ہو گئی۔ مگر اس لڑکے کو اوقات پر رکھنا شروع کر دیا۔ ایسے شوہر بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔ اپنے خاندان کی خواتین کی کبھی عزت نہیں کر پاتے اور ان کا کیا دھرا دوسروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

میں نے ایک محفل میں خود مشاہدہ کیا کہ ایک خاتون کے شوہر کی موجودگی میں ایک دل جلا ان کی بیوی کی رانوں کو بیہودہ انداز میں چھو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر کو توجہ دلائی تو انہوں نے صرف ایک مسکراہٹ دے کر منہ پھیر لیا۔ اس خاتون نے گھوریاں مار کر اور ہاتھ جھڑک کر خلاصی کروائی۔ اٹھنے کی کوشش کی تو میاں جی نے ہاتھ پکڑ لیا۔ بعد میں کہا کہ وہ برا مان جاتا۔ کیوں میاں؟ تم ان کی عورتوں کو تنگ کرو اور بدلہ چکاؤں میں۔ یہ سننے میں شاید چھوٹی باتیں ہوں۔ مگر طرح طرح کے تلخ رویے اس معاشرے کی بے بس عورتوں میں زہر بن کر اترتے رہتے ہیں۔ اور پھر طعنہ ملتا ہے کہ وہ تو ہوتی ہی بدحواس ہیں۔

مگر میرا سوال ہر اس جوان اور بوڑھے سے ہے کہ بھیا اپنے اندر ابلتے لاوے کو تم صحیح جگہ پر نکال نہیں پاتے ہو تو یہ تمہارا بزدلانہ فعل ہے اور نہایت بودی توجیح ہے کہ تم بدلے میں ٹھرکی کی عورتوں پر ٹھرک جھاڑو اور انھیں ہراساں کرو۔ اپنے بیمار ذہنوں کی تسکین کو بدلے کا نام نہ دو۔ خود کو فریب نہ دو۔ مان جاؤ کہ تمہاری اپنی ہی نیّت صاف نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).